کھانا میٹھی چیز سے شروع کرناسنت ہے یا نمکین سے مفتی آصف گودھروی
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ عوام میں یہ بات بہت زیادہ مشہور ہے کہ کھانا کھانے کے بعد میٹھا کھانا سنت ہے، اور اسی بنیاد پر بہت سے لوگ کھانے کے بعد میٹھا کھانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ لہذا یہ بات واضح کیجئیے کہ کھانا کھانے کے شروع میں میٹھا کھانا مسنون ہے یا نمکین؟ سب لوگ الگ الگ باتیں کہتے ہیں۔ اسی طرح کھانا شروع کرنے سے پہلے نمک چاٹنا یانمک سے کھانے کی ابتداء کرنا اورنمک پر ہی کھانے کو ختم کرنا ، کیا ایسا کرنا احادیث و آثار سےثابت ہے؟ بعض فقہی کتب میں جو سنت یامستحب لکھا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ مدلل ومفصل جواب تحریر فرمائیں مہربانی ہوگی۔
سائل: حافظ خالد اندوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
عوام میں جو مشہور ہے کہ کھانے کے بعد یا کھانے سے پہلے میٹھا کھانا سنت ہے، اس کی مجھے کہیں صراحت نہیں ملی، لہذا میٹھا کھانے سے پہلے ہو یا درمیان میں یا بعد میں اس کا تعلق امورِ عادیہ سے ہے نہ کہ سننِ شرعیہ سے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا ضرور پسند تھا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ۔
کان رسول اللہ ﷺ یحب الحلوٰی والعسل۔ (صحیح البخاری : ۲/۸۱۷ ، کتاب الأطعمۃ ، باب الحلوٰی والعسل)
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھا اور شہد پسند فرماتے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانے کے بعد میٹھا کھانےکامعمول ہو یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
البتہ ایک موقع پر کھانے کے بعد میٹھی چیز نوش فرمانا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔حضرت عکراش بن ذویب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے آخر میں کھجور تناول فرمائی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کے آخر میں آپ ﷺ نے میٹھی چیز کھائی ہے.
(جامع الترمذی، ابواب الاطعمة، باب ما جاء فی التسمیة فی الطعام،ج: ۲، ص: ۱١، سعید)
لیکن ایک آدھ مرتبہ کھانے کے بعد میٹھی چیز تناول فرمانے کی بنا پر کھانے کے بعد میٹھے کو سنت نہیں کہاجائے گا۔
ابتداء بالملح انتہاء بالملح کی حقیقت
کھانے کے آداب میں سے ایک ادب یہ بتایا گیا ہے کہ کھانا نمکین سے شروع کیا جائے اور نمکین پر ہی ختم کیا جائے۔ میٹھی چیز درمیان میں کھالی جائے۔۔ لیکن نمکین سے ابتداء اور نمکین پر اختتام یہ طبی اعتبار سے تو مفید ہوسکتا ہے کہ اس سے معدہ پر اچھا اثر پڑتا ہے صحت کے لئے زیادہ مفید ہے، البتہ مستحب سنت اور واجب نہیں ہوسکتا۔
اور فقہی کتب میں جو مستحب یا سنت لکھاہے، اس سلسلہ میں احسن الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ۔ کھانے کی ابتدا وانتہاء میں نمک چکھنے کے بارے میں جو اقوال کتب متداولہ میں مذکور ہیں وہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ، اس بارے میں جتنی بھی احادیث ہیں سب موضوع ہیں۔ لہذا ابتداء وانتهاء طعام الملح کو سنت قرار دینا تسامح ہے۔
في حاشية فردوس اخبار سید ادامکم الملح في اسنادہ عیسی بن ابی عیسی متروك کما في التقريب لابن حجررحمہ الله تعالى و قال الذہبی في ترجۃ عیسی ضعفه احمد وغيره وقال الفلاس والنسائي متروك (فردوس اخبار ج٢/٤٦٣ )
وقال العلامة السيوطي رحمہ الله تعالى : حديث یا علي علیک بالملح، فإنہ شفاء من سبعین داء، الجذام والبرص والجنون۔ لا يصح والمتهم بہ عبدالله بن احمد بن عامر اوابوہ فإنهما يرويان نسخة عن أهل البيت لها باطلة ( اللآلي المصنوعة ج٢/٢١١ )
وقال الملا على القاري رحمہ الله تعالى : ومنها وصايا على كلها موضوعۃ سوي الحديث الأول وهو ياعلي انت مني بمنزلة هارون من موسی غیرانہ لانبی بعدی قال الصنعاني ومنها وصايا على كلها التي أولها ياعلى لفلان ثلاث علامات (الأسرار المرفوعة ص ۳۸٨ )
وقال العلامة الشوكاني رحمه الله تعالى حدیث ياعلي عليك بالملح فانہ شفاء من سبعين داء ھو موضوع ( الفوائد المجموعة ص١٦١ )
وفي التعليقات على الكشف الالھي : عليكم بالملح فإنه شفاء من سبعين داء من الجنون والجنام والبرص قال العجلوني ولعلہ موضوع ونص ابن القيم على انه موضوع الكشف الالھي ج١ ص٣٩٢) أحسن الفتاوي ج٩/٩١)
حضرت مولانا اشرف صاحب علی تھانوی کے ایک جواب کا خلاصہ
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے ان کتب متداولہ کے اقوال کے بارے میں بہت اچھی رائے پیش کی ہے، ان کے ایک طویل جواب کا ماحصل یہ ہے، کہ نمک یانمکین سے کھانا شروع کرنا اور ختم کرنا فقہاء نے مسنون لکھا ہے لیکن کسی صحیح اور صریح حدیث میں اس کا ثبوت نہیں ملتا البتہ بعض نہایت کمزور اور موضوع قسم کی روایت میں اس کا ذکر موجود ہے اس لئے اس کو باضابطہ سنت یامستحب نہیں کہا جاسکتا ہاں البتہ اتنی بات ہے کہ اس زمانہ میں نمکین یا نمک سے شروع کر کے کھانا کھانے کے بعد پھر نمک چکھنے کی عادت رہی ہے تو اس کو سنن عادیہ کہا جاسکتا ہے توحضرات فقہاء نے سنن عادیہ کی قبیل سے لکھا ہے سنن ہدیٰ کی قبیل سے نہیں اور اس کا مدار عادت اور رغبت پر ہے شریعت پر نہیں۔ (مستفاد: امداد الفتاوی ۴؍۱۱۲)
اس پورے جواب کا خلاصہ یہ ہوا کہ میٹھی چیز سے کھانے کی ابتداء و انتہاء اور نمکین سے ابتداء و انتہاء کی روایات اتنی کمزور ہے کہ اس سے استحباب و سنیت ثابت نہیں ہوسکتی، اور حضرات فقہاء نے جو لکھا ہے وہ سنن عادیہ کی قبیل سے لکھا ہے سنن ہدیٰ کی قبیل سے نہیں اور اس کا مدار عادت اور رغبت پر ہے شریعت پر نہیں، اور یہ طبی اعتبار سے مفید ضرور ہے اس سے معدہ پر اچھا اثر پڑتا ہے صحت کے لئے زیادہ مفید ہے۔
فقط والسلام: واللہ اعلم بالصواب
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں