پیر، 8 مارچ، 2021

وہ عورتیں جس سے نکاح حرام ہے مفتی آصف گودھروی

 سوال اس

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں

 سمدھی اور سمدھن آپس میں نکاح کرسکتے ہیں۔ مثلاً خالد کا ایک بیٹا ہے شاہد…...اور شاکرہ کی ایک بیٹی ہے آسیہ ..….. شاہد کا نکاح آسیہ سے ہوگیا ..…… اب خالد جو شاہد کا باپ ہے اس کا نکاح شاکرہ جو آسیہ کی ماں ہے اس سے درست ہیں یا نہیں؟ اور نکاح کرنے کی صورت میں اس نکاح کی وجہ سے بیٹے اور اسکی بیوی کا رشتہ برقرار رہے گا یا نکاح ختم ہوجائے گا۔ اسی طرح محرمات کے اقسام کی وضاحت بھی فرمادیں۔

سائل: مولوی یوسف عمرجی گودھروی

 

الجواب وباللہ التوفیق

حامدا ومصلیا ومسلما

سمدھی اور سمدھن آپس میں نکاح کرسکتے ہیں۔ یعنی بیٹے کی ساس سے باپ کیلئے شادی کرنا جائز ہے۔ لہذا خالد شاکرہ سے شادی کرسکتا ہے۔ اور اس نکاح کی وجہ سے بیٹے اور اسکی بیوی کا رشتہ برقرار رہے گا۔

قوله: وأما بنت زوجة أبيه أو ابنه فحلال) وكذا بنت ابنها، بحر.

قال الخير الرملي: ولاتحرم بنت زوج الأم ولا أمه، ولا أم زوجة الأب، ولا بنتها، ولا أم زوجة الابن ولا بنتها، ولا زوجة الربيب ولا زوجة الراب

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (٤/١٠٥)

محرمات

شریعت مطہرہ نے جن عورتوں سے نکاح کی حرمت کو بیان کیا ہے۔ وہ چار قسم کی ہے۔

(١) حرمت مؤبدہ۔         (٢)حرمت رضاعت

(٣)حرمت مصاہرت۔     (٤) حرمت وقتیہ

(١) حرمت مؤبدہ

(۱) مائیں۔( اس میں سب اصول آگئیں یعنی ماں یا باپ کی موطوءہ اسی طرح دادی پردادی اور نانی پرنانی وغیرہ اوپر تک)

 (۲) بیٹیاں (ان میں سب فروع داخل ہیں، یعنی بیٹیاں چاہے بیٹیاں حقیقی ہو یا ربیبہ ہو (اپنی بیوی کے پہلے شوہر کی بیٹی کو ربیبہ کہتے ہیں) اور اپنی اولاد کی اولاد نیچے تک)

(۳) بہنیں (خواہ سگی ہوں یا باپ شریک یا ماں شریک)

(۴) پھوپیاں (اس میں باپ اور باپ سے اوپر دادا وغیرہ کی تینوں قسموں کی بہنیں داخل ہیں)

(۵) خالائیں (اس میں ماں اور ماں سے اوپر نانی وغیرہ کی تینوں قسموں کی بہنیں آگئیں)

(۶) بھتیجیاں (تینوں قسموں یعنی سگے، علاتی یا اخیافی بھائیوں کی اولاد در اولاد سب شامل ہیں)

(۷) بھانجیاں (اس میں بھی تینوں قسموں یعنی سگے، علاتی یا اخیافی بہنوں کی اولاد سب شامل ہیں)۔

(۲) حرمت رضاعت

(١) وہ عورتیں جنہوں نے دودھ پلایا ہے

یعنی جن عورتوں نے بچپن میں جو دودھ پینے کا زمانہ ہوتا ہے دودھ پلایا ہے یہ عورتیں اگرچہ حقیقی مائیں نہیں ہیں مگر حرمتِ نکاح میں والدہ ہی کے حکم میں ہیں لہٰذا ماں کی طرح اپنی اَنّا سے بھی نکاح کرنا حرام ہے۔

(٢) دودھ شریک بہنیں

دودھ شریک بہنوں سے بھی نکاح حرام ہے (یعنی جن کی حقیقی یا رضاعی ماں کا تم نے دودھ پیا ہے وہ تمہاری رضاعی بہنیں ہوجائیں گی ان سے بھی سگی بہن کی طرح نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہوگا) قرآن پاک میں تو صرف رضاعی ماں، بہن ہی کا ذکر ہے، لیکن جس طرح نسبی رشتہ کی سات عورتوں سے (ماں بیٹی بہن پھوپھی خالہ بھتیجی اور بھانجی) نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہے اسی طرح رضاعی رشتہ کی بھی سات قسم کی عورتوں سے نکاح ممنوع ہوگا۔ نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (یحرم من الرضاعة ما یحرم من النسب) یعنی دودھ پینے کے رشتہ سے وہ سب عورتیں حرام ہوجاتی ہیں جو نسبی رشتہ کی بناء پر حرام ہیں۔

(۳) حرمت مصاہرت

یعنی سسرالی رشتہ کی بناء پر نکاح کی حرمت، قرآن نے اس سلسلہ کی چار عورتوں کا ذکر کیا ہے:

(۱)۔ سوتیلی ماں

باپ کی دوسری بیوی جو اس کی حقیقی ماں کے علاوہ ہے

(۲)۔ بہو-(بیٹے کی بیوی)

بیٹے کی بیوی یعنی بہو، بیٹے کے ساتھ ”مِنْ اَصَلاَبِکُمْ“ کی قید سے لے پالک (جس کو گود لیا ہے)کی بیویاں اس حکم سے نکل گئیں لہٰذا ان سے نکاح جائز ہوگا۔

(۳)۔ ساس

بیوی کی ماں یعنی (اس حکم میں بیوی کے سب موٴنث اصول یعنی بیوی کی دادی وغیرہ شامل ہیں)

(۴)۔ ربیبہ

 اس بیوی کی بیٹی جو دوسرے شوہر سے ہے۔ ہمبستری کرنے کے بعدحرام ہوجائیے گی ہے، یعنی کسی عورت سے صرف نکاح کرلینے سے اسکی لڑکی سے نکاح حرام نہیں ہوگا بلکہ اس سے صحبت بھی ہوجائے تب اسکی لڑکی حرام ہوگی۔

نسب، رضاعت (دودھ پینا) اور مصاہرت (سسرالی رشتہ) کی بنیاد پر ثابت حرمت دائمی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی، ان تینوں قسم کی حرمت میں تمام فقہاء محدثین اور اہل سنت والجماعت کااتفاق ہے۔

(٤) حرمت وقتیہ

وہ محرمات جو وقتی طور پر حرام ہے. (یعنی وہ عورتیں جن سے وقتی طور پر نکاح کرنا حرام ہو)

(١) دو بہنوں کونکاح میں جمع کرنا

 (یعنی بیک وقت دو بہنوں کو نکاح میں رکھنا) اور ان عورتوں کو جمع کرنا جو ان کے حکم میں ہیں یعنی جن دو عورتوں کے درمیان حرمت والی قرابت ہو یعنی اس عورت کے ساتھ اس کی ماں بیٹی بہن پھوپھی خالہ بھتیجی اور بھانجی ان میں سے کسی کو اس کے ساتھ جمع نہیں کرسکتے۔

(٢)پانچویں عورت سے نکاح کرنا

 چار عورتیں ایک ساتھ نکاح میں ہوتو اب کسی اور عورت سے نکاح نہیں کرسکتے

مذکورہ عورتوں کے علاوہ ما بقیہ عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔ (مستفاد:- شامی ج٤ ص٩٩سے١٢٤تک) واللہ اعلم بالصواب


العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: