اتوار، 21 مارچ، 2021

وکیل بالشراء کی شرعی حثیت مفتی آصف گودھروی

 

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بعد سلام بصد احترام عرض ہے کہ مفتی صاحب خالد نے عارف کو 200000/-روپے ایک مال کے لیے دئیے ہیں اور عارف نے اس روپیہ کو خالد کی اجازت کے بغیر دوسرے مال میں استعمال کئے (مثلاً نلگری کی لکڑی کے لیے پیسے دئیے) دوسرے شخص نے ان پیسوں کو پہلے شخص کو بتائے بغیر دوسرے کسی مال میں استعمال کرلئے (مثلاً نیم کی لکڑی میں استعمال کرلئے) تو کیا عارف کا یہ کام کرنا شریعت کی روشنی میں درست ھے، اور ان پیسوں کا کیا حکم ہے۔ مع حوالہ جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں

سائل: مولوی لقمان گودھروی

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی

وکیل بالشراء کے پاس جو مال ہے وہ بطور امانت ہے، اس میں مؤکل کی اجازت کے بغیر اس کو کسی اور شئی میں تصرف سے احتراز ضرورى ہے۔ اس لئے کہ وکیل امین ہوتا ہے،

كمافي شرم المجلة: المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وايفاءالدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده. ( ٤/٤٣٢ ) 

لہٰذا اس کو حکمِ مؤکل کے خلاف تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا، اگر وکیل بالشراء مؤکل کے حکم کے خلاف کسی اور شئی کو خریدے گا تو وہ اس شئی کو اپنے لئے ہی خریدنے والا ہوگا وہ مؤکل کے لئے شمار نہیں ہوگی، مؤکل کے لئے وہی چیز خریدنا لازم ہے جس کی اس نے وضاحت کی ہے۔

البحرالرائق میں اس طرح کے مسئلہ کی وضاحت کچھ اس انداز میں کی ہے۔

( فلو اشتراه بغير النقود أو بخلاف ما سمي له من الثمن وقع للوكيل ) لأنه خالف أمره فنفذ عليه. أطلقه فشمل المخالفة في الجنس وفي القدر كما في البزازية ، (البحر ج٧/٢٦٩)

وقيد بقوله « ما يباع إلى آخره لأنه لو اشترى ما يساوي عشرين منه بدرهم صار مشترية لنفسه إجماعا لأنه خلاف إلى شر لأن الأمر تناول السمين وهذا مهزول فلم يحصل مقصود الأمر(البحر ٧/٢٦٧)

اسی طرح علامہ شامی اس طرح کے ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔

ولو شری مالا يساوي ذلك وقع للوكيل إجماعا كغیر موزون (شامی ج٨/٢٥١)

البتہ مالک کی اجازت سے اس سے کوئی اور شئی خریدی جاسکتی ہے، اور چونکہ بیع و شراء کا وکیل بحیثیت امین کے ہوتاہے، اور امانت کی رقم اگر اپنے لئے استعمال کرلی جائے تو یہ امانت کے حکم سے نکل جائے گی، اور  مضمون ہوجائے گی، اور اس کا بدل لازم آئے گا۔

الوديعة لا تودع ، ولا تعار ، ولا تؤاجر ، ولا ترهن ، وإن فعل شيئا منها ضمن . ( هندية ، کتاب الوديعة ، الباب الأول ، زکریا قدیم ۳۳۸/٤ ، جديد ۳٣۹/٤) 

لہذا وہ پیسے اس نے صاحب مال کی اجازت کے بغیر کسی اور شئی کو خرید نے میں خرچ کردئیے ہے، مؤکل کی منشاء کے خلاف خریدنے سے وہ چیز اسی کے لئے شمار ہوگی اور اس کو یا تو مؤکل کی منشاء کے مطابق خریدنا ہوگا یا رقم واپس کرنی ہو گی۔

فقط والسلام: واللہ اعلم بالثواب

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا

کوئی تبصرے نہیں: