منگل، 30 مارچ، 2021

فرضوں کی تیسری ،چوتھی رکعت میں فاتحہ پڑھنے کا حکم مفتی آصف گودھروی

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وعلمائے عظام  اس مسئلہ کے بارے میں کہ حدیث(لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب) کہ نماز بغیر فاتحہ کے نہیں ہوتی احناف نے اس حدیث میں کاملۃ کو محذوف مان کر نماز میں فاتحہ کو واجب قرار دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اس حدیث سے فاتحہ کو واجب قرار دیدیا گیا تو فرض کی پہلی ہی دورکعت میں وجوب کی تخصیص کیوں بعد والی رکعتوں میں بھی وجوب کا حکم ہونا چاہئے۔ لہذا چار اور تین رکعت والے فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے یا نہیں اس کی وضاحت مطلوب ہے؟ یا پھر خاموش بھی رہ سکتے ہیں؟ مدلل و مفصل جواب مطلوب ہے

سائل: صادق حاجی میٹھی بوروالا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


فرائض کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانا واجب ہے، اور آخر کی دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا سنت ہے، لہذا فرض نمازکی تیسری اورچوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا افضل اور سنت کی قبیل سے ہو گا نہ کہ فرض یا واجب۔

اسی طرح ان رکعتوں میں تسبیح پڑھنے اور تین تسبیح بقدر خاموش رہ کر رکوع کرلیں تب بھی کوئی حرج نہیں ہے، اورتین بارسبحان اللہ کہنا یا اتنی مقدار خاموش کھڑا رہنا بھی جائزہے، لیکن تسبیح پڑھنا خاموش رہنے سے بہترہے۔ جیسا کہ فتاوی تاتار خانیہ میں ہے۔

محل القراء ۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفي الفرائض محل القراءۃ الرکعتان، حتی یفترض القراءۃ فی الرکعتین، إن کانت الصلاۃ من ذوات المثنی یقرأ فیہما جمیعاً، وإن کانت من ذوات الأربع یقرأ في الرکعتین الأولیین، وفي الآخرین بالخیار إن شاء قرأ، وإن شاء سبح وإن شاء سکت۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ، الصلاۃ / باب القراء ۃ ۲؍۵۶-۵۷ )

ترجمہ: فرائض میں قرأءت کا محل دورکعت ہے اگر نماز دورکعت والی ہے تو سب میں اور چار رکعت پڑھنے والے کے لیے پہلی دو رکعت میں قرأءت کریں اور دوسری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے اور تین مرتبہ تسبیح کہنے اوراس مقدار چپ رہنے میں اختیار ہے۔

اسی طرح درمختار میں ہے:

”واکتفی المفترض فیما بعد الأولیین بالفاتحة فانھاسنۃ علی الظاھر ولو زاد لابأس بہ (وھو مخیر بین قراء ة) الفاتحة (وتسبیح ثلاثا) وسکوت قدرھا“ (درمختار،کتاب الصلاۃ، ج٢، ص٢٧٠،مطبوعہ کوئٹہ)

سوال میں پیش کردہ حدیث

آپ نے جو روایت پیش کی ہے وہ بالکل صحیح اور درست ہے لیکن آپ کے استدلال میں صریح نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس حدیث میں فاتحہ کا حکم ضرور ہے لیکن کس رکعت میں فاتحہ پڑھی جائے اور کس میں نہ پڑھی جائے اس کی کوئی صراحت و وضاحت نہیں ہے اور جس حدیث میں کسی حکم کی صراحت نہ ہوتو اس کی وضاحت کے لئے دوسری احادیث کو دیکھا جائے گا، جب ہم دوسری احادیث و آثار کو دیکھتے ہیں تو اس سلسلہ میں ہمیں دوقسم کی روایت نظر آتی ہے۔

(١) وہ احادیث جو تیسری اور چوتھی رکعت میں قرأءت فاتحہ کی طرف مشیر ہے 

اس صورت میں فرض کی تیسری اورچوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں صحیح بخاری میں ہے:

”ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقرأ فی الظھر فی الأولیین بأم الکتاب، وسورتین، وفی الرکعتین الأخریین بأم الکتاب“(صحیح بخاری ،کتاب الاذان ،باب یقرأ فی الاخریین،ج١،ص١٠٧، مطبوعہ کراچی )

بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دورکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دوسورتیں تلاوت فرماتے تھے اور آخری دورکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ تلاوت فرماتے تھے ۔

وحديث أبي قتادۃ أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقرأ في الرکعتین الأولیین بفاتحۃ الکتاب وسورۃ، وفي الاخرین بفاتحۃ الکتاب۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ۲۶۱/۳رقم: ۳۷۴۱) ۔


(٢) وہ احادیث جو تیسری اور چوتھی رکعت میں عدم قرأءت فاتحہ کی طرف مشیر ہے

 اوردوسری صورت میں فرض کی آخری دورکعتوں میں کچھ بھی نہ پڑھنے کے بارے میں  مؤطاامام مالک میں ہے:

”أن عبد اللہ بن مسعود کان لا یقرأ خلف الامام فیما جھر فیہ، وفیما یخافت فیہ فی الأولیین، ولا فی الأخریین، واذا صلی وحدہ قرأ فی الأولیین بفاتحة الکتاب وسورة، ولم یقرأ فی الأخریین شیئا“(مؤطا امام مالک ،باب افتتاح الصلاة،ص٦٢، مطبوعہ  المکتبة العلمیہ)

ترجمہ: بے شک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے جہری اور سری دونوں نمازوں میں پہلی دو رکعتوں اورآخری دورکعتوں میں قراء ت نہیں کرتے تھے اور جب تنہا نماز پڑھتے تو پہلی دورکعتوں میں سورہ فاتحہ اورساتھ میں سورت کی قراء ت کرتے تھے اورآخری دورکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے تھے ۔

اسی طرح مصنف عبد الزراق میں ہے:

”عن عبید اللہ بن أبی رافع قال کان یعنی علیا یقرأ فی الأولیین من الظھر والعصر بأم القرآن وسورة، ولا یقرأ فی الأخریین“ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الصلاہ، باب کیف القراء ة فی الصلاة، ج٢، ص١٠٠،مطبوعہ المکتب الاسلامی، بیروت)

ترجمہ: عبید اللہ بن ابی رافع رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ظہراور عصر کی پہلی دورکعت میں سورہ فاتحہ اور ساتھ میں سورت کی قراء ت کرتے تھے اور آخری رکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے تھے ۔

اسی طرح مصنف عبد الرزاق میں حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

”ما قرأ علقمة فی الرکعتین الأخریین حرفاقط“ (مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاہ،باب کیف القراء ة فی الصلاة،ج٢،ص١٠٠،مطبوعہ المکتب الاسلامی، بیروت)

ترجمہ: حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ( فرض کی )آخری دو رکعتوں میں ایک حرف بھی نہ پڑھتے تھے۔

اورفرض کی تیسری اورچوتھی رکعت میں تسبیح پڑھنے کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:

”یقرأ فی الأولیین، ویسبح فی الأخریین“ (مصنف ابن ابی شیبة،کتاب الصلاہ،من کان یقول یسبح فی الاخریین،ج١،ص٣٢٧، مطبوعہ ریاض)

ترجمہ : کہ (نمازی )پہلی دورکعتوں میں قراء ت کرے اورآخری دورکعتوں میں تسبیح کرے ۔   

اسی طرح دگر کتب میں منقول ہے

وعلي وابن مسعود کان یقولان: المصلي بالخیار في الأخریین إن شاء قرأ وإن شاء سکت وإن شاء سبّح، وسأل رجل عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہ عن قراءۃ الفاتحۃ في الأخریین فقالت: ’’لکن علی وجہ الثناء‘‘ ولم یرو عن غیرہم خلاف ذٰلک فیکون ذٰلک إجماعاً ولأن القراءۃ في الأخریین ذکر یخافت بہا علی کل حالٍ فلا تکون فرضا کثناء الافتتاح۔ (بدائع الصنائع / الکلام في القراءۃ۲۹۵ /۱زکریا،۵۲۴ /۱تا۵۲۵کتاب الصلٰوۃ، دار الکتب العلمیہ،بذل المجہود ۷۵ /۳تا۷۶، کتاب الصلٰوۃ، دار الکتاب العلمیہ،۷۲/۳تا۷۳ کتاب الصلاۃ/باب صلوٰۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود،دار الفکر بیروت)۔


ان روایات وآثار میں تطبع و تدبر سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فرض کی پہلی دورکعتوں میں فاتحہ واجب ہے البتہ بعد والی دورکعتوں میں واجب نہیں ہے سنت ہے۔ قرأءت فاتحہ کے سلسلہ میں مزید تفصیل و ضاحت مطلوب ہو تو نیچے دیگئی لنک پر کلک کریں۔

http://library.ahnafmedia.com/18-masail-aur-dalail/631-imam-k-pichay-qirat-fatiha-na-karna

 العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا



کوئی تبصرے نہیں: