ہفتہ، 6 مارچ، 2021

ماہ رجب میں پائی جانی والی رسومات اور اس کا حکم مفتی آصف گودھروی

 

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں،کہ

کیا رجب کے مہینے میں کچھ خاص تسبیحات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟ نیز رات شب بیدار رہ کر مخصوص عبادات کرنا جیسےصلاۃ الرغائب وغیرہ کا کیا حکم ہے؟ اسی طرح رجب المرجب کی ٢٧ تاریخ کے روزے کی  حقیقت کیا ہے؟ عوام کے درمیاں ہزاری روزہ کی شہرت ہے، ہزاری روزہ کسے کہتے ہیں؟  اس کی حقیقت کیا ہے؟ نیزاس رات حلوہ پکانا،رنگین جھنڈیاں، آتش بازی اور مٹی کے چراغوں کو جلا کے گھروں کے درودیوار پر رکھنا وغیرہ وغیرہ رسومات کا حکم بھی واضح فرمائیں، اسی طرح شب معراج کے بارے میں وضاحت درکار ہے۔ بالتفصیل جواب مطلوب ہے۔

سائل:مولوی زبیر اندوری 

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

  رجب کا مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ہے، اس مہینے کی سب سے پہلی خصوصیت اس مہینے کا اشہر حرم میں سے ہونا ہے،(صحیح البخاری،کتاب بدء الخلق،باب ماجآء فی سبع أرضین)۔ ان مہینوں میں عبادت کا ثواب بھی زیادہ ہے،

البتہ رجب کے مہینہ میں تخصیص کے ساتھ کسی دن روزہ رکھنا یا کوئی مخصوص قسم کی تسبیحات صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے، لہذا ٢٧ رجب کو تخصیص کے ساتھ روزہ رکھنے اور اس رات شب بیدار رہ کر مخصوص عبادت کرنے (مثلاً: صلاۃ الرغائب یا دیگر مخصوص تسبیحات وغیرہ )  کا التزام درست نہیں ہے،

اسی طرح اس شب کے لیے خصوصی نوافل کا اہتمام کہیں ثابت نہیں، نہ کبھی حضور صلی الله علیہ وسلم نے کیا، نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے، نہ تابعین عظام رحہم اللہ نے کیا۔ علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے الجرالرائق شرح کنزالدقائق، ج:٢،ص:٥٦, میں، علا مہ طحطا وی نے مراقی الفلاح ،ص: ٢٢ میں، اس رواج پر نکیر فرمائی ہے اور اس کے متعلق جو فضائل نقل کرتے ہیں ان کو ردکیا ہے‘‘۔(فتاویٰ محمودیہ:٣/٢٨٤،ادارہ الفاروق کراچی)

لہذا اس مہینے میں تخصیص کے ساتھ کسی عبادت کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے، ہاں تخصیص اور التزام کے بغیر جس قدر ہوسکے اس پورے مہینے میں عبادت کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔

 حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:” ملتِ ابراہیمی میں یہ چار مہینے ادب واحترام کے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت کو برقرار رکھا اور مشرکینِ عرب نے جو اس میں تحریف کی تھی اس کی نفی فرما دی“۔(معارف القرآن للکاندھلوی:۳/۴، بحوالہ حاشیہ سنن ابن ماجہ، ص:۱۲۵)

اس مہینے میں اسلام سے قبل ہی سے ماہِ رجب میں بہت سی رسومات اور منکرات رائج تھیں، جن کو اسلام نے یکسر ختم کرکے رکھ دیا،ان میں رجب کے مہینے میں قربانی کا اہتمام، جس کو حدیث پاک کی اصطلاح میں عتیرہ کے نام سے واضح کیا گیا ہے، اسی مہینے میں زکاة کی ادائیگی اور پھر موجودہ زمانے میں ان کے علاوہ بی بی فاطمہ کی کہانی، ۲۲/ رجب کے کونڈوں کی رسم، ۲۷/ رجب کی شب جشنِ شب معراج اور اگلے دن کا روزہ جس کو ہزاری روزہ کہا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ سب ایسی رسومات و بدعات ہین جن کا اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ہے ،نیزعلماءِ کرام نے اپنی تصانیف میں ان رسومات کی بہت تردید کی ہے،

ہزاری روزہ

 عوام میں یہ مشہور ہے کہ ۲۷/ رجب کو روزہ کی بڑی فضیلت ہے؛ حتی کہ اس بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس ایک دن کے روزے کا اجرایک ہزارروزے کے اجر کے برابر ہے، جس کی بنا پر اسے ہزاری روزے کے نام سے جاناجاتا ہے؛حالانکہ شریعت میں اس روزے کی مذکورہ فضیلت صحیح روایات میں ثابت نہیں ہے،اس بارے میں اکثر روایات موضوع ہیں اور بعض روایات جو موضوع تو نہیں، لیکن شدید ضعیف ہیں، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تبیین العجب بما ورد في فضل رجب سے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی ہے،جس میں انہوں نے رجب سے متعلق پائی جانے والی تمام ضعیف اور موضوع روایات پر محدثانہ کلام کرتے ہوئے سب کو باطل قراردیا ہے۔

جس کی بنا پر اس دن کے روزے کے سنت ہونے کے اعتقاد یا اس دن کے روزے پر زیادہ ثواب ملنے کے اعتقاد پر روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، اس بارے میں اکابرین علماء امت نے امت کے ایمان و اعمال کی حفاظت کی خاطر راہنمائی کرتے ہوئے فتاوی صادر فرمائے ،جو درج ذیل ہیں۔

فتاویٰ رشیدیہ 

 حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمہ اللہ ماہِ رجب میں ہونے والی رسم اور رجب کے ہزاری روزے کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں، اِن دونوں امور کاا لتزام نادرست اور بدعت ہے اور وجوہ اِن کے ناجائز ہونے کی (کتاب)اصلاح الرسوم، براہینِ قاطعہ میں درج ہیں، (فتاویٰ رشیدیہ، ص :۱۴۸، ادارہ اسلامیات)۔

فتاویٰ محمودیہ

  حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں، ماہِ رجب میں تواریخ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وارد ہوئی ہیں ؛ لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچتیں، شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ماثبت بالسنة میں ذکر کیا ہے کہ، بعض (روایات) بہت ضعیف اور بعض موضوع(من گھڑت)ہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ:۳/۲۸۱،جامعہ فاروقیہ،کراچی)

اسی طرح حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ، عوام میں ۲۷/ رجب کے متعلق بہت بڑی فضیلت مشہور ہے، مگر وہ غلط ہے، اس فضیلت کا اعتقاد بھی غلط ہے، اِس نیت سے روزہ رکھنا بھی غلط ہے، ما ثبت بالسنة میں اِس کی تفصیل موجود ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ :۱۰/۲۰۲،جامعہ فاروقیہ،کراچی)

فتاویٰ رحیمیہ

حضرت مفتی سید عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ، ستائیسویں رجب کے بارے میں جو روایات آئی ہیں، وہ موضوع اور ضعیف ہیں،صحیح اور قابل اعتمادنہیں،لہٰذا ستائیسویں رجب کا روزہ عاشوراء کی طرح مسنون سمجھ کر ہزار روزوں کا ثواب ملے گا، اس اعتقاد سے رکھنا ممنوع ہے“۔(فتاویٰ رحیمیہ :۷/۲۷۴، دارالاشاعت، کراچی)

بہشتی زیور

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (رجب کے چاند کے بارے میں)لکھتے ہیں کہ:اس کو عام لوگ مریم روزہ کا چاندکہتے ہیں،اور اس کی ستائیس تاریخ میں روزہ رکھنے کو اچھا سمجھتے ہیں کہ ایک روزہ میں ہزار روزوں کا ثواب ملتا ہے، شرع میں اس کی کوئی قوی اصل نہیں ، اگر نفل روزہ رکھنے کو دل چاہے، اختیار ہے، خدا تعالیٰ جتنا چاہیں ثواب دیدیں، اپنی طرف سے ہزار یا لاکھ مقرر نہ سمجھے ، بعضی جگہ اس مہینے میں تبارک کی روٹیاں پکتی ہیں، یہ بھی گھڑی ہوئی بات ہے، شرع میں اس کا کوئی حکم نہیں، نہ اس پر کوئی ثواب کا وعدہ ہے، اس واسطے ایسے کام کو دین کی بات سمجھنا گناہ ہے“۔(بہشتی زیور:۶/۶۰،دارالاشاعت، کراچی)

