سوال
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضرت مفتی صاحب میرے والد صاحب نے ہمارے بہنوئی کو ایک گاڑی کھاد کی اپنے پہچان والے آدمی سےدلوائی تھی ہمارے بہنوئی غلط بہانے بنا کر سامنے والے آدمی کو payment نہیں دیتے ہیں۔ ہمارے والد کا انتقال ہوگیا ہے کھاد والا اب مجھ سے payment مانگ رہا ہے کہ payment تمہارے والد کی ذمہ داری تھی اور سامنے والے کا کہنا ہے کہ میں نے تو جن کو کھاد دیا ہے ان کو جانتا بھی نہیں تھا تمہارے والد صاحب کے کہنے پر ہی ان کو کھاد دیا ہے، اس لئے کہ اس قرض کی مکمل ذمہ داری تمہارے والد صاحب نے لی تھی لہذا میں معاف نہیں کروں گا میں نے کہا یہ قرضہ ہمارے والد کا نہیں ہیں ان سے لو جن کو تم نے کھاد دیا ہے ہم تو ان کو صرف فرمائش ہی کر سکتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں ہمارے کہنے کے بعد بھی نہ دے تو ہم ذمہ دار نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے کہنے کے بعد بھی ہمارے بہنوئی قرضہ نہیں چکاتے ہیں تواس قرض کا گناہ کس کے ذمہ میں ہو گا والد صاحب کے ذمہ ہوگا یا بہنوئی کے ذمہ؟ مدلل و مفصل جواب عطا فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی۔
سائل: امروز بن رئیس بڈنگر:ایم پی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
مذکورہ جواب کوسمجھ نےسے پہلے جواب کی نوعیت کو سمجھ لیں۔
جو آدمی کسی کے قرض کو چکانے کی ذمہ داری لیتا ہے اس کو فقہی اصطلاح میں کفیل کہتے ہیں او جس کی طرف سے قرض کو قبول کرتا ہے اس کو اصیل یا مکفول عنہ کہتے ہیں۔
البنایہ فی شرح الہدایہ میں لکھا ہے۔ (قال:الكفالة، هي الضم لغة) من كفلت به كفالة وكفلت عنه المال لغريمه، والكفيل أيضا من أكفلته المال أي ضمنته إياہ، (البنایہ فی شرح الہدایہ جلد٨ ص ٤١٩)
اب جو بھی قرض کی ذمہ داری اپنی حیاتی میں قبول کرتا ہے وہ کفیل کہلاتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مال میں سے اس کا قرض چکادے اور اگر قرض کی ذمہ داری لینے والے کا انتقال ہوگیا ہے تو اس کے ورثاء کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس قرض کو ادا کریں بعد میں جس کی طرف سے اس نے دیا ہے اس سے جاکر وصول کریں۔
جیسا کہ فتح القدیر میں لکھا ہے۔ (بخلاف الكفيل بالمال)إذا مات فإنه يطالب بأداء ما كفل به لأن ماله يصلح للوفاء بذلك فيطالب به الوصي، فإن لم يكن فالوارث لقيامه مقام الميت وترجع ورثة الكفيل على الأصيل: أعني المكفول عنه۔ (فتح القدیر جلد٧ ص١٦١)
اسی طرح البنایہ فی شرح الہدایہ میں لکھا ہے۔(بخلاف الكفيل بالمال) إذا مات حيث يؤدي المال من تركته، إذ المقصود هنا إيفاء حق المكفول له في الحال والمال ، والكفيل صالح له فلا تبطل الكفالة فتؤخذ من تركته ويرجع ورثته على المكفول عنه إذا كانت الكفالة بأمره كما في حال الحياة۔ (البنایہ فی شرح الہدایہ جلد٨ ص ٤٢٦)
مذکورہ سوال میں پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد صاحب قرض کے ذمہ دار تھے لہذا ان کے لیے ضروری تھا کہ اس قرض کو اپنی حیاتی میں چکادیں لیکن اب وہ حیات نہیں ہے اس دار فانی سے چل بسے ہیں ( اللہ ان کی مغفرت فرمائیں) تو ان کی طرف سے ورثاء کو ان کا وہ دین بھی چکانا لازم ہوگا جو ان کے ذمہ بحیثیت کفیل ذمہ میں ہے۔ بعد میں جن کی طرف سے یہ دین چکایا گیا ہے ورثاء ان سے وصول کریں گے۔
فقط والسلام: ھذا ما عندی واللہ اعلم بالثواب
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں