سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا ہوں میری تنخواہ کے علاوہ میری کمپنی مجھے ہیلتھ انشورنس دیتی ہے میری کمپنی کا پارٹنرشپ ایک انشورنس کمپنی سے ہے۔ تو یہ انشورنس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟
سائل: محمد ناصر انڈمان
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
ہیلتھ انشورنس کی تین صورتیں ہیں
(١) کمپنی ازخود اپنی طرف سے انشورنس کردیں
یعنی آپ خود کوئی رقم انشورنس کمپنی کو نہیں دیتے اور نہ ہی آپ کمپنی سے انشورنس کرانے کا کوئی معاملہ کرتے ہیں؛ بلکہ کمپنی از خود آپ کی طرف سے رقم جمع کرکے آپ کا انشورنس کرادیتی ہے تو آپ کے لیے کمپنی کی طرف سے ملنے والے ہیلتھ انشورنس کارڈ سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے۔
مستفاد شامی ( فلو شرى الخ ) تفريع على مفهوم قوله : « مشروط ) . قوله : ( وزاده دانقا ) أي ولو لم يكن مشروطا في الشراء كما هو في عبارة الذخيرة المنقول عنها ، فلو مشروطا وجب رده لو قائمة كما مرعن القنية (شامی ج٧/٤٠١)
(٢) کمپنی کی طرف سے لازمی اور ضروری ہو
اگرکمپنی یا حکومت کی طرف سے لازم اور ضروری ہے۔ اور ملازم چاہے یا نہ چاہے کمپنی یا حکومت اس کا انشورنس ضرور کرتی ہے، تو کمپنی یا حکومت نے جتنی رقم انشورنس کی مد میں جمع کی ہے اس کے بقدر انشورنس کمپنی سے علاج کرانا درست ہے۔ چونکہ یہاں مجبوری ہے، تو بر بناء ضرورت و اضطرار شرعا بقدر ضرورت اور بدرجہ مجبوری الضرورة تبيح المحظورات اور الضرر يزال اور المشقة تجلب التيسير کے تحت علماء نے انشورنس کرانے کی گنجائش دی ہے۔
المشقة تجلب التيسير ويتخرج على هذه القاعدة جميع رخص الشرع وتخفيفاته الأشباه ج ١٤٥ / ۱-)
الضرر يزال ............. وتتعلق بها قواعد الأولى الضرورات تبيح المحظورات . ومن ثم جاز أكل الميتة عند المخمصة وإساغة اللقمة بالخمروالتلفظ بكلمة الكفر للإكراه ۔ ( الأشباه ج۲۷۰/۱ )
(٣) خود انشورنس کروانا جو لازمی نہ ہو
یہ بات ذہن میں رہے کہ زمانے کی جدت کے ساتھ ساتھ ہر چیز کے اندر جدت اور تبدیلی آرہی ہے، اسی حقیقت کے پیشِ نظر سودی کاروبار اور جوئے کی شکلوں میں بھی خاصی تبدیلی آگئی ہے، لیکن ان شکلوں کے بنیادی عناصر کو دیکھا جائے تو ان کی اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
انشورنس کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے، دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے، نیز انشورنس کے اندرسود کے ساتھ "جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآن و حدیث کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، کسی زمانے کی کوئی مصلحت اس حرام کو حلال نہیں کرسکتی۔
انشورنس میں سود اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے، اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے، اسی طرح اس میں جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی پایا جاتا ہے، اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے فاسد قرار دیا ہے، لہذا کسی بھی قسم کا انشورنس کرنا اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔
( عن عبد الله قال : لعن رسول الله الله آكل الربا وموكله ، قال : قلت : وكاتبه وشاهديه ؟ قال : إنما نحدث بما سمعنا . ( مسلم : ص ۲۷ ) (وعن جابر قال رسول الله علیہ وسلم : آكل الربا ومؤكله • وكاتبه وشاهده وقال هم سواء ) - ( مسلم ص ۲۷ جلد ۲. ترمذی ص ۲۲۹ )
( یايها الذين آمنوا إنما الخمر والميسر والأنساب والأزلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه لعلكم تفلحون ) ( المائدة : ٩٠ )
المعاملة المالية میں قمار پر بحث کرتے ہوئے اسی اصول کی طرف اشارہ کیا ہے : عرفه بعض الحنفية بقولهم : تعليق تمليك المال على الخطر . و قال ابن عابدين : تعلق تمليك على سبيل المخاطرة . وعرفه الإمام مالك بقوله : ميسر القمار : ما يخاطر الناس عليه ۔ المعاملات المالية أصالة ومعصرة جلد ٤ ص ۳۰۹ دبيان بن محمد الدبیان
"من حمل علينا السلاح فليس منا ومن غشنا فليس منا" ( مسلم شریف ج ١/٧٠ )
ھذا ما عندی: واللہ اعلم بالثواب
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں