منگل، 30 مارچ، 2021

فرضوں کی تیسری ،چوتھی رکعت میں فاتحہ پڑھنے کا حکم مفتی آصف گودھروی

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وعلمائے عظام  اس مسئلہ کے بارے میں کہ حدیث(لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب) کہ نماز بغیر فاتحہ کے نہیں ہوتی احناف نے اس حدیث میں کاملۃ کو محذوف مان کر نماز میں فاتحہ کو واجب قرار دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اس حدیث سے فاتحہ کو واجب قرار دیدیا گیا تو فرض کی پہلی ہی دورکعت میں وجوب کی تخصیص کیوں بعد والی رکعتوں میں بھی وجوب کا حکم ہونا چاہئے۔ لہذا چار اور تین رکعت والے فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے یا نہیں اس کی وضاحت مطلوب ہے؟ یا پھر خاموش بھی رہ سکتے ہیں؟ مدلل و مفصل جواب مطلوب ہے

سائل: صادق حاجی میٹھی بوروالا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


فرائض کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانا واجب ہے، اور آخر کی دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا سنت ہے، لہذا فرض نمازکی تیسری اورچوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا افضل اور سنت کی قبیل سے ہو گا نہ کہ فرض یا واجب۔

اسی طرح ان رکعتوں میں تسبیح پڑھنے اور تین تسبیح بقدر خاموش رہ کر رکوع کرلیں تب بھی کوئی حرج نہیں ہے، اورتین بارسبحان اللہ کہنا یا اتنی مقدار خاموش کھڑا رہنا بھی جائزہے، لیکن تسبیح پڑھنا خاموش رہنے سے بہترہے۔ جیسا کہ فتاوی تاتار خانیہ میں ہے۔

محل القراء ۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفي الفرائض محل القراءۃ الرکعتان، حتی یفترض القراءۃ فی الرکعتین، إن کانت الصلاۃ من ذوات المثنی یقرأ فیہما جمیعاً، وإن کانت من ذوات الأربع یقرأ في الرکعتین الأولیین، وفي الآخرین بالخیار إن شاء قرأ، وإن شاء سبح وإن شاء سکت۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ، الصلاۃ / باب القراء ۃ ۲؍۵۶-۵۷ )

ترجمہ: فرائض میں قرأءت کا محل دورکعت ہے اگر نماز دورکعت والی ہے تو سب میں اور چار رکعت پڑھنے والے کے لیے پہلی دو رکعت میں قرأءت کریں اور دوسری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے اور تین مرتبہ تسبیح کہنے اوراس مقدار چپ رہنے میں اختیار ہے۔

اسی طرح درمختار میں ہے:

”واکتفی المفترض فیما بعد الأولیین بالفاتحة فانھاسنۃ علی الظاھر ولو زاد لابأس بہ (وھو مخیر بین قراء ة) الفاتحة (وتسبیح ثلاثا) وسکوت قدرھا“ (درمختار،کتاب الصلاۃ، ج٢، ص٢٧٠،مطبوعہ کوئٹہ)

سوال میں پیش کردہ حدیث

آپ نے جو روایت پیش کی ہے وہ بالکل صحیح اور درست ہے لیکن آپ کے استدلال میں صریح نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس حدیث میں فاتحہ کا حکم ضرور ہے لیکن کس رکعت میں فاتحہ پڑھی جائے اور کس میں نہ پڑھی جائے اس کی کوئی صراحت و وضاحت نہیں ہے اور جس حدیث میں کسی حکم کی صراحت نہ ہوتو اس کی وضاحت کے لئے دوسری احادیث کو دیکھا جائے گا، جب ہم دوسری احادیث و آثار کو دیکھتے ہیں تو اس سلسلہ میں ہمیں دوقسم کی روایت نظر آتی ہے۔

(١) وہ احادیث جو تیسری اور چوتھی رکعت میں قرأءت فاتحہ کی طرف مشیر ہے 

اس صورت میں فرض کی تیسری اورچوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں صحیح بخاری میں ہے:

”ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقرأ فی الظھر فی الأولیین بأم الکتاب، وسورتین، وفی الرکعتین الأخریین بأم الکتاب“(صحیح بخاری ،کتاب الاذان ،باب یقرأ فی الاخریین،ج١،ص١٠٧، مطبوعہ کراچی )

بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دورکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دوسورتیں تلاوت فرماتے تھے اور آخری دورکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ تلاوت فرماتے تھے ۔

وحديث أبي قتادۃ أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقرأ في الرکعتین الأولیین بفاتحۃ الکتاب وسورۃ، وفي الاخرین بفاتحۃ الکتاب۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ۲۶۱/۳رقم: ۳۷۴۱) ۔


(٢) وہ احادیث جو تیسری اور چوتھی رکعت میں عدم قرأءت فاتحہ کی طرف مشیر ہے

 اوردوسری صورت میں فرض کی آخری دورکعتوں میں کچھ بھی نہ پڑھنے کے بارے میں  مؤطاامام مالک میں ہے:

”أن عبد اللہ بن مسعود کان لا یقرأ خلف الامام فیما جھر فیہ، وفیما یخافت فیہ فی الأولیین، ولا فی الأخریین، واذا صلی وحدہ قرأ فی الأولیین بفاتحة الکتاب وسورة، ولم یقرأ فی الأخریین شیئا“(مؤطا امام مالک ،باب افتتاح الصلاة،ص٦٢، مطبوعہ  المکتبة العلمیہ)

ترجمہ: بے شک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے جہری اور سری دونوں نمازوں میں پہلی دو رکعتوں اورآخری دورکعتوں میں قراء ت نہیں کرتے تھے اور جب تنہا نماز پڑھتے تو پہلی دورکعتوں میں سورہ فاتحہ اورساتھ میں سورت کی قراء ت کرتے تھے اورآخری دورکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے تھے ۔

اسی طرح مصنف عبد الزراق میں ہے:

”عن عبید اللہ بن أبی رافع قال کان یعنی علیا یقرأ فی الأولیین من الظھر والعصر بأم القرآن وسورة، ولا یقرأ فی الأخریین“ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الصلاہ، باب کیف القراء ة فی الصلاة، ج٢، ص١٠٠،مطبوعہ المکتب الاسلامی، بیروت)

ترجمہ: عبید اللہ بن ابی رافع رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ظہراور عصر کی پہلی دورکعت میں سورہ فاتحہ اور ساتھ میں سورت کی قراء ت کرتے تھے اور آخری رکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے تھے ۔

اسی طرح مصنف عبد الرزاق میں حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

”ما قرأ علقمة فی الرکعتین الأخریین حرفاقط“ (مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاہ،باب کیف القراء ة فی الصلاة،ج٢،ص١٠٠،مطبوعہ المکتب الاسلامی، بیروت)

ترجمہ: حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ( فرض کی )آخری دو رکعتوں میں ایک حرف بھی نہ پڑھتے تھے۔

اورفرض کی تیسری اورچوتھی رکعت میں تسبیح پڑھنے کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:

”یقرأ فی الأولیین، ویسبح فی الأخریین“ (مصنف ابن ابی شیبة،کتاب الصلاہ،من کان یقول یسبح فی الاخریین،ج١،ص٣٢٧، مطبوعہ ریاض)

ترجمہ : کہ (نمازی )پہلی دورکعتوں میں قراء ت کرے اورآخری دورکعتوں میں تسبیح کرے ۔   

اسی طرح دگر کتب میں منقول ہے

وعلي وابن مسعود کان یقولان: المصلي بالخیار في الأخریین إن شاء قرأ وإن شاء سکت وإن شاء سبّح، وسأل رجل عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہ عن قراءۃ الفاتحۃ في الأخریین فقالت: ’’لکن علی وجہ الثناء‘‘ ولم یرو عن غیرہم خلاف ذٰلک فیکون ذٰلک إجماعاً ولأن القراءۃ في الأخریین ذکر یخافت بہا علی کل حالٍ فلا تکون فرضا کثناء الافتتاح۔ (بدائع الصنائع / الکلام في القراءۃ۲۹۵ /۱زکریا،۵۲۴ /۱تا۵۲۵کتاب الصلٰوۃ، دار الکتب العلمیہ،بذل المجہود ۷۵ /۳تا۷۶، کتاب الصلٰوۃ، دار الکتاب العلمیہ،۷۲/۳تا۷۳ کتاب الصلاۃ/باب صلوٰۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود،دار الفکر بیروت)۔


ان روایات وآثار میں تطبع و تدبر سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فرض کی پہلی دورکعتوں میں فاتحہ واجب ہے البتہ بعد والی دورکعتوں میں واجب نہیں ہے سنت ہے۔ قرأءت فاتحہ کے سلسلہ میں مزید تفصیل و ضاحت مطلوب ہو تو نیچے دیگئی لنک پر کلک کریں۔

http://library.ahnafmedia.com/18-masail-aur-dalail/631-imam-k-pichay-qirat-fatiha-na-karna

 العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا



جمعہ، 26 مارچ، 2021

کھانا میٹھی چیز سے شروع کرناسنت ہے یا نمکین سے مفتی آصف گودھروی

 

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ عوام میں یہ بات بہت زیادہ مشہور ہے کہ کھانا کھانے کے بعد میٹھا کھانا سنت ہے، اور اسی بنیاد پر بہت سے لوگ کھانے کے بعد میٹھا کھانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ لہذا یہ بات واضح کیجئیے کہ کھانا کھانے کے شروع میں  میٹھا کھانا مسنون ہے یا نمکین؟ سب لوگ الگ الگ باتیں کہتے ہیں۔ اسی طرح کھانا شروع کرنے سے پہلے نمک چاٹنا یانمک سے کھانے کی ابتداء کرنا اورنمک پر ہی کھانے کو ختم کرنا ، کیا ایسا کرنا احادیث و آثار سےثابت ہے؟ بعض فقہی کتب میں جو سنت یامستحب لکھا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟  مدلل ومفصل جواب تحریر فرمائیں مہربانی ہوگی۔

سائل: حافظ خالد اندوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

عوام میں جو مشہور ہے کہ کھانے کے بعد یا کھانے سے پہلے میٹھا کھانا سنت ہے، اس کی مجھے کہیں صراحت نہیں ملی، لہذا میٹھا کھانے سے پہلے ہو یا درمیان میں یا بعد میں اس کا تعلق امورِ عادیہ سے ہے نہ کہ سننِ شرعیہ سے

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا ضرور پسند تھا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ۔ 

کان رسول اللہ ﷺ یحب الحلوٰی والعسل۔ (صحیح البخاری : ۲/۸۱۷ ، کتاب الأطعمۃ ، باب الحلوٰی والعسل)

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھا اور شہد پسند فرماتے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانے کے بعد میٹھا کھانےکامعمول ہو یہ  کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

البتہ ایک موقع پر کھانے کے بعد میٹھی چیز نوش فرمانا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔حضرت عکراش بن ذویب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے آخر میں کھجور تناول فرمائی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کے آخر میں آپ ﷺ نے میٹھی چیز کھائی ہے.

(جامع الترمذی، ابواب الاطعمة، باب ما جاء فی التسمیة فی الطعام،ج: ۲، ص: ۱١، سعید)

 لیکن ایک آدھ مرتبہ کھانے کے بعد میٹھی چیز تناول فرمانے کی بنا پر کھانے کے بعد میٹھے کو سنت نہیں کہاجائے گا۔

ابتداء بالملح انتہاء بالملح کی حقیقت

کھانے کے آداب میں سے ایک ادب یہ بتایا گیا ہے کہ کھانا نمکین سے شروع کیا جائے اور نمکین پر ہی ختم کیا جائے۔ میٹھی چیز درمیان میں کھالی جائے۔۔ لیکن نمکین سے ابتداء اور نمکین پر اختتام یہ طبی اعتبار سے تو مفید ہوسکتا ہے کہ اس سے معدہ پر اچھا اثر پڑتا ہے صحت کے لئے زیادہ مفید ہے، البتہ مستحب سنت اور واجب نہیں ہوسکتا۔ 

اور فقہی کتب میں جو مستحب یا سنت لکھاہے، اس سلسلہ میں احسن الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ۔ کھانے کی ابتدا وانتہاء میں نمک چکھنے کے بارے میں جو اقوال کتب متداولہ میں مذکور ہیں وہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ، اس بارے میں جتنی بھی احادیث ہیں سب موضوع ہیں۔ لہذا ابتداء وانتهاء طعام الملح کو سنت قرار دینا تسامح ہے۔

 
في حاشية فردوس اخبار سید ادامکم الملح في اسنادہ عیسی بن ابی عیسی متروك کما في التقريب لابن حجررحمہ الله تعالى و قال الذہبی  في ترجۃ عیسی ضعفه احمد وغيره وقال الفلاس والنسائي متروك (فردوس اخبار ج٢/٤٦٣ ) 

وقال العلامة السيوطي رحمہ الله تعالى : حديث یا علي علیک بالملح، فإنہ شفاء من سبعین داء، الجذام والبرص والجنون۔ لا يصح والمتهم بہ عبدالله بن احمد بن عامر اوابوہ فإنهما يرويان نسخة عن أهل البيت لها باطلة ( اللآلي المصنوعة ج٢/٢١١ ) 

وقال الملا على القاري رحمہ الله تعالى : ومنها وصايا على كلها موضوعۃ سوي الحديث الأول وهو ياعلي انت مني بمنزلة هارون من موسی غیرانہ لانبی بعدی قال الصنعاني ومنها وصايا على كلها التي أولها ياعلى لفلان ثلاث علامات (الأسرار المرفوعة ص ۳۸٨ )

وقال العلامة الشوكاني رحمه الله تعالى حدیث ياعلي عليك بالملح فانہ شفاء من سبعين داء ھو موضوع ( الفوائد المجموعة ص١٦١ )

 وفي التعليقات على الكشف الالھي : عليكم بالملح فإنه شفاء من سبعين داء من الجنون والجنام والبرص قال العجلوني ولعلہ موضوع ونص ابن القيم على انه موضوع الكشف الالھي ج١ ص٣٩٢) أحسن الفتاوي ج٩/٩١)

حضرت مولانا اشرف صاحب علی تھانوی کے ایک جواب کا خلاصہ

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے ان کتب متداولہ کے اقوال کے بارے میں بہت اچھی رائے پیش کی ہے، ان کے ایک طویل جواب کا ماحصل یہ ہے، کہ  نمک یانمکین سے کھانا شروع کرنا اور ختم کرنا فقہاء نے مسنون لکھا ہے لیکن کسی صحیح اور صریح حدیث میں اس کا ثبوت نہیں ملتا البتہ بعض نہایت کمزور اور موضوع قسم کی روایت میں اس کا ذکر موجود ہے اس لئے اس کو باضابطہ سنت یامستحب نہیں کہا جاسکتا ہاں البتہ اتنی بات ہے کہ اس زمانہ میں نمکین یا نمک سے شروع کر کے کھانا کھانے کے بعد پھر نمک چکھنے کی عادت رہی ہے تو اس کو سنن عادیہ کہا جاسکتا ہے توحضرات فقہاء نے سنن عادیہ کی قبیل سے لکھا ہے سنن ہدیٰ کی قبیل سے نہیں اور اس کا مدار عادت اور رغبت پر ہے شریعت پر نہیں۔ (مستفاد: امداد الفتاوی ۴؍۱۱۲)

اس پورے جواب کا خلاصہ یہ ہوا کہ میٹھی چیز سے کھانے کی ابتداء و انتہاء اور نمکین سے ابتداء و انتہاء کی روایات اتنی کمزور ہے کہ اس سے استحباب و سنیت ثابت نہیں ہوسکتی،  اور حضرات فقہاء نے جو لکھا ہے وہ سنن عادیہ کی قبیل سے لکھا ہے سنن ہدیٰ کی قبیل سے نہیں اور اس کا مدار عادت اور رغبت پر ہے شریعت پر نہیں، اور یہ طبی اعتبار سے مفید ضرور ہے اس سے معدہ پر اچھا اثر پڑتا ہے صحت کے لئے زیادہ مفید ہے۔

فقط والسلام: واللہ اعلم بالصواب

العارض: مفتی آصف گودھروی 

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا


منگل، 23 مارچ، 2021

ہیلتھ انشورنس کا شرعی حکم مفتی آصف گودھروی

سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا ہوں میری تنخواہ کے علاوہ میری کمپنی مجھے ہیلتھ انشورنس دیتی ہے میری کمپنی کا پارٹنرشپ ایک انشورنس کمپنی سے ہے۔ تو یہ انشورنس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟ 

سائل: محمد ناصر انڈمان

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


ہیلتھ انشورنس کی تین صورتیں ہیں

(١) کمپنی ازخود اپنی طرف سے انشورنس کردیں

یعنی آپ خود کوئی رقم انشورنس کمپنی کو نہیں دیتے اور نہ ہی آپ کمپنی سے انشورنس کرانے کا کوئی معاملہ کرتے ہیں؛ بلکہ کمپنی از خود آپ کی طرف سے رقم جمع کرکے آپ کا انشورنس کرادیتی ہے تو آپ کے لیے کمپنی کی طرف سے ملنے والے ہیلتھ انشورنس کارڈ سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے۔

مستفاد شامی
( فلو شرى الخ ) تفريع على مفهوم قوله : « مشروط ) . قوله : ( وزاده دانقا ) أي ولو لم يكن مشروطا في الشراء كما هو في عبارة الذخيرة المنقول عنها ، فلو مشروطا وجب رده لو قائمة كما مرعن القنية (شامی ج٧/٤٠١)

(٢) کمپنی کی طرف سے لازمی اور ضروری ہو

 اگرکمپنی یا حکومت کی طرف سے لازم اور ضروری ہے۔ اور ملازم چاہے یا نہ چاہے کمپنی یا حکومت اس کا انشورنس ضرور کرتی ہے، تو کمپنی یا حکومت نے جتنی رقم انشورنس کی مد میں جمع کی ہے اس کے بقدر انشورنس کمپنی سے علاج کرانا درست ہے۔  چونکہ یہاں مجبوری ہے، تو بر بناء ضرورت و اضطرار شرعا بقدر ضرورت اور بدرجہ مجبوری الضرورة تبيح المحظورات اور الضرر يزال اور المشقة تجلب التيسير کے تحت علماء نے انشورنس کرانے کی گنجائش دی ہے۔ 

المشقة تجلب التيسير ويتخرج على هذه القاعدة جميع رخص الشرع وتخفيفاته الأشباه ج ١٤٥ / ۱-)

الضرر يزال ............. وتتعلق بها قواعد الأولى الضرورات تبيح المحظورات . ومن ثم جاز أكل الميتة عند المخمصة وإساغة اللقمة بالخمروالتلفظ بكلمة الكفر للإكراه ۔ ( الأشباه ج۲۷۰/۱ )  

(٣) خود انشورنس کروانا جو لازمی نہ ہو

یہ بات ذہن میں رہے کہ زمانے کی جدت  کے  ساتھ ساتھ  ہر چیز کے اندر جدت اور تبدیلی آرہی ہے،  اسی حقیقت کے پیشِ نظر سودی کاروبار اور جوئے کی شکلوں میں بھی خاصی تبدیلی آگئی ہے، لیکن ان شکلوں کے بنیادی عناصر کو دیکھا جائے  تو ان کی اصلیت  کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

انشورنس کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے،  دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے، نیز انشورنس کے اندرسود کے ساتھ "جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآن و حدیث کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، کسی زمانے کی کوئی مصلحت اس حرام کو حلال نہیں کرسکتی۔

انشورنس میں سود اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد  رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے،  اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں  میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے، اسی طرح اس میں  جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی  پایا جاتا ہے،  اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے فاسد قرار دیا ہے، لہذا کسی بھی قسم کا  انشورنس کرنا  اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

( عن عبد الله قال : لعن رسول الله الله آكل الربا وموكله ، قال : قلت : وكاتبه وشاهديه ؟ قال : إنما نحدث بما سمعنا . ( مسلم : ص ۲۷ ) (وعن جابر قال رسول الله علیہ وسلم : آكل الربا ومؤكله • وكاتبه وشاهده وقال هم سواء ) - ( مسلم ص ۲۷ جلد ۲. ترمذی ص ۲۲۹ )

( یايها الذين آمنوا إنما الخمر والميسر والأنساب والأزلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه لعلكم تفلحون ) ( المائدة : ٩٠ )

المعاملة المالية میں قمار پر بحث کرتے ہوئے اسی اصول کی طرف اشارہ کیا ہے :
عرفه بعض الحنفية بقولهم : تعليق تمليك المال على الخطر . و قال ابن عابدين : تعلق تمليك على سبيل المخاطرة . وعرفه الإمام مالك بقوله : ميسر القمار : ما يخاطر الناس عليه ۔ المعاملات المالية أصالة ومعصرة جلد ٤ ص ۳۰۹ دبيان بن محمد الدبیان

"من حمل علينا السلاح فليس منا ومن غشنا فليس منا" ( مسلم شریف ج ١/٧٠ )  

ھذا ما عندی: واللہ اعلم بالثواب

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا

اتوار، 21 مارچ، 2021

وکیل بالشراء کی شرعی حثیت مفتی آصف گودھروی

 

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بعد سلام بصد احترام عرض ہے کہ مفتی صاحب خالد نے عارف کو 200000/-روپے ایک مال کے لیے دئیے ہیں اور عارف نے اس روپیہ کو خالد کی اجازت کے بغیر دوسرے مال میں استعمال کئے (مثلاً نلگری کی لکڑی کے لیے پیسے دئیے) دوسرے شخص نے ان پیسوں کو پہلے شخص کو بتائے بغیر دوسرے کسی مال میں استعمال کرلئے (مثلاً نیم کی لکڑی میں استعمال کرلئے) تو کیا عارف کا یہ کام کرنا شریعت کی روشنی میں درست ھے، اور ان پیسوں کا کیا حکم ہے۔ مع حوالہ جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں

سائل: مولوی لقمان گودھروی

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی

وکیل بالشراء کے پاس جو مال ہے وہ بطور امانت ہے، اس میں مؤکل کی اجازت کے بغیر اس کو کسی اور شئی میں تصرف سے احتراز ضرورى ہے۔ اس لئے کہ وکیل امین ہوتا ہے،

كمافي شرم المجلة: المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وايفاءالدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده. ( ٤/٤٣٢ ) 

لہٰذا اس کو حکمِ مؤکل کے خلاف تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا، اگر وکیل بالشراء مؤکل کے حکم کے خلاف کسی اور شئی کو خریدے گا تو وہ اس شئی کو اپنے لئے ہی خریدنے والا ہوگا وہ مؤکل کے لئے شمار نہیں ہوگی، مؤکل کے لئے وہی چیز خریدنا لازم ہے جس کی اس نے وضاحت کی ہے۔

البحرالرائق میں اس طرح کے مسئلہ کی وضاحت کچھ اس انداز میں کی ہے۔

( فلو اشتراه بغير النقود أو بخلاف ما سمي له من الثمن وقع للوكيل ) لأنه خالف أمره فنفذ عليه. أطلقه فشمل المخالفة في الجنس وفي القدر كما في البزازية ، (البحر ج٧/٢٦٩)

وقيد بقوله « ما يباع إلى آخره لأنه لو اشترى ما يساوي عشرين منه بدرهم صار مشترية لنفسه إجماعا لأنه خلاف إلى شر لأن الأمر تناول السمين وهذا مهزول فلم يحصل مقصود الأمر(البحر ٧/٢٦٧)

اسی طرح علامہ شامی اس طرح کے ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔

ولو شری مالا يساوي ذلك وقع للوكيل إجماعا كغیر موزون (شامی ج٨/٢٥١)

البتہ مالک کی اجازت سے اس سے کوئی اور شئی خریدی جاسکتی ہے، اور چونکہ بیع و شراء کا وکیل بحیثیت امین کے ہوتاہے، اور امانت کی رقم اگر اپنے لئے استعمال کرلی جائے تو یہ امانت کے حکم سے نکل جائے گی، اور  مضمون ہوجائے گی، اور اس کا بدل لازم آئے گا۔

الوديعة لا تودع ، ولا تعار ، ولا تؤاجر ، ولا ترهن ، وإن فعل شيئا منها ضمن . ( هندية ، کتاب الوديعة ، الباب الأول ، زکریا قدیم ۳۳۸/٤ ، جديد ۳٣۹/٤) 

لہذا وہ پیسے اس نے صاحب مال کی اجازت کے بغیر کسی اور شئی کو خرید نے میں خرچ کردئیے ہے، مؤکل کی منشاء کے خلاف خریدنے سے وہ چیز اسی کے لئے شمار ہوگی اور اس کو یا تو مؤکل کی منشاء کے مطابق خریدنا ہوگا یا رقم واپس کرنی ہو گی۔

فقط والسلام: واللہ اعلم بالثواب

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا

جمعہ، 19 مارچ، 2021

کسی کا قرض چکانے کی ذمہ داری لی ہے تو اس کا شرعی حکم مفتی آصف گودھروی

سوال

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

حضرت مفتی  صاحب میرے والد صاحب نے ہمارے بہنوئی کو ایک گاڑی کھاد کی اپنے پہچان والے آدمی سےدلوائی تھی ہمارے بہنوئی غلط بہانے بنا کر سامنے والے آدمی کو payment نہیں دیتے ہیں۔ ہمارے والد کا انتقال ہوگیا ہے کھاد والا اب مجھ سے payment مانگ رہا ہے کہ payment تمہارے والد کی ذمہ داری تھی اور سامنے والے کا کہنا ہے کہ میں نے تو جن کو کھاد دیا ہے ان کو جانتا بھی نہیں تھا تمہارے والد صاحب کے کہنے پر ہی ان کو کھاد دیا ہے، اس لئے کہ اس قرض کی مکمل ذمہ داری تمہارے والد صاحب نے لی تھی لہذا میں معاف نہیں کروں گا میں نے کہا یہ قرضہ ہمارے والد کا نہیں ہیں ان سے لو جن کو تم نے کھاد دیا ہے ہم تو ان کو صرف فرمائش ہی کر سکتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں  ہمارے کہنے کے بعد بھی نہ دے تو ہم ذمہ دار نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے کہنے کے بعد بھی  ہمارے بہنوئی قرضہ نہیں چکاتے ہیں تواس قرض کا گناہ کس کے ذمہ میں ہو گا والد صاحب کے ذمہ ہوگا یا بہنوئی کے ذمہ؟ مدلل و مفصل جواب عطا فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی۔

سائل: امروز بن رئیس بڈنگر:ایم پی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

مذکورہ جواب کوسمجھ نےسے پہلے جواب کی نوعیت کو سمجھ لیں۔

جو آدمی کسی کے قرض کو چکانے کی ذمہ داری لیتا ہے اس کو فقہی اصطلاح میں کفیل کہتے ہیں او جس کی طرف سے قرض کو قبول کرتا ہے اس کو اصیل یا مکفول عنہ کہتے ہیں۔


البنایہ فی شرح الہدایہ میں لکھا ہے۔ (قال:الكفالة، هي الضم لغة) من كفلت به كفالة وكفلت عنه المال لغريمه، والكفيل أيضا من أكفلته المال أي ضمنته إياہ، (البنایہ فی شرح الہدایہ جلد٨ ص ٤١٩)


اب جو بھی قرض کی ذمہ داری اپنی حیاتی میں قبول کرتا ہے وہ کفیل کہلاتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مال میں سے اس کا قرض چکادے اور اگر قرض کی ذمہ داری لینے والے کا انتقال ہوگیا ہے تو اس کے ورثاء کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس قرض کو ادا کریں بعد میں جس کی طرف سے اس نے دیا ہے اس سے جاکر وصول کریں۔


جیسا کہ فتح القدیر میں لکھا ہے۔ (بخلاف الكفيل بالمال)إذا مات فإنه يطالب بأداء ما كفل به لأن ماله يصلح للوفاء بذلك فيطالب به الوصي، فإن لم يكن فالوارث لقيامه مقام الميت وترجع ورثة الكفيل على الأصيل: أعني المكفول عنه۔ (فتح القدیر جلد٧ ص١٦١)


اسی طرح البنایہ فی شرح الہدایہ میں لکھا ہے۔(بخلاف الكفيل بالمال) إذا مات حيث يؤدي المال من تركته، إذ المقصود هنا إيفاء حق المكفول له في الحال والمال ، والكفيل صالح له فلا تبطل الكفالة فتؤخذ من تركته ويرجع ورثته على المكفول عنه إذا كانت الكفالة بأمره كما في حال الحياة۔ (البنایہ فی شرح الہدایہ جلد٨ ص ٤٢٦)


مذکورہ سوال میں پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد صاحب قرض کے ذمہ دار تھے لہذا ان کے لیے ضروری تھا کہ اس قرض کو اپنی حیاتی میں چکادیں لیکن اب وہ حیات نہیں ہے اس دار فانی سے چل بسے ہیں ( اللہ ان کی مغفرت فرمائیں) تو ان کی طرف سے ورثاء کو ان کا وہ دین بھی چکانا لازم ہوگا جو ان کے ذمہ بحیثیت کفیل ذمہ میں ہے۔ بعد میں جن کی طرف سے یہ دین چکایا گیا ہے ورثاء ان سے وصول کریں گے۔


فقط والسلام: ھذا ما عندی واللہ اعلم بالثواب

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا


منگل، 16 مارچ، 2021

سبسیڈی لینے کا شرعی حکم مفتی آصف گودھروی

 

سوال

السلام عليكم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

جی ایک اہم مسئلہ ہے۔ کہ آجکل جو گیس بوتل  لیتے ہیں ڈائری کے ذریعے تو گورمنٹ کی جانب سےلینے والے کے اکاؤنٹ میں  سبسیڈی جمع ہوتی ہے  تو پوچھنا یہ تھا۔ کہ سبسیڈی کا لینا جائز ہے یا نہیں۔ مدلل جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائے۔

سائل: ابو الفہد جےپوری 

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

سبسیڈی کے سلسلے میں عام کتب فتاوی میں کوئی صریح جزیہ نہیں ملا البتہ اتنی بات ہے کہ جو سبسیڈی گیس سلینڈر میں ملتی ہے اس کے اندر بوتل کی قیمت بڑھا کر دی جاتی ہے اور پھر بعد میں اس کی قیمت کم کردی جاتی ہے یعنی سیلنڈر کی ٨٠٠ روپے قیمت رکھ دی جاتی ہے پھر اس کے بعد کچھ روپے سبسیڈی کے نام سے اس کے اکاؤنٹ میں جمع کردئے جاتے ہیں اس کا نام سبسیڈی رکھ دیا ہے اصل میں یہ اپنی ہی طرف سے کسی چیز کی قیمت زیادہ بڑھاکر کم کرنے کے مترادف ہیں لہذا یہ ایسا ہو گیا کہ بائع نے ایک قیمت متعین کی پھر اس کے بعد اس نے اس میں سے کچھ کم کر دیا اور اس طرح بیع و شراء جائز ہے اس لئے کہ اپنی چیز کی قیمت زیادہ ہو تو اس کو کم بھی کر سکتے ہیں جیسے کہ صاحب ہدایہ نے جلد نمبر ٣ صفحہ نمبر ٨٠ پر لکھا ہے

ویجوز للمشتری ان یزید للبائع فی الثمن ویجوز للبائع ان یزید للمشتری فی المبیع ویجوز ان یحط عن الثمن ھدایہ جلد نمبر٣  صفحہ نمبر٨٠

العارض:مفتی آصف گودهروي 

خادم:جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا

اتوار، 14 مارچ، 2021

پردے کا شرعی حکم کیا ہے مفتی آصف گودھروی

 

سوال

    عورتوں پراسلام نے پردہ کیوں لازم کیا ہے؟ عورتوں کے لئے پردے کا شرعی حکم کیا ہے؟ غیر محرم مردوعورت آپس میں سلام ومصافحہ کرسکتے ہیں؟ کیا غیر محرم عورت کو دیکھنا بغیر شہوت کے جائز ہے؟ اگر نہیں ہے توانٹرویو کا کیاحکم ہے؟ اس لئے کہ وہاں عام طور پر عورتیں ہی ہوتی ہے، اس دوران زیادہ تر  یہ دیکھا جاتا ہے کہ انٹریو میں مرد، عورت سے آنکھ سے آنکھ ملا کر انٹریو دیتے ہیں، اس کا شرعی حکم کیاہے؟ مفصل ومدلل جواب ہو مہربانی ہوگی

سائل فیض احمد جھالاواڑ

 الجواب وبا اللہ التوفیق

 بإسمہ سبحانہ وتعالیٰ

فتوے کا خلاصہ

اللہ تعالیٰ کو نسل انسانی کی بقاء مقصود تھی اور وہ بقاء یاتو جان کی حفاظت سے ہوگی یا حیاء کی حفاظت سے ہو گی جانوں کو محفوظ کرنے کے اصول وضوابط قصاص ودیت کی شکل میں اللہ نے بیان کئے اور حیاء وعفت کو محفوظ کرنے کے لئے عورتوں کو پردے کا حکم دیا ،چونکہ عورتوں کی طرف مردوں کے مقابلہ میں کشش بھی زیادہ ہوتی ہے، اسی لئے ان کو شرم وحیا اور جذبۂ عفت کی بقا کے خاطر اللہ نے پردے کا حکم فرما۔

سلام و مصافحہ میں اگر عورت عمر رسیدہ ہے یا اپنی محرمات میں سے کوئی ہے تو جائز ہے، اجنبیہ سے مصافحہ اور سلام وکلام کی شریعت نے إجازت نہیں دی ہے،اگر بالفرض کسی عورت نے مرد کو یا مرد نے عورت کو سلام کردیاتو دل ہی دل میں اس کاجواب دیں، بلند آواز سے جواب دینا جائز نہیں ہے۔

انٹریو میں بلا ضرورت کے عورت سے بات چیت کرنا اور نظریں ملاکر سامنے دیکھنا جائز نہیں ہے،البتہ مجبوری ہو، چاہے وہ مجبوری دینی ہو یا دنیوی تو جائز ہے لیکن جہاں تک ہو سکے اپنی نظروں کو جھکا کر رکھیں اور دل کو وساوس سے پاک وصاف رکھیں۔

تفصیلی جواب

    حضرت آدم کی تخلیق کے بعد نسل انسانی کی افزائش کے لئے اور اسے پور سکون زندگی گزارنے کے خاطر اللہ تعالی نے صنف نازک کو پیدا کیا، اس تخلیق کا اشارہ خود قران میں بھی مذکور ہے۔

سورۃ النساء آیت۱’’ وخلق منھا زوجھا وبث فیھا رجالا کثیرا و نساء ا‘‘سورۃ روم آیت ۲۱ میںہے ’’ومن اٰیتہ ان من خلق لکم من انفسکم ازواجا لیسکنو الیھا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ‘‘

    اللہ تعالیٰ نے غایت درجہ کی حکمت و مصلحت کے تحت تمام جاندار کو جوڑو میں پیدا کیا بلکہ کائنات میں پائی جانے والی تمام چیزوں کو اللہ نے جوڑو کی شکل میں پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الذاریات میں ارشاد فرمایا

 ’’ومن کل شیء خلقنا زوجین لعلکم تذکرون ‘‘

    اسی قانون فطرت کے تحت اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو بھی جوڑو کی شکل میں پیدا کیا ہے تاکہ نسل انسانی کا سلسلہ یوں ہی آگے بڑھتا رہے اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش اور جاذبیت رکھ دی تاکہ یہ دونو ایک دوسرے کے قریب آنے کے لئے بیتاب رہیں، یہ ایک فطری بات ہے اور اللہ کی فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں ہے جو شخص اپنے آپ کو پرہیز گار اور پاکیزہ ثابت کرنے کے چکر میں یہ کہتا ہو کے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، یا وہ عورتوں سے بالکل کشش نہیں رکھتا ہے، اس کا دل بالکل صاف ہے، یہ اس کادعویٰ جھوٹا اور قانون فطرت کے خلاف ہے۔

    آج دنیا جس فحاشی اور عریانیت میں پھنسی ہوئی ہے اور انسانیت سوز حکایتیں سامنے آتی ہیں اسکا اندازہ بھی نہیں کر سکتے،وہیں ہمارے مسلم معاشرے میں مغربی تہذیب و کلچر کی یلغارنے فحاشی اور عریانی کا چلن عام کر دیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بے انتہاء مخلوق پیدا کی ہے، ان سب مخلوقات پر حضرت انسان کو شرفیت بخشی، نسان کو اللہ نے عقل و شعور اور قوت فیصلہ عطا فرمایا ہے، اور اللہ نے انسان کو زمین پر اللہ کا خلیفہ بنایا ہے۔

    چونکہ اللہ تعالیٰ کو نسل انسانی کو فروغ دینا تھا اس کو تا قیامت باقی رکھنا تھا اسی مقصد تخلیق کی بقاء اور افزائش نسل کے خاطرمردوعورت کے میلاپ کے کچھ اصول و ضوابط شریعت نے متعین و مقرر فرمائے، اور اس کی ملکیت کے ساتھ انتفاع کو مقید کر دیا، چاہے وہ ملکیت مجازی ہو یعنی نکاح سے ہو یا ملکیت حقیقی ہو یعنی باندی کی شکل میں ہو، جسے قرآن نے ان الفاظ میں واضح فرمایا 

’’فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنیٰ وثلاث وربٰع فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدۃ أو ماملکت أیمانکم‘‘

اور پھر اسکی بقاء کے لیے ایک ایسا عنصر پیدا کر دیا جو اسکے لیے ایک روح کی حیثیت رکھتا ہے، وہ نمایا عنصر شرم و حیا اورجذبہ عفت ہے۔

    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے حیاء یہ ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

’’عن عبد اللہ ابن عمر سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجلا یعظ اخاہ فی الحیاء فقال ان الحیاء شعبۃ من الایمان۔ (ابن ماجہ ۲۳حدیث ۵۷ مطبع دار الکتب العربیۃ) 

    نیز بہت ساری احادیث اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہے کسی حدیث میں ’’الحیاء من الایمان‘‘تو کسی حدیث میں ’’الحیاء کلہ الخیر‘‘ جیسے الفاظ وارد ہوئے ہے۔

    چونکہ اسلام پاک و صاف معاشرہ کی تعمیر اور انسانی اخلاق وآداب کی تہذیب پر گامزن ہے، اور اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پرامن معاشرے کے قیام کے لیے جو اہم تدبیر ہے وہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچا کر پاکیزہ زندگی کے قیام کا حکم ہے، چنانچہ اسی سلسلہ میں اسلام نے سب سے پہلے حفاظت نظر پر زور دیا پھر حفظ فروج کا حکم دیا ہے کیونکہ بد نظری ہی تمام فواحشات کی بنیاد ہے، اسی لیے قرآن میں ہے۔

’’قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم‘‘(سورۂ نور آیت۳۰)

     اور بد نظری سے حفاظت کا واحد علاج یہ ہے کہ جن سے فتنے کا اندیشہ ہے اسی کو شریعتِ اسلام نے پردے کا حکم دیااور یہ اعلان کردیا کہ عورت اپنے گھروں میں ہی مقیم رہیں۔پردہ کے دو معنی ہے، (١) حجاب (۲)ستر

(١)حجاب 

    مکمل طور پر اپنے گھروں میں ہی محبوس رہنا، اور عورت سے حجاب میں ہی تکلم اورمصالح اعمال کا انجام دینا ہے، بغیر حجاب کے عورت مرد کے سامنے نہ آئے، اللہ تعالیٰ نبی کے واسطے سے پوری امت کی عورتوں کو پیغام حجاب دیتے ہوئے اپنے نبی سے خطاب فرماتے ہیں، قران کریم میں ہے۔

’’وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاُولی‘‘ (سورۃٔ احزاب آیت۳۳)

    تفسیر عثمانی میں اس آیت کی تفسیرکرتے ہوئے یہ تحریر فرمایا ہے: یعنی اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ پھرتی اور بدن اور لباس کی زیبائش کا اعلانیہ مظاہرہ کرتی تھیں،اس بد اخلاقی اور بے حیائی کی روش کو مقدس اسلام کب برداشت کرسکتا ہے اس نے عورتوں کو حکم دیا کہ گھروں میں ٹھہری رہیں، اور زمانہ جاہلیت کی طرح باہر نکل کر حسن وجمال کی نمائش نہ کرتی پھریں۔  

    ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے

’’واذا سالتموھن متاعا فالسئلوھن من وراء حجاب (الاحزاب آیت۵۳)

مولانا عبد الماجد دریابادی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:یعنی اتنا پردہ تو ضرورت کے وقت رہنا ہی چاہئے اور بلا ضرورت تو اس کا اہتمام اور اشد ہے…اور یہ حکم بھی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں ہے، حجاب ہر نامحرم پر لازم اور ضروری ہے۔

ویدخل فی ذالک جمیع النساء بالمعنیٰ (قرطبی) (مظہری)

(٢)ستر

    جہاں تک ستر کی بات ہے تو وہ فرض ہے۔ عورت کا پورا بدن سوائے چہرا اور ہتھیلیاں اور پیروں کا وہ حصہ جو ٹخنوں کے نیچے کاہے ان کے علاوہ پورا بدن ستر ہے بغیر کسی اعذار کے اس کونا محرم کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں ہے، قران مجید میں ہے۔

’’لایبدین زینتھن الا ما ظھر منھا‘‘ (سورۂ نور ۳۱) 

    لیکن فی زمننا چہرے کو بھی ستر میں داخل کیا گیا ہے خوف فتنہ کی وجہ سے،قدوری میں ہے۔

’’ولا یجوز ان ینظر الرجل من الاجنبیۃ الا الی وجھھا وکفیھا فان کان لا یامن من الشھوۃ لم ینظر الی وجھھا الا لحاجۃ‘‘(قدوری )

صاحب بحر الرائق چہرے کے ستر کے سلسلہ میں رقم طراز ہے،

قال مشائخنا تمنع  المرءۃ الشابۃ من کشف وجھھا بین الرجال فی زماننا للفتنۃ (البحرالرائق جلد۱/ص۵۷۰)

    لیکن جہاں شریعت نے ستر کا حکم دیا ہے وہی پر اعذار کی صورت میں کشف عورت کی اجازت دی ہے ۔ کشف عورت کی مختلف صورتیں ہے۔

 (۱)مکمل کشف بدن۔

(۲)ستر شرعی میں سے کسی عضو کو کھو لنا۔ 

(۳)ستر حکمی کو کھولنا ۔

(۱)مکمل کشف بدن 

    جہاں تک پہلی صورت کی بات ہے تو وہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے عورت کو مکمل برہنہ ہونے کی اجازت صرف اس کے شوہر کے سامنے ہے ان کے علاوہ کے سامنے وہ نہیں کھول سکتی لیکن یہاں پر بھی اچھایہ ہے کہ اس وقت بھی بقدر ضرورت کشف عورت ہو، جیسا کہ صاحب ھدایہ نے تحریر فرمایا ہے اللہ کے رسول کی ایک حدیث کو بیان کر کے کہ جب تم اپنی بیوی سے ہم بستری کریں تو جتنا ہو سکے اتنا ستر کریں مکمل برہنہ نہ ہوجائیں

’’لقولہ علیہ السلام إذا أتی أحدکم اھلہ فلیستتر مااستطاع ولا یتجردان تجرد العیر‘‘(ھدایہ ج۴/ص۴۶)

(۲)ستر شرعی میں سے کسی عضو کو کھو لنا۔

    ستر شرعی عورت کے لیے چہرہ ہتھیلیاں اور پیر کا ٹخنوں کے نیچے کا حصہ ان تین کے علاوہ پورا بدن سترشرعی میں داخل ہے لہذا اس میں سے کسی بھی عضو کاکھولنا کسی نا محرم کے سامنے بلا کسی عذر شرعی کے جائز نہیں ہے، عذر شرعی جیسے لیڈی ڈاکٹر کی عدم موجودگی میں مریضہ کا مرد ڈاکٹر سے علاج کروانا۔ صاحب ہدایہ رقم طراز ہے۔

’’ویجوز للطبیب ان ینظر الی موضع المریض منہا للضرورۃ‘‘ (ہدایہ ۴:۴۶۱ قدوری ۲۶۵)

    لیکن اگر ستر غلیظ ہوتو ایسی صورت میں کسی عورت کو اس کے علاج کا طریقہ بتلادے اور دور سے اس کا جائزہ لیوے الا یہ کہ کوئی ایسی صورت نہ ملے تو گنجائش ہے کہ جتنے عضو میں علاج کی ضرورت ہواس کو کھولے اور مابقیہ کا استار ضروری ہے اور نظروں کو جھکائے رکھے جتنا ہوسکے ۔

    صاحب ھدایہ اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہے۔

ویجوز للطبیب ان ینظر الی موضع المرض منھا للضرورۃ، وینبغی ان یعلم امرئۃ  مدا واتھا لأن نظر الجنس الی الجنس اسھل فان لم یقدروا یستر کل عضو منہا سوی موضع المرض ثم ینظر ویغض بصرہ ما استطاع لان ما ثبت بالضرورۃیتقدر بقدرھا۔ (ھدایہ جلد ۴/ص۴۶۱)

    علامہ شامی مذکورہ مسئلہ کی پوری وضاحت کے بعد تحریر بقلم ہے۔

ثم یدا ویھا الرجل ویغض بصرہ مااستطاع إلا عن موضع الجرح۔ (شامی ج۱۰/ص۵۳۳) 

(۳)ستر حکمی کو کھولنا ۔

یعنی چہرے اور ہتھیلیوں کا پردہ سترِ عارضی کے لئے  دو چیزیں ضروری ہیں

 (۱)عام حالات میں ستر وجہ

(۲) بوقتِ ضرورت بقدر ضرورت کشف وجہ ونظر وجہ 

    (۱)عام حالات میں ستر وجہ 

    عام حالات میں عورت کے لئے سترِ وجہ وجوب کے درجہ میں ہے اکثر علماء نے فتنہ کے خوف کی وجہ سے اسکو وجوب کا درجہ دیا ہے ،قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم فرمارہے ہیں،جب باہر نکلیں تو اپنی چادروں کو کچھ آگے کی طرف کھینچ لیں

’’یا ایہا النبی قل لازواجک وبناتک و نساء المومنین یدنین علیھن من جلابیبھن‘‘ (سورۂ أحزاب آیت۳۳)

    تفسیرِ عثمانی میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہے:جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمان عورتیں اپنے چہرے اس طرح سے چھپا کر نکلتی تھی کہ صرف ایک آنکھ کھلی رہے۔

    قرآن کریم کی آیت’’لا یبدین زینتھن إلا ماظھر منھا‘‘کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ صابونی رقم طراز ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو بذاتِ خود کھُل جائے پس اس کو عمداً پر محمول کرنا یہ قرآن و حدیث کی مراد کے مخالف ہے۔

’’والظاھر من الآیۃ أن القرآن ینھی عن إبداء الزینۃ ویرخص فیما إذا ظھر من غیر قصد، فالتوسع فی حد ھذہ الرخصۃ إلیٰ إظھارھا (عمداً)مخالف  للقرآن ومخالف للروایات التی یثبت بھا أن النساء فی عھد النبی ﷺ ماکن یبرزن إلی الجانب سافرت الوجوہ،وأن الأمر باالحجاب کان شاملاً للوجہ،وکان النقاب قد جعل جزء اًمن لباس النساء إلا فی الإحرام‘‘ (روائع البیان ج۲/ص۱۷۴)

    علامہ شامی نے اپنی عبارت میں اسی طرف إشارہ کیا ہے کہ عام حالات میں عورت کو کشف وجہ و کشف ید سے روکا جائے گا

وتمنع المرأۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین الرجال لا لأنہ عورۃ،بل لخوف الفتنۃ …والمعنیٰ یمنع من الکشف لخوف أن یریٰ الرجال وجھھا فتقع الفتنۃ‘‘(شامی ج۲/ص۷۹)

صاحب بحر نے بھی عام حالات میں عدم کشف کا فیصلہ دیاہے

’’قال مشائخنا تمنع المرء ۃ الشابۃ من کشف وجھھا بین الرجال فی زماننا للفتنۃ‘‘ (البحرالرائق جلد۱/ص۵۷۰)

(۲)بوقت ضرورت بقدرِ ضرورت کشف وجہ ونظر وجہ 

    اتنی بات تو صاف ہے کہ تمام فقہاء نے بوقت ضرورت بقدرِ ضرورت کشفِ وجہ و نظر وجہ کی اجارت دی ہے،یعنی اگر کسی وجہ سے عورت کے چہرے کو دیکھنے کی ضرورت پر جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جب کہ فتنے کا خوف نہ ہو اور اگر فتنے کا خوف ہو تو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے

’’وأما النظر إلی الأجنبیات فنقول یجوز النظر إلی مواضع الزینۃ الظاھرۃ منھن وذلک الوجہ،والکف فی الظاھرالروایۃ، کذا فی الذخیرۃ،إن غلب علیٰ ظنہ أن یشتھی فھو حرا ھکذا فی الینابع‘‘ (فتاویٰ عاملگیری،۵/۳۲۹)

    علامہ شامی نے ضرورت کے وقت نظرِوجہ کے جواز کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

’’ینظرمن الأجنبیۃ إلی وجھھا و کفیھا فقط للضرورۃ،قیل والقدم‘‘ (فتاویٰ شامی۹/۵۳۱)

    فتاویٰ تاتار خانیہ میں ان الفاظ میں نظر وجہ کے جواز کو نقل کیا ہے

’’وأما النظر إلی الاجنبیات فنقول:یجوز النظر إلی مواضع الزینۃ الظاھرۃ منھن،وذلک الوجہ والکف فی ظاھر الروایۃ‘‘ (فتاویٰ تارتاخانیہ، ۱۸/۹۲)

    سنن أبی داؤد میں نظر وجہ کے جوازکو ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے’’أخرج ابوداؤد عن عائشۃ أن أسماء بنت أبی بکر دخلت علیٰ رسول اللہ ﷺوعلیھا ثیاب رقاق فأعرض عنھا رسول اللہ ﷺ وقال: یا أسماء إن المرأۃ إذا بلغت المحیض لم یصح لھا إلا ھذا وھذا،وأشارألیٰ وجھہ وکفیہ(سنن أبی داؤد ج۲ص۵۶۷) (حاشیہ فتاویٰ تارتاخانیہ، ۱۸/۹۲)

    أجنبیہ سے سلام ومصافحہ کا مسئلہ

کسی مرد نے أجنبیہ عورت کو سلام کیا یا عورت نے أجنبی مرد کوسلام کیا، اور عورت عمر رسیدہ ہے تو سلام کرنے اورسلام کا جواب دینے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے ،اس سلسلے میںفتاوی عالمگیری میںحلت کو ان الفاظ میںبیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ عمر رسیدہ کے مصافحہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔

’’إذا سلمت المرأۃ الأجنبیۃ علی رجل إن کانت عجوزاً رد الرجل علیھا السلام بلسانہ بصوت تسمع‘‘ (فتاویٰ عالمگیری،ج۵/٣٢٩)

    علامہ شامی نے بھی حلت کی وضاحت کرتے ہوئے عمر رسیدہ عورت کے مصافحہ کے جواز کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتیں ہیں۔

’’أما العجوز التی لاتشتھی فلا بأس بمصافحتھا ومس یدھا إذا أمن‘‘ (فتاویٰ شامی،ج۹/۵۳٠)

    اسی طرح اپنی محرمات کو سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا جائز ہے اور اسی طرح محرمات اور عمر رسیدہ عورتوں سے مصافح کرنا بھی جائز ہے جب کہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔علامہ شامی اس کی عکاسی کرتے ہوئے رقم طراز ہے.

’’وماحل نظرہ مما مر من ذکر أو أنثیٰ حل لمسہ إذا أمن الشھوۃ علیٰ نفسہ وعلیھا لأنہ علیہ السلام کان یقبل رأس فاطمۃ وقال علیہ الصلاۃ والسلام من قبل رجل أمہ فکأنما قبل عتبۃ الجنۃ وإن لم یأ من ذالک أو شک فلا یحل لہ النظر والمس ‘‘ (فتاویٰ شامی،ج۹/ص۵۲۹)

    مبسوط سرخسی میں محارم سے مصافحہ کی حلت کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔

’’ولکن إنمایباح المس والنظر إذاکان یأمن الشھوۃ علی نفسہ وعلیھا ‘‘(مبسوط سرخسی،ج۱۰/ص۱۴۹)

    مرد کسی اجنبیہ عورت کو اور عورت کسی اجنبی مردکو دونوں ایک دوسرے کو نہ سلام کرسکتے ہیں اور نہ ہی آپس میں مصافحہ کرسکتے ہیں، شعب الإیمان میں مردو عورت کو آپس میں ایک دوسرے کوسلام کرنے سے ان الفاظ سے روکا گیا ہے۔

’’عن یحی بن أبی کثیر قال:بلغنی أنہ یکرہ أن یسلم الرجل علی النساء،والنساء علی الرجل، (شعب الإیمان ،بیروت ج۶/ص۴۶۰رقم الحدیث۸۸۹۷)

    علامہ شامی جوان اجنبیہ عورت سے سلام کے سلسلہ میں حرمت کو واضح کرتے ہوئے تحریر بقلم ہیں۔

’’وإن کانت شابۃ رد علیھا فی نفسہ وکذا الرجل إذا سلم علی إمرأۃ أجنبیۃ فالجواب فیہ علی العکس‘‘ (فتاویٰ شامی،ج۹/ص۵۳۰… فتاویٰ ھندیہ ۵/۳۲۶)

    عالمگیری میں مصافحہ کرنے کے عدم جواز پر کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔

’’ولایحل لہ أن یمس وجھھا ولا کفھا وإن کان یأمن الشھوۃ۔ (فتاویٰ عالمگیری،ج۵/ص۳۲۹)

    علامہ شامی نے أجنبیہ سے مصافحہ کے عدم جواز کو ان ألفاظ میں بیان کیا ہے۔

’’إلا من أجنبیۃ فلا یحل مس وجھھا وکفھا وإن أمن الشھوۃ لأنہ أغلظ ولذا تثبت بہ حرمۃالمصاھرۃ وھذا فی الشابۃ‘‘ (فتاویٰ شامی،ج۹/ص۵۲۸)

    ایک اور جگہ باندی کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے چھونے کی حرمت کو واضح کیا ہے۔

’’ولا یجوز لہ أن یمس وجھھا ولا کفیھا،وإن أمنواالشھوۃلوجوب الحرمۃ وإنعدام الضرورۃ والبلویٰ‘‘ ( شامی،۹/۵۲۳)

    مبسوط سرخسی میں أجنبیہ سے ملاقات کو واضح طور پر ناجائز قراردیا ہے۔

’’ولا یحل لہ أن یمس وجھھا ولا کفھا وإن کان یأمن الشھوۃ لقولہ ﷺ من مس کف إمرأۃلیس منھا بسبیل وضع فی کفہ جمرۃ یوم القیامۃحتی یفصل بین الخلائق‘‘ ( مبسوط سرخسی،ج۱۰/ص۱۵۴)

    إنٹریو کے دوران عورت سے تکلم 

    إنٹریو کے سلسلہ میں دوباتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے

(۱) بلا ضرورت کہ صرف شوقیہ طور پر إنٹریو میں جانا 

(۲)مجبوری کے طور پر جانا چاہے وہ مجبوری دینی ہو یا دنیوی۔دینی جیسے کسی شرعی مسئلہ کے سلسلہ میں دفاع کے طور پر جانا یا مسلمانوں کے رفاہی اعمال کی حفاظت کے لئے آنا،

    (۱)جہاں تک پہلی بات کا مسئلہ ہے تو کسی بھی حال میںبلا ضرورت عورت سے تکلم کرنا اور نظریں ملاکر بات کرنا جائز نہیں ہے،اس کے مفصل دلائل آپ نے اوپر ملاحضہ کر لئے،کہ بلا ضرورت عورت سے نہ تکلم جائز اور نہ ہی ان کی طرف دیکھنا جائز ہے اس میں کسی بھی طرح کی گنجائش نہیں ہے۔

    (۲)جہاں تک دوسرے مسئلہ کی بات ہے تو چونکہ ضرورت کے وقت علماء نے عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے کی إجازت دی ہے ،جیسے کہ مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آگئی ،لھذااپنی نیت کو درست رکھتے ہوئے اور دل کو غلط خیالات سے محفوظ رکھتے ہو ان سے تکلم جائز ہوگا،لیکن جہاں تک ہوسکے ان کی طرف دیکھنے سے إحتراز کریں،علامہ شامی کی عبارت سے بھی اس مسئلہ کی تائید ہو رہی ہے وہ تحریر فرماتے ہیں۔

’’ یجوز الکلام المباح مع إمرأۃ أجنبیۃ‘‘ (فتاویٰ شامی۹/۵۳۰) 

فقط والسلام :ھذا ماعندی: واللہ اعلم بالصواب 

العارض: آصف بن محمد گودھروی 

خادم: جامعہ تحفیظ القران اسلام پورا