عمدة الفقہ

حضرت مولانا سید زوّار حسین شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں، ہزاری روزہ یعنی ستائیس رجب المرجب کا روزہ ، عوام میں اس کا بہت ثواب مشہور ہے، بعض احادیثِ موضوعہ (من گھڑت احادیث) میں اس کی فضیلت آئی ہے، لیکن صحیح احادیث اور فقہ کی معتبر کتابوں میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ بعض روایات میں ممانعت آئی ہے، پس اس کو ضروری اور واجب کی مانند سمجھ کر روزہ رکھنا یا ہزار روزہ کے برابر ثواب سمجھ کر رکھنا بدعت و منع ہے۔ (عمدة الفقہ: ۳/۱۹۵ ،زوار اکیڈمی)

ستائیسویں رجب اور شبِ معراج

رجب کی ستائیسویں رات کے بارے میں اگرچہ مشہور ہے کہ یہ شبِ معراج ہے، لیکن یقینی طور پر نہیں کہاجاسکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے، کیوں کہ اس بارے میں روایات مختلف ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے، بعض روایتوں میں رجب، بعض میں ربیع الثانی، بعض میں رمضان اور بعض میں شوال کا مہینہ بیان کیا گیا ہے، اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا کہ کون سی رات صحیح معنی میں معراج کی رات تھی، اگر یہ کوئی مخصوص رات ہوتی اور اس کے بارے میں خاص احکام ہوتے تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا، جب کہ شبِ معراج کی تاریخ قطعی طور پر محفوظ نہیں، اگرچہ مشہور قول یہی ہے۔

اسی طرح شبِ معراج جِس رات یا مہینے میں بھی ہو، اُس رات میں کسی قسم کی بھی متعین عبادت شریعت میں منقول نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ اِس رات میں سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بڑا شرف بخشا گیا،آپ کے ساتھ بڑے اعزاز و اکرام والا معاملہ کیا گیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں پر بُلا کے بہت سے ہدیے دئے گئے، لیکن امت کے لیے اس بارے میں کسی قسم کی کوئی فضیلت والی بات کسی نے نقل نہیں کی۔

چنانچہ جب اتنی بات متعین ہو گئی کہ امت کے حق میں شبِ معراج کی کوئی فضیلت منصوص نہیں ہے، علاوہ اس بات کے کہ اس رات کا ۲۷/ رجب کو ہی ہونا بھی قطعی نہیں ہے تو اِس رات کو یا اِس کے دن کو کسی عبادت کے لیے جداگانہ طور پر متعین کرنا کسی طرح درست نہیں ہے،

متفرق رسومات

 رجب کی ستائیسویں شب میں موجودہ زمانے میں طرح طرح کی خرافات پائی جاتی ہیں، اس رات حلوہ پکانا،رنگین جھنڈیاں ، آتش بازی اور مٹی کے چراغوں کو جلا کے گھروں کے درو دیوار پر رکھنا وغیرہ وغیرہ،جن کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر اِن کو عبادت اور ثواب سمجھ کے کیا جاتا ہے تو یہ بدعت کہلائیں گی، کیونکہ نہ تو اِن سب اُمور کو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس کیا، نہ ان کے کرنے کا حکم کیا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا، اور نہ ہی کرنے کا حکم کیا۔ اور اگر ان اُمور کو عبادت سمجھ کے نہیں کیا جاتا، بلکہ بطورِ رسم کیا جاتا ہے تو بھی ان میں فضول خرچی، اسراف اور آتش بازی کی صورت میں جانی ومالی نقصان کا خدشہ، یہ سب اُمور شرعاً درست نہیں ہے۔

اور یہ سارے اُمور اِس بنیاد پر سرانجام دئے جاتے ہیں کہ ۲۷ رجب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفرِ معراج کروایا گیا، عوام کے اس رات اِس اہتمام سے پتہ چلتا ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب کو ہی حتمی اور قطعی طور پر شبِ معراج سمجھا جاتا ہے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفرِ معراج کب کروایا گیا؟ اِس بارے میں تاریخ، مہینہ، بلکہ سال میں بھی بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، جسکی بناء پر ستائیسویں شب کو ہی شبِ معراج قرار دینا یکسر غلط ہے،اگرچہ مشہور قول یہی ہے۔

واللہ اعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب

العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی


کوئی تبصرے نہیں: