اتوار، 7 مارچ، 2021

کلما کی قسم اور اس کا شرعی حیلہ جواز مفتی آصف گودھروی

 سوال

    شریعت میں کلما سے طلاق کا کیا حکم ہے ؟ اس سے طلاق ہوجائے گی؟اگرہوجاتی ہے تو کسی نے کلما کی قسم کھالی تو اس کے لئے کسی سے نکاح کی إجازت ہوگی یا وہ کبھی نکاح نہیں کرسکتا؟صابر اور حامد میں کسی بات کو لیکر آپس میں لڑائی ہوگئی صابر نے کہا:میں وہاں نہیں جاؤں گا حامد نے کہا: کہ تو کلما کی قسم کھا لے ،اس نے کہا میں کلما کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں وہاں نہیں جاؤ ں گا ،پھر صابر ممنوعہ جگہ پر چلاگیا، اب صابر کے لئے کیا حکم ہے، اگر کسی نے یہ کہا: اگر میں یہ کام کروں توجب جب میں کسی سے شادی کروں تو اس کو طلاق، اب اس کے لئے شادی کی کیا شکل ہوگی؟ یا پھر وہ ہمیشہ کے لئے شادی نہیں کرسکتا؟ مفصل ومدلل جواب مطلوب ہے۔

سائل :عبد الواحد سہوری


الجواب وباللہ التوفیق

بإسمہ سبحانہ وتعالیٰ

    لفظِ کلما سے طلاق کا حکم

خلاصۂ جواب

    لفظ کلما یہ حرف شرط ہے نہ اس سے قسم واقع ہوگی نہ ہی طلاق واقع ہوگی، محض لفظِ کلما کی قسم کھا نے سے اس کا اعتبار نہ ہوگا وہ جملہ لغو شمار ہوگا۔

    اُردو زبان میں محض لفظِ کلما کی قسم کھانے سے قسم منعقد نہیں ہوتی ہے، کیونکہ یہ غیر اللہ کی قسم ہے،جس کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ہے،کلما کی قسم کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ وضاحت سے یہ تلفظ کریں کہ اگر میں نکاح کروں یا جب بھی میں نکاح کروں تو بیوی پرطلاق۔

     کسی نے اس طرح سے قسم کھائی کہ اگر میں نکاح کروں یا جب بھی میں نکاح کروں تو بیوی پرطلاق، تو اس کا حیلہ یہ ہے کہ اس کی طرف سے کوئی آدمی اس کی إجازت یا بغیر توکیل کے اس کا نکاح کردے اور اس کی طرف سے ایجاب کرلے پھر بعد النکاح اس کو اطلاع کردے،جب اس کو خبر پہنچے تو وہ زبان سے قبول نہ کریں،بلکہ مہر کا کچھ حصہ یا پورا مہر اس کو بھیجدے،اس سے اس کا نکاح فاسد نہیں ہوگا۔    

بالتفصیل جواب

  لفظ کلما یہ نہ ہی حروف أیمان میں سے ہے اور نہ ہی حروفِ طلاق میں سے ہے’’ کلما‘‘ یہ حروف شرط میں سے ہے صاحب ھدایہ اپنی اس عبارت سے اس طرف إشارہ فرتے ہو ئے تحریر بقلم ہیں’’

وألفاظ الشرط إن وإذا وإذاما وکل وکلما ومتی ومتی ما لأن الشرط مشتق من العلامۃ وھذہ الألفاظ مما یلیھا افعال فتکون علاماتٍ علیٰ الحنث‘‘(ھدایہ ۲/ ۳۹۸)

اور جب یہ حروفِ أیمان یا حروفِ طلاق میں سے نہیں ہے توصرف لفظ کلما کی قسم کھانے سے نہ وہ حالف ہوگا اور نہ ہی اس سے طلاق واقع ہوگی اور نہ ہی اس سے کفارے کا حکم نافظ ہوگاصاحبِ قدوری فرماتے ہیں کہ ’’ومن حلف بغیر اللہ عزوجل لم یکن حالفاً‘‘ (قدوری)

    اورصرف لفظ کلما سے طلاق کی نفی کرتے ہوئے ، علامہ شامی رقم طراز ہے ’’ أنہ قد إشتھر فی رساتیق شروان أن من قال جعلت کلما ا و علی کلما أنہ طلاق ثلاث معلق وھذا باطل ومن ھذیانات العوام‘‘  (شامی،۴/۴۵۷)

    لھذا حالف نے اگر صرف کلما کے لفظ ہی سے قسم کھائی ہے ،یعنی اس نے اس طرح سے قسم کھائی ہو کہ میں کلما کی قسم کھاتا ہوں اگرچہ اس نے اس مسئلہ کے مفہوم کی نیت کی ہو تو بھی اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی،کیونکہ أیمان کا دارومدارالفاظ (یعنی تلفظ )پر ہے ،نہ کہ أغراض(یعنی نیت)پر ہے علامہ شامی اس کو واضح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ’’الأیمان مبنیۃ علی الألفاظ لاعلی الأغراض (تحتہ فی الشامیہ: أی المقاصد والنیات،إحترز بہ عن القول ببنائھا علی النیۃ‘‘ (شامی،ج۵/ص۵۲۸)

    فتاوی محمودیہ میں اس طرح سے صرف لفظِ کلما سے قسم کے سوال کے جواب میںتحریر فرمایا ہے:صرف اتنا  کہنے سے قسم منعقد نہیں ہوگی،اس لئے حانث ہونے اور کفارہ ادا کرنے یا حیلہ تلاش کرنے کا اس پرسوال ہی پیدا نہیں ہوتا، (فتاویٰ محمودیہ، ج۱۳/ص۹۱ جدید) 

    اسی طرح کتاب النوازل میں اس طرح کے سوال کے جواب میں مفتی سلمان منصور پوری صاحب تحریر فرماتے ہیں :اُردو زبان میں محض لفظِ کلما کی قسم کھانے سے قسم منعقد نہیں ہوتی، کیونکہ یہ غیر اللہ کی قسم ہے،جس کا شریعت میں اعتبار نہیں ہے،البتہ اگر زید یہ کہتا کہ اگر میں نکاح کروں یا جب بھی میں نکاح کروں تو بیوی پرطلاق،تواس وقت عمر کی بات صحیح ہوتی اور نکاح کرنا مشکل ہوتا،    (کتاب النوازل،ج۹/ص۵۹۳) 

    فتاوی قاسمیہ میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضرت مفتی صاحب تحریربقلم ہیں :لوگوں میں جو کلما کی قسم مشہور ہے جس سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قسم کھانے والا جب نکاح کرے گا تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی یہ اس وقت ہے کہ جب قسم کھانے والا اس طرح قسم کھائے کہ میں جب جب نکاح کروں گا میری بیوی پر طلاق ،تو اس صورت میں جب بھی کسی عورت سے سے نکاح کرے گا فوراًاس پر طلاق پڑجائے گی،نتیجتاً اس کے نکاح میں کوئی عورت باقی نہیں رہے گی،لیکن اگر اس طرح قسم کھائی ہے کہ میں کلما کی قسم کھاتا ہوں تویہ قسم معتبر نہیں،اس وجہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی،اگرچہ اس کے ذریعہ سے اس کی نیت بھی کی ہو،کیونکہ قسم کے اندر نیت کا إعتبار نہیں ہے بلکہ الفاظ کا إعتبار ہے،   (فتاویٰ قاسمیہ،ج۱۶/۱۶۴)

    مذکورہ دلائل وفتاویٰ کی روشنی میںیہ بات واضح ہوگئی کہ تنہا لفظِ کلما سے طلاق واقع نہیں ہوگی،لہذا صابر نے صرف لفظ ِشرط کلما کو إستعمال کرکے قسم کھائی ہے جو حلف بغیراللہ کی قبیل سے ہونے کی وجہ سے لغو ہوگی اس کا إعتبار نہیں ہوگا اور نہ ہی اس پر کفارے کا کوئی حکم ہوگا۔

  کلما تزوجت کی صورت میں طلاق کا حکم

     کسی نے یہ کہا: اگر میں یہ کام کروں توجب جب میں کسی سے شادی کروں تو اس کو طلاق،اس کا یہ تلفظ شرط کے واقع ہونے کے بعددائمی عدم نکاح پر دلالت کرتا ہے،لہذاوہ جب جب کسی عورت سے نکاح کرے گا اس کا نکاح فاسد ہو جائے گا،صاحبِ ھدایہ رقم طراز ہے : اگر نفس تزوج پر کلما کو داخل کیا اور اس نے یہ کہا کہ کلما تزوجت إمرأۃ تو ایسی صورت میں جب جب بھی نکاح کرے گا طلاق واقع ہو جائے گی،’’ولو دخل علی نفس الزوج بأن قال:کلما تزوجت إمرأۃً فھی طالق یحنث بکل مرۃٍ و إن کان بعد زوج آخر،لأن إنعقادھا بإعتبار ما یملک علیھا من الطلاق بالتزوج وذلک غیر محصور‘‘ (ھدایہ ۲/۳۹۹) 

کلماتزوجت سے طلاق کی صورت میں حیلہ

اسکے لئے حیلہ یہ ہے کہ وہ اپنے معتمد آدمی کے سامنے یا پھر کسی گروپ کے سامنے یا مسجد کے امام یا کمیٹی کے سامنے یہ إظہار کریں کہ اس کے ساتھ اس طرح کا معاملہ پیش آیا ہے(سب کے سامنے إظہار کی وجہ یہ ہے کہ دوسروں کو اس کے معاملہ کا علم ہو اور کوئی تیار ہوجائے اس کی طرف سے نکاح کے لئے) اور وہ شادی کرنا چاہتا ہے ،پھر اس کی طرف سے بلاکسی توکیل کے کوئی آدمی اس کے نام سے نکاح پڑھ لے اور اس کو جاکر اس کی إطلاع کردے،اور وہ قول سے نہیںیعنی زبان سے قبول نہ کریں اور نہ إنکار کریں ،صرف عمل سے اس کو قبول کرلے مثلاً جیسے اس کو خبر ملی کہ اس کی شادی کردی گئی ہے تو جاکر اس کو مہراداکردے تو اس سے اس کا نکاح درست ہوجائے گا اور طلاق واقع نہیں ہوگی۔

صاحب بحر نے اس مسئلہ کو اپنے ان ألفاط میں بیان کیا ہے۔ ’’وینبغی أن یجیئی إلی عالم ویقول لہ: ماحلف وإحتیاجہ إلی نکاح الفضولی فزوجہ العالم إمرأۃ ویجیز بالفعل فلایحنث‘‘ (البحرالرائق ج۱۰/ص۱۱)

    علامہ شامی اس مسئلہ کو اپنے ان الفاظ میں بیان فرمارہے ہیں ،کہ اس کی شادی کوئی فضولی کردے اور جب اس کو معلوم ہو تو مہر یا اس کا بعض حصہ اس کو دیدے تونکاح ہو جائے گا طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ’’حلف لا یتزوج فزوجہ فضولی، فأجازہ بالقول حنث وبالفعل(تحتہ فی الشامیہ)کبعث المھر أوبعضہ لا یحنث …بہ یفتی (تحتہ فی الشامیہ) مقابلہ ما فی جامع الفصولین من أنہ لا یحنث بالقول کما مر، فکان المناسب ذکرہ قبل زوالہ وبالفعل أفادہ‘‘ (شامی ج۵/۶۷۲)

    عالمگیری میں بھی یہ مسئلہ اسی طرح سے بیان کیا ہے’’إذا قال:کل إمرأۃ أتزوجھا فھی طالق فزوجہ فضولی وأجاز بالفعل بأن ساق المھر ونحوہ لاتطلق‘‘ (عالمگیری،ج۱/ص۴۱۹)

    فتح القدیر میں بھی اس مسئلہ کی ترجمانی اسی انداز میں کی ہے۔ ’’إذا قال:کل إمرأۃ أتزوجھا فھی طالق فزوجہ فضولی فأجاز بالفعل بأن ساق المھر ونحوہ لاتطلق‘‘ (فتح القدیر ج۴/ص۱۰۶)

    اورقاضی خاں میں بھی اس کا حیلہ اسی طرح لکھاہے’’ ولو کان حلف قبل نکاح الفضولی أن لا یتزوج إمرأۃ ثم زوجہ الفضولی إمرأۃ  وأجازہ الحالف نکاحہ بالقول حنث فی یمینہ وإن أجازہ بالفعل من سوق مھرأونحوہ إختلفوا فیہ وأکثر المشائخ علی أنہ لا یحنث‘‘  (قاضی خاں علی ھامش العالمگیر،۱/۵۱۲)

    مجمع الأنہر میں بھی اس مسئلہ کے حیلے کی ترجمانی اسی انداز میں کی ہے۔ ’’وکیفیۃ عقد الفضولی أن یزوجہ فضولی فأجازہ بالفعل بأن المھر،أ ونحوہ لا بالقول فلا تطلق بخلاف ما إذا وکل بہ لإنتقال العبارۃ إلیہ‘‘  (مجمع الأنھر فی شرح ملتقی الأبحُرج۲/ص۶۰)

    علامہ اشرف علی صاحبؒ تھانوی کلما کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیںکہ …نہ خود نکاح کرے اور نہ ہی کسی کو نکاح کا وکیل بناوے بلکہ کسی فہیم آدمی کے سامنے یہ کہے کہ میں نے حلف کرلیا ہے اور مجھ کو نکاح کی حاجت ہے اور اُس کے جواز کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص اگر بلا میری إجازت کے نکاح کردے اور پھر مجھ کو خبر کردے اورمیں اس کو سنکر جائز رکھوں تو نکاح درست ہوجائے گا،اور طلاق واقع نہ ہوگی اور یہ مضمون سنکر کوئی شخص یہی عمل کرے اور یہ شخص سنکر جائز رکھدے تو طلاق واقع نہ ہوگی۔ (امداد الفتاویٰ،ج۵/ص۳۲۹جدید)

    حضرت مفتی رشید صاحبؒ لدھیانوی’’ جب جب میں کسی عورت سے نکاح کروں وہ مطلقۂ ثلاث ہے‘‘ کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:یہ صورت ہوسکتی ہے کہ اس کی إجازت کے بغیر کوئی اجنبی شخص اس کا نکاح کرادے،پھر جب اس کو نکاح کی خبر پہنچے تو زبان سے إجازت نہ دے،ورنہ تین طلاقین ہوجائیں گی،خبر سُن کر بالکل خاموش رہے،تحریری إجازت دیدے یا مہر کل یا اس کا کچھ حصہ بیوی کی طرف بھیج دے،تحریری إجازت بیوی کو بھیجنا ضروری نہیں، اپنے ہی طور پر کسی کاغذ پر اس نکاح کی إجازت لکھ لینے سے نکاح نافظ ہوجائے گا اور طلاقیں واقع نہ ہوگی۔ (احسن الفتاوی ج۵/۱۷۷)

    فتاوی محمودیہ میں بھی اسی طرح کے سوال کے جواب میں آپ رقم طراز ہے:…اب صورت یہ ہے کہ جو شخص آپ کے اس حال سے واقف ہو اور یہ بھی جانتا ہو کہ آپ کو کس لڑکی سے شادی کرنا پسند ہے وہ بغیر آپ کے کہے از خود اس لڑکی کا نکاح آپ سے کردے یعنی وہ آپ کی طرف سے آپ کے لئے قبول کرلے،مثلاً :لڑکی کے والد سے کہے کہ آپ اپنی فلاں لڑکی کا نکاح فلاں سے یعنی آپ سے کردیں،میں ان کی طرف سے قبول کرتا ہوں،اگر گواہوں کے سامنے یہ ایجاب و قبول ہوجائے اور پھر وہ شخص آپ سے آکر کہے کہ فلاں لڑکی کو آپ کے لئے نکاح میں قبول کرلیا ہے،آپ انگوٹھی یا کچھ نقد دیجئے تاکہ بطورِ مہر معجل آپ کی طرف سے اس کو دیدوں،آپ زبان سے کچھ نہ کہیں،خاموش رہیں اور انگوٹھی یا کچھ نقد دیدیں۔ (فتاوی محمودیہ ج ۱۳ص۹۷)

    کلما کے ذریعہ بعد الطلاق کے حیلے کے سلسلہ میں ایک سوال کے جواب میں حضرت مفتی شبیر احمد مرادآبادی تحریر فرماتے ہیں :کلما کی طلاق کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اس طرح سے کہے کہ جب جب بھی کسی عورت سے نکاح کروں گا تو اس کو طلاق،اور کلما کی طلاق شدہ سے خلاصی کی صورت یہ ہے کہ کوئی دوسرا دوست اس کا نکاح کسی عورت سے کردے اور اس کی طرف سے خودقبول کرلے،پھرآکر اس سے کہے میں نے تمہارا نکاح فلان عورت سے کردیا،کوئی ایک چیز بطور مہرِمعجل لاؤ،اور وہ کوئی چیز خاموشی سے دیدے،زبان سے کچھ نہ کہے اس کے بعد یہ رفیق وہ سامان اس عورت کو دیدے کہ یہ تمہارے شوہر نے بطور مہر معجل کے دی ہے، یہ حالف کی طرف سے فعلاً إجازت ہوگی، ‌اورقسم کی وجہ سے اس پر طلاق واقع نہ ہوگی۔ (فتاویٰ قاسمیہ ج۱۶/ص۱۶۲)

فقط والسلام :ھذا ماعندی: واللہ اعلم بالصواب

العارض: آصف بن محمد گودھروی 

خادم: جامعہ تحفیظ القران اسلام پورا


کوئی تبصرے نہیں: