پردے کا شرعی حکم کیا ہے مفتی آصف گودھروی
سوال
عورتوں پراسلام نے پردہ کیوں لازم کیا ہے؟ عورتوں کے لئے پردے کا شرعی حکم کیا ہے؟ غیر محرم مردوعورت آپس میں سلام ومصافحہ کرسکتے ہیں؟ کیا غیر محرم عورت کو دیکھنا بغیر شہوت کے جائز ہے؟ اگر نہیں ہے توانٹرویو کا کیاحکم ہے؟ اس لئے کہ وہاں عام طور پر عورتیں ہی ہوتی ہے، اس دوران زیادہ تر یہ دیکھا جاتا ہے کہ انٹریو میں مرد، عورت سے آنکھ سے آنکھ ملا کر انٹریو دیتے ہیں، اس کا شرعی حکم کیاہے؟ مفصل ومدلل جواب ہو مہربانی ہوگی
سائل فیض احمد جھالاواڑ
الجواب وبا اللہ التوفیق
بإسمہ سبحانہ وتعالیٰ
فتوے کا خلاصہ
اللہ تعالیٰ کو نسل انسانی کی بقاء مقصود تھی اور وہ بقاء یاتو جان کی حفاظت سے ہوگی یا حیاء کی حفاظت سے ہو گی جانوں کو محفوظ کرنے کے اصول وضوابط قصاص ودیت کی شکل میں اللہ نے بیان کئے اور حیاء وعفت کو محفوظ کرنے کے لئے عورتوں کو پردے کا حکم دیا ،چونکہ عورتوں کی طرف مردوں کے مقابلہ میں کشش بھی زیادہ ہوتی ہے، اسی لئے ان کو شرم وحیا اور جذبۂ عفت کی بقا کے خاطر اللہ نے پردے کا حکم فرما۔
سلام و مصافحہ میں اگر عورت عمر رسیدہ ہے یا اپنی محرمات میں سے کوئی ہے تو جائز ہے، اجنبیہ سے مصافحہ اور سلام وکلام کی شریعت نے إجازت نہیں دی ہے،اگر بالفرض کسی عورت نے مرد کو یا مرد نے عورت کو سلام کردیاتو دل ہی دل میں اس کاجواب دیں، بلند آواز سے جواب دینا جائز نہیں ہے۔
انٹریو میں بلا ضرورت کے عورت سے بات چیت کرنا اور نظریں ملاکر سامنے دیکھنا جائز نہیں ہے،البتہ مجبوری ہو، چاہے وہ مجبوری دینی ہو یا دنیوی تو جائز ہے لیکن جہاں تک ہو سکے اپنی نظروں کو جھکا کر رکھیں اور دل کو وساوس سے پاک وصاف رکھیں۔
تفصیلی جواب
حضرت آدم کی تخلیق کے بعد نسل انسانی کی افزائش کے لئے اور اسے پور سکون زندگی گزارنے کے خاطر اللہ تعالی نے صنف نازک کو پیدا کیا، اس تخلیق کا اشارہ خود قران میں بھی مذکور ہے۔
سورۃ النساء آیت۱’’ وخلق منھا زوجھا وبث فیھا رجالا کثیرا و نساء ا‘‘سورۃ روم آیت ۲۱ میںہے ’’ومن اٰیتہ ان من خلق لکم من انفسکم ازواجا لیسکنو الیھا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ‘‘
اللہ تعالیٰ نے غایت درجہ کی حکمت و مصلحت کے تحت تمام جاندار کو جوڑو میں پیدا کیا بلکہ کائنات میں پائی جانے والی تمام چیزوں کو اللہ نے جوڑو کی شکل میں پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الذاریات میں ارشاد فرمایا
’’ومن کل شیء خلقنا زوجین لعلکم تذکرون ‘‘
اسی قانون فطرت کے تحت اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو بھی جوڑو کی شکل میں پیدا کیا ہے تاکہ نسل انسانی کا سلسلہ یوں ہی آگے بڑھتا رہے اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش اور جاذبیت رکھ دی تاکہ یہ دونو ایک دوسرے کے قریب آنے کے لئے بیتاب رہیں، یہ ایک فطری بات ہے اور اللہ کی فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں ہے جو شخص اپنے آپ کو پرہیز گار اور پاکیزہ ثابت کرنے کے چکر میں یہ کہتا ہو کے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، یا وہ عورتوں سے بالکل کشش نہیں رکھتا ہے، اس کا دل بالکل صاف ہے، یہ اس کادعویٰ جھوٹا اور قانون فطرت کے خلاف ہے۔
آج دنیا جس فحاشی اور عریانیت میں پھنسی ہوئی ہے اور انسانیت سوز حکایتیں سامنے آتی ہیں اسکا اندازہ بھی نہیں کر سکتے،وہیں ہمارے مسلم معاشرے میں مغربی تہذیب و کلچر کی یلغارنے فحاشی اور عریانی کا چلن عام کر دیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بے انتہاء مخلوق پیدا کی ہے، ان سب مخلوقات پر حضرت انسان کو شرفیت بخشی، نسان کو اللہ نے عقل و شعور اور قوت فیصلہ عطا فرمایا ہے، اور اللہ نے انسان کو زمین پر اللہ کا خلیفہ بنایا ہے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ کو نسل انسانی کو فروغ دینا تھا اس کو تا قیامت باقی رکھنا تھا اسی مقصد تخلیق کی بقاء اور افزائش نسل کے خاطرمردوعورت کے میلاپ کے کچھ اصول و ضوابط شریعت نے متعین و مقرر فرمائے، اور اس کی ملکیت کے ساتھ انتفاع کو مقید کر دیا، چاہے وہ ملکیت مجازی ہو یعنی نکاح سے ہو یا ملکیت حقیقی ہو یعنی باندی کی شکل میں ہو، جسے قرآن نے ان الفاظ میں واضح فرمایا
’’فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنیٰ وثلاث وربٰع فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدۃ أو ماملکت أیمانکم‘‘
اور پھر اسکی بقاء کے لیے ایک ایسا عنصر پیدا کر دیا جو اسکے لیے ایک روح کی حیثیت رکھتا ہے، وہ نمایا عنصر شرم و حیا اورجذبہ عفت ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے حیاء یہ ایمان کا ایک شعبہ ہے۔
’’عن عبد اللہ ابن عمر سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجلا یعظ اخاہ فی الحیاء فقال ان الحیاء شعبۃ من الایمان۔ (ابن ماجہ ۲۳حدیث ۵۷ مطبع دار الکتب العربیۃ)
نیز بہت ساری احادیث اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہے کسی حدیث میں ’’الحیاء من الایمان‘‘تو کسی حدیث میں ’’الحیاء کلہ الخیر‘‘ جیسے الفاظ وارد ہوئے ہے۔
چونکہ اسلام پاک و صاف معاشرہ کی تعمیر اور انسانی اخلاق وآداب کی تہذیب پر گامزن ہے، اور اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پرامن معاشرے کے قیام کے لیے جو اہم تدبیر ہے وہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچا کر پاکیزہ زندگی کے قیام کا حکم ہے، چنانچہ اسی سلسلہ میں اسلام نے سب سے پہلے حفاظت نظر پر زور دیا پھر حفظ فروج کا حکم دیا ہے کیونکہ بد نظری ہی تمام فواحشات کی بنیاد ہے، اسی لیے قرآن میں ہے۔
’’قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم‘‘(سورۂ نور آیت۳۰)
اور بد نظری سے حفاظت کا واحد علاج یہ ہے کہ جن سے فتنے کا اندیشہ ہے اسی کو شریعتِ اسلام نے پردے کا حکم دیااور یہ اعلان کردیا کہ عورت اپنے گھروں میں ہی مقیم رہیں۔پردہ کے دو معنی ہے، (١) حجاب (۲)ستر
(١)حجاب
مکمل طور پر اپنے گھروں میں ہی محبوس رہنا، اور عورت سے حجاب میں ہی تکلم اورمصالح اعمال کا انجام دینا ہے، بغیر حجاب کے عورت مرد کے سامنے نہ آئے، اللہ تعالیٰ نبی کے واسطے سے پوری امت کی عورتوں کو پیغام حجاب دیتے ہوئے اپنے نبی سے خطاب فرماتے ہیں، قران کریم میں ہے۔
’’وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاُولی‘‘ (سورۃٔ احزاب آیت۳۳)
تفسیر عثمانی میں اس آیت کی تفسیرکرتے ہوئے یہ تحریر فرمایا ہے: یعنی اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ پھرتی اور بدن اور لباس کی زیبائش کا اعلانیہ مظاہرہ کرتی تھیں،اس بد اخلاقی اور بے حیائی کی روش کو مقدس اسلام کب برداشت کرسکتا ہے اس نے عورتوں کو حکم دیا کہ گھروں میں ٹھہری رہیں، اور زمانہ جاہلیت کی طرح باہر نکل کر حسن وجمال کی نمائش نہ کرتی پھریں۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے
’’واذا سالتموھن متاعا فالسئلوھن من وراء حجاب (الاحزاب آیت۵۳)
مولانا عبد الماجد دریابادی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:یعنی اتنا پردہ تو ضرورت کے وقت رہنا ہی چاہئے اور بلا ضرورت تو اس کا اہتمام اور اشد ہے…اور یہ حکم بھی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں ہے، حجاب ہر نامحرم پر لازم اور ضروری ہے۔
ویدخل فی ذالک جمیع النساء بالمعنیٰ (قرطبی) (مظہری)
(٢)ستر
جہاں تک ستر کی بات ہے تو وہ فرض ہے۔ عورت کا پورا بدن سوائے چہرا اور ہتھیلیاں اور پیروں کا وہ حصہ جو ٹخنوں کے نیچے کاہے ان کے علاوہ پورا بدن ستر ہے بغیر کسی اعذار کے اس کونا محرم کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں ہے، قران مجید میں ہے۔
’’لایبدین زینتھن الا ما ظھر منھا‘‘ (سورۂ نور ۳۱)
لیکن فی زمننا چہرے کو بھی ستر میں داخل کیا گیا ہے خوف فتنہ کی وجہ سے،قدوری میں ہے۔
’’ولا یجوز ان ینظر الرجل من الاجنبیۃ الا الی وجھھا وکفیھا فان کان لا یامن من الشھوۃ لم ینظر الی وجھھا الا لحاجۃ‘‘(قدوری )
صاحب بحر الرائق چہرے کے ستر کے سلسلہ میں رقم طراز ہے،
قال مشائخنا تمنع المرءۃ الشابۃ من کشف وجھھا بین الرجال فی زماننا للفتنۃ (البحرالرائق جلد۱/ص۵۷۰)
لیکن جہاں شریعت نے ستر کا حکم دیا ہے وہی پر اعذار کی صورت میں کشف عورت کی اجازت دی ہے ۔ کشف عورت کی مختلف صورتیں ہے۔
(۱)مکمل کشف بدن۔
(۲)ستر شرعی میں سے کسی عضو کو کھو لنا۔
(۳)ستر حکمی کو کھولنا ۔
(۱)مکمل کشف بدن
جہاں تک پہلی صورت کی بات ہے تو وہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے عورت کو مکمل برہنہ ہونے کی اجازت صرف اس کے شوہر کے سامنے ہے ان کے علاوہ کے سامنے وہ نہیں کھول سکتی لیکن یہاں پر بھی اچھایہ ہے کہ اس وقت بھی بقدر ضرورت کشف عورت ہو، جیسا کہ صاحب ھدایہ نے تحریر فرمایا ہے اللہ کے رسول کی ایک حدیث کو بیان کر کے کہ جب تم اپنی بیوی سے ہم بستری کریں تو جتنا ہو سکے اتنا ستر کریں مکمل برہنہ نہ ہوجائیں
’’لقولہ علیہ السلام إذا أتی أحدکم اھلہ فلیستتر مااستطاع ولا یتجردان تجرد العیر‘‘(ھدایہ ج۴/ص۴۶)
(۲)ستر شرعی میں سے کسی عضو کو کھو لنا۔
ستر شرعی عورت کے لیے چہرہ ہتھیلیاں اور پیر کا ٹخنوں کے نیچے کا حصہ ان تین کے علاوہ پورا بدن سترشرعی میں داخل ہے لہذا اس میں سے کسی بھی عضو کاکھولنا کسی نا محرم کے سامنے بلا کسی عذر شرعی کے جائز نہیں ہے، عذر شرعی جیسے لیڈی ڈاکٹر کی عدم موجودگی میں مریضہ کا مرد ڈاکٹر سے علاج کروانا۔ صاحب ہدایہ رقم طراز ہے۔
’’ویجوز للطبیب ان ینظر الی موضع المریض منہا للضرورۃ‘‘ (ہدایہ ۴:۴۶۱ قدوری ۲۶۵)
لیکن اگر ستر غلیظ ہوتو ایسی صورت میں کسی عورت کو اس کے علاج کا طریقہ بتلادے اور دور سے اس کا جائزہ لیوے الا یہ کہ کوئی ایسی صورت نہ ملے تو گنجائش ہے کہ جتنے عضو میں علاج کی ضرورت ہواس کو کھولے اور مابقیہ کا استار ضروری ہے اور نظروں کو جھکائے رکھے جتنا ہوسکے ۔
صاحب ھدایہ اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہے۔
ویجوز للطبیب ان ینظر الی موضع المرض منھا للضرورۃ، وینبغی ان یعلم امرئۃ مدا واتھا لأن نظر الجنس الی الجنس اسھل فان لم یقدروا یستر کل عضو منہا سوی موضع المرض ثم ینظر ویغض بصرہ ما استطاع لان ما ثبت بالضرورۃیتقدر بقدرھا۔ (ھدایہ جلد ۴/ص۴۶۱)
علامہ شامی مذکورہ مسئلہ کی پوری وضاحت کے بعد تحریر بقلم ہے۔
ثم یدا ویھا الرجل ویغض بصرہ مااستطاع إلا عن موضع الجرح۔ (شامی ج۱۰/ص۵۳۳)
(۳)ستر حکمی کو کھولنا ۔
یعنی چہرے اور ہتھیلیوں کا پردہ سترِ عارضی کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں
(۱)عام حالات میں ستر وجہ
(۲) بوقتِ ضرورت بقدر ضرورت کشف وجہ ونظر وجہ
(۱)عام حالات میں ستر وجہ
عام حالات میں عورت کے لئے سترِ وجہ وجوب کے درجہ میں ہے اکثر علماء نے فتنہ کے خوف کی وجہ سے اسکو وجوب کا درجہ دیا ہے ،قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم فرمارہے ہیں،جب باہر نکلیں تو اپنی چادروں کو کچھ آگے کی طرف کھینچ لیں
’’یا ایہا النبی قل لازواجک وبناتک و نساء المومنین یدنین علیھن من جلابیبھن‘‘ (سورۂ أحزاب آیت۳۳)
تفسیرِ عثمانی میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہے:جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمان عورتیں اپنے چہرے اس طرح سے چھپا کر نکلتی تھی کہ صرف ایک آنکھ کھلی رہے۔
قرآن کریم کی آیت’’لا یبدین زینتھن إلا ماظھر منھا‘‘کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ صابونی رقم طراز ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو بذاتِ خود کھُل جائے پس اس کو عمداً پر محمول کرنا یہ قرآن و حدیث کی مراد کے مخالف ہے۔
’’والظاھر من الآیۃ أن القرآن ینھی عن إبداء الزینۃ ویرخص فیما إذا ظھر من غیر قصد، فالتوسع فی حد ھذہ الرخصۃ إلیٰ إظھارھا (عمداً)مخالف للقرآن ومخالف للروایات التی یثبت بھا أن النساء فی عھد النبی ﷺ ماکن یبرزن إلی الجانب سافرت الوجوہ،وأن الأمر باالحجاب کان شاملاً للوجہ،وکان النقاب قد جعل جزء اًمن لباس النساء إلا فی الإحرام‘‘ (روائع البیان ج۲/ص۱۷۴)
علامہ شامی نے اپنی عبارت میں اسی طرف إشارہ کیا ہے کہ عام حالات میں عورت کو کشف وجہ و کشف ید سے روکا جائے گا
وتمنع المرأۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین الرجال لا لأنہ عورۃ،بل لخوف الفتنۃ …والمعنیٰ یمنع من الکشف لخوف أن یریٰ الرجال وجھھا فتقع الفتنۃ‘‘(شامی ج۲/ص۷۹)
صاحب بحر نے بھی عام حالات میں عدم کشف کا فیصلہ دیاہے
’’قال مشائخنا تمنع المرء ۃ الشابۃ من کشف وجھھا بین الرجال فی زماننا للفتنۃ‘‘ (البحرالرائق جلد۱/ص۵۷۰)
(۲)بوقت ضرورت بقدرِ ضرورت کشف وجہ ونظر وجہ
اتنی بات تو صاف ہے کہ تمام فقہاء نے بوقت ضرورت بقدرِ ضرورت کشفِ وجہ و نظر وجہ کی اجارت دی ہے،یعنی اگر کسی وجہ سے عورت کے چہرے کو دیکھنے کی ضرورت پر جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جب کہ فتنے کا خوف نہ ہو اور اگر فتنے کا خوف ہو تو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے
’’وأما النظر إلی الأجنبیات فنقول یجوز النظر إلی مواضع الزینۃ الظاھرۃ منھن وذلک الوجہ،والکف فی الظاھرالروایۃ، کذا فی الذخیرۃ،إن غلب علیٰ ظنہ أن یشتھی فھو حرا ھکذا فی الینابع‘‘ (فتاویٰ عاملگیری،۵/۳۲۹)
علامہ شامی نے ضرورت کے وقت نظرِوجہ کے جواز کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
’’ینظرمن الأجنبیۃ إلی وجھھا و کفیھا فقط للضرورۃ،قیل والقدم‘‘ (فتاویٰ شامی۹/۵۳۱)
فتاویٰ تاتار خانیہ میں ان الفاظ میں نظر وجہ کے جواز کو نقل کیا ہے
’’وأما النظر إلی الاجنبیات فنقول:یجوز النظر إلی مواضع الزینۃ الظاھرۃ منھن،وذلک الوجہ والکف فی ظاھر الروایۃ‘‘ (فتاویٰ تارتاخانیہ، ۱۸/۹۲)
سنن أبی داؤد میں نظر وجہ کے جوازکو ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے’’أخرج ابوداؤد عن عائشۃ أن أسماء بنت أبی بکر دخلت علیٰ رسول اللہ ﷺوعلیھا ثیاب رقاق فأعرض عنھا رسول اللہ ﷺ وقال: یا أسماء إن المرأۃ إذا بلغت المحیض لم یصح لھا إلا ھذا وھذا،وأشارألیٰ وجھہ وکفیہ(سنن أبی داؤد ج۲ص۵۶۷) (حاشیہ فتاویٰ تارتاخانیہ، ۱۸/۹۲)
أجنبیہ سے سلام ومصافحہ کا مسئلہ
کسی مرد نے أجنبیہ عورت کو سلام کیا یا عورت نے أجنبی مرد کوسلام کیا، اور عورت عمر رسیدہ ہے تو سلام کرنے اورسلام کا جواب دینے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے ،اس سلسلے میںفتاوی عالمگیری میںحلت کو ان الفاظ میںبیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ عمر رسیدہ کے مصافحہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’إذا سلمت المرأۃ الأجنبیۃ علی رجل إن کانت عجوزاً رد الرجل علیھا السلام بلسانہ بصوت تسمع‘‘ (فتاویٰ عالمگیری،ج۵/٣٢٩)
علامہ شامی نے بھی حلت کی وضاحت کرتے ہوئے عمر رسیدہ عورت کے مصافحہ کے جواز کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتیں ہیں۔
’’أما العجوز التی لاتشتھی فلا بأس بمصافحتھا ومس یدھا إذا أمن‘‘ (فتاویٰ شامی،ج۹/۵۳٠)
اسی طرح اپنی محرمات کو سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا جائز ہے اور اسی طرح محرمات اور عمر رسیدہ عورتوں سے مصافح کرنا بھی جائز ہے جب کہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔علامہ شامی اس کی عکاسی کرتے ہوئے رقم طراز ہے.
’’وماحل نظرہ مما مر من ذکر أو أنثیٰ حل لمسہ إذا أمن الشھوۃ علیٰ نفسہ وعلیھا لأنہ علیہ السلام کان یقبل رأس فاطمۃ وقال علیہ الصلاۃ والسلام من قبل رجل أمہ فکأنما قبل عتبۃ الجنۃ وإن لم یأ من ذالک أو شک فلا یحل لہ النظر والمس ‘‘ (فتاویٰ شامی،ج۹/ص۵۲۹)
مبسوط سرخسی میں محارم سے مصافحہ کی حلت کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔
’’ولکن إنمایباح المس والنظر إذاکان یأمن الشھوۃ علی نفسہ وعلیھا ‘‘(مبسوط سرخسی،ج۱۰/ص۱۴۹)
مرد کسی اجنبیہ عورت کو اور عورت کسی اجنبی مردکو دونوں ایک دوسرے کو نہ سلام کرسکتے ہیں اور نہ ہی آپس میں مصافحہ کرسکتے ہیں، شعب الإیمان میں مردو عورت کو آپس میں ایک دوسرے کوسلام کرنے سے ان الفاظ سے روکا گیا ہے۔
’’عن یحی بن أبی کثیر قال:بلغنی أنہ یکرہ أن یسلم الرجل علی النساء،والنساء علی الرجل، (شعب الإیمان ،بیروت ج۶/ص۴۶۰رقم الحدیث۸۸۹۷)
علامہ شامی جوان اجنبیہ عورت سے سلام کے سلسلہ میں حرمت کو واضح کرتے ہوئے تحریر بقلم ہیں۔
’’وإن کانت شابۃ رد علیھا فی نفسہ وکذا الرجل إذا سلم علی إمرأۃ أجنبیۃ فالجواب فیہ علی العکس‘‘ (فتاویٰ شامی،ج۹/ص۵۳۰… فتاویٰ ھندیہ ۵/۳۲۶)
عالمگیری میں مصافحہ کرنے کے عدم جواز پر کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’ولایحل لہ أن یمس وجھھا ولا کفھا وإن کان یأمن الشھوۃ۔ (فتاویٰ عالمگیری،ج۵/ص۳۲۹)
علامہ شامی نے أجنبیہ سے مصافحہ کے عدم جواز کو ان ألفاظ میں بیان کیا ہے۔
’’إلا من أجنبیۃ فلا یحل مس وجھھا وکفھا وإن أمن الشھوۃ لأنہ أغلظ ولذا تثبت بہ حرمۃالمصاھرۃ وھذا فی الشابۃ‘‘ (فتاویٰ شامی،ج۹/ص۵۲۸)
ایک اور جگہ باندی کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے چھونے کی حرمت کو واضح کیا ہے۔
’’ولا یجوز لہ أن یمس وجھھا ولا کفیھا،وإن أمنواالشھوۃلوجوب الحرمۃ وإنعدام الضرورۃ والبلویٰ‘‘ ( شامی،۹/۵۲۳)
مبسوط سرخسی میں أجنبیہ سے ملاقات کو واضح طور پر ناجائز قراردیا ہے۔
’’ولا یحل لہ أن یمس وجھھا ولا کفھا وإن کان یأمن الشھوۃ لقولہ ﷺ من مس کف إمرأۃلیس منھا بسبیل وضع فی کفہ جمرۃ یوم القیامۃحتی یفصل بین الخلائق‘‘ ( مبسوط سرخسی،ج۱۰/ص۱۵۴)
إنٹریو کے دوران عورت سے تکلم
إنٹریو کے سلسلہ میں دوباتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے
(۱) بلا ضرورت کہ صرف شوقیہ طور پر إنٹریو میں جانا
(۲)مجبوری کے طور پر جانا چاہے وہ مجبوری دینی ہو یا دنیوی۔دینی جیسے کسی شرعی مسئلہ کے سلسلہ میں دفاع کے طور پر جانا یا مسلمانوں کے رفاہی اعمال کی حفاظت کے لئے آنا،
(۱)جہاں تک پہلی بات کا مسئلہ ہے تو کسی بھی حال میںبلا ضرورت عورت سے تکلم کرنا اور نظریں ملاکر بات کرنا جائز نہیں ہے،اس کے مفصل دلائل آپ نے اوپر ملاحضہ کر لئے،کہ بلا ضرورت عورت سے نہ تکلم جائز اور نہ ہی ان کی طرف دیکھنا جائز ہے اس میں کسی بھی طرح کی گنجائش نہیں ہے۔
(۲)جہاں تک دوسرے مسئلہ کی بات ہے تو چونکہ ضرورت کے وقت علماء نے عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے کی إجازت دی ہے ،جیسے کہ مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آگئی ،لھذااپنی نیت کو درست رکھتے ہوئے اور دل کو غلط خیالات سے محفوظ رکھتے ہو ان سے تکلم جائز ہوگا،لیکن جہاں تک ہوسکے ان کی طرف دیکھنے سے إحتراز کریں،علامہ شامی کی عبارت سے بھی اس مسئلہ کی تائید ہو رہی ہے وہ تحریر فرماتے ہیں۔
’’ یجوز الکلام المباح مع إمرأۃ أجنبیۃ‘‘ (فتاویٰ شامی۹/۵۳۰)
فقط والسلام :ھذا ماعندی: واللہ اعلم بالصواب
العارض: آصف بن محمد گودھروی
خادم: جامعہ تحفیظ القران اسلام پورا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں