بدھ، 10 مارچ، 2021

رشوت لینے اور دینے کا شرعی حکم مفتی آصف گودھروی

 سوال

    (١)رشوت کسے کہتے ہیں، (٢) رشوت دینے کے متعلق شرعی حکم کیا ہے، (٣) آج کے زمانے میں کام نکلوانے کے لئے رشوت دینی پڑتی ہے اس کے بغیر کام کاہونا دشوار اور بعض مرتبہ ناممکن ہوجاتا ہے،اور بعض مرتبہ عدم رشوت کی صورت میں کافی پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے پھربھی کام صحیح نہیں ہو پاتا تو ایسی مشکل گھڑی میں شریعت کا لائحۂ عمل کیا ہوگا؟ کیا ایسی صورت میں رشوت دینا جائز ہوگا اور رشوت دینے والا گنہگار ہوگا؟ اور لینے والے کے لئے گنجائش ہوگی؟ (٤) اور اگر لینے والا بعد میں شرمندہ ہو تو وہ رشوت میں لئے ہوئے پیسوں کا کیاں کریں، مدلل ومفصل جواب مطلوب ہے۔

سائل : احمد ابن عبدالجبار ماہی

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی

جواب کا خلاصہ

(١) رشوت یہ ہے کہ اپنی مصلحت کے پورا کرنے کے لئے کسی ایسے ذمہ دار شخص کی خدمت میں مال پیش کرنا جس پر اس مال کے بغیر وہ کام پوراکرنا ضروری اور واجب تھا

(٢) رشوت ان کبیرہ گناہوں میں سے ہے،جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر سختی سے روک لگائی ہے،اور رسول اللہ ﷺ نے لعنت اور پھٹکار لگائی ہے اس سے لینے سے خود کو محفوظ رکھیں اور دوسروں کو بھی اس سے روکیں،اس لئے کہ یہ تو گناہ عظیم ہے اور بھیانک نتائج کا سبب ہے، یہ گناہوں کا سبب بھی بنتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، اور قرآن میں ارشاد فرمایا: (تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان)

(٣) قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے باوجود بھی رشوت کے بغیر جائز اور ضروری کام ہوتا ہی نہ ہو یا انتہائی دشواریاں درپیش ہو یاکام تو ہوجائے لیکن اتنا وقت گذرجائے کہ اس کام سے کوئی فائدہ نہ ہو، اوررشوت لینے والے پر آپ کا حق ہوکہ وہ اس کام کو کرے اور وہ کام شرعاً جائز بھی ہواوراس کام کو کروانے میں کسی پر زیادتی بھی نہ ہو تو اپنا جائز حق حاصل کرنے اور ظلم ونا انصافی سے بچنے کے لئے رشوت دینے کی گنجائش ہے،

اور یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ یہاں پر مجبوری ہے، تو بر بنائے ضرورت و إضطرارشرعاً بقدر ضرورت اوربدرجہ مجبوری الضرورات تبیح المحضورات اور الضرر یزال اور المشقت تجلب التیسیر کے تحت رشوت دینے کی گنجائش دی ہے۔

لیکن اس بات کوبھی دھیان میں رکھیں کہ جہاں شریعت الضرورات تبیح المحضورات کا قاعدہ بیان کیا ہے، وہی پر ما اُبیح للضرورۃ یقدر بقدرھا الأشباہ ج۱/۲۷۸ کا قاعدہ بھی بیان کرتے ہیں،لہذا جتنی مقدار ضرورتاً مباح ہوتی ہے اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے ۔

(٤) جس سے رشوت لی ہے وہ زندہ ہو تو اس کو وہ رقم واپس کریں، ورنہ جورقم رشوت میں اب تک ملی ہے اس کو بلا نیتِ ثواب غرباء میں جو مستحقِ زکوٰۃ ہو ان میں تقسیم کردی جائے ،اس کو خود استعمال نہیں کرسکتا۔

تفصیلی جواب

جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے سختی کے ساتھ حرام قرار دیا ہے،ان میں سے ایک رشوت بھی ہے، رشوت یہ ہے کہ اپنی مصلحت کے پورا کرنے کے لئے کسی ایسے ذمہ دار شخص کی خدمت میں مال پیش کرنا جس پر اس مال کے بغیر وہ کام پوراکرنا ضروری اور واجب تھا ،عام طور پر انسان جب اپنا کام نکال نے میں مایوس ہوجاتا ہے اور کوئی صحیح طریقہ سے امید کی ساری راہیں مسدود ہوجاتی ہے تو پھر وہ غلط طریقہ سے اپنے کام کو انجام دینے کی کوشش کرنے لگتا ہے اسی طرح جب کسی بھی عمل کے انجام دینے میں کسی طرح بھی قانونی رکاوٹ درپیش ہوتی ہے تو رشوت کے ذریعہ اس کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔

رشوت کی تعریف

رشوت رشا سے مأخوذ ہے جس کے معنی یہ ہے: ایسی رسی کو کہتے ہیں جس کے ذریعے پانی تک پہنچ سکے،چونکہ رشوت کے ذریعہ بھی اسی طرح ایک مقصد تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے،اس لئے اس کو رشوت کہتے ہیں ،یہ لفظ رِشوت اور رُشوت دونوں طرح صحیح ہے، رشوت دینے والے کو راشی، لے نے والے کو مرتشی اور واسطہ بننے والے کو رائش کہتے ہیں۔ (النہایہ لإبن الأثیرجلد۲ص۲۶۲)

معجم الوسیط میں اس کی تعریف اس طرح سے کی ہے :رشوت اس مال کو کہتے ہیں جو کسی مصلحت کو حاصل کرنے کے لئے یا باطل کو ثابت کرنے کے لئے یا حق کو باطل کرنے کے لئے دیا جائے۔

(الرشوۃ،بکسرالراء أو فتحھا:ما یعطی لإحقاق باطل أو إبطال حق۔ جمع رُِشاً،بکسرھاأو فتحھا)۔ (معجم الوسیط)

معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ میں رشوت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:رشوت وہ مال ہے جو بلا کسی حق کے کسی مصلحت کے فیصلے کے لئے یا کسے حق کو باطل یا کسی باطل کو ثابت کرنے کے لئے دیاجائے۔

(رُِشوۃمفرد،جمع رشوات ورَشواتورشاوی:مایعطی بدون حق لقضاء مصلحۃ أو إحقاق باطل أو إبطال حق،إذا تفشت الرشوۃ فی مجمع ضاعت الحقوق۔۔ (معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ)

علامہ شامی نے رشوت کی بہت جامع تعریف کی ہے :۔رشوت وہ ہے جسے ایک شخص کسی حاکم وغیرہ کو اس لئے دیتا ہے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا اسے وہ ذمہ داری دے دے جسے یہ چاہتاہے۔

قولہ(أخذ القضاء برشوۃ) بتثلیث الراء،قاموس ،وفی المصباح:الرشوۃ بالکسر: ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ أو یحملہ علی مایرید،جمعھا رشا مثل سدرۃ وسدر ،والضم لغۃ، وجمعھا: رشا بالضم، وفیہ البرطیل بکسر الباء:الرشوۃ،وفتح الباء عامی۔ (شامی جلد۸صـ۳۴)

علامہ شامی نے اس تعریف سے یہ واضح کیا ہے کہ رشوت عام ہے۔ چاہے وہ مال ہویا کسی ا ور طرح کی کوئی منفعت، اور حاکم سے مراد قاضی یا جج ہے، اور وغیرہ سے مراد ہر وہ شخص جس کو رشوت دینے سے اس کی مراد پوری ہوسکتی ہو، چاہے پھر وہ سرکاری ملازمین ہو یا کسی کمپنی یاتاجرکا نمائندہ اور لیحکم لہ سے مراد یہ ہے کہ رشوت لینے والا ،رشوت دینے والے کی مرضی کے مطابق فیصلہ کردے ،تاکہ رشوت دینے والے کا مقصد حاصل ہو،اور پھر وہ حق ہو یا باطل پوراہوجائے۔

 علامہ جرجانی نے اس کی تعریف اس طرح سے کی ہے ۔رشوت اس مال کو کہتے ہیں،جو کسی کے حق کو باطل کرنے کے لئے یا کسی باطل کو ثابت اور حاصل کرنے کے لئے دیا جائے۔(ما یعطی لإبطال حق أو لإحقاق باطل۔ (التعریفات للجرجانی صـ ۱۴۸)

معارف القرآن میں اس کی تعریف اس طرح سے کی ہے:۔رشوت کی شرعی تعریف یہ ہے کہ جس کا معاوضہ لینا شرعاً درست نہ ہو اس کا معاوضہ لیا جائے۔ (معارف القرآن)

رشوت کا حکم قرآن سے

قرآن میں رشوت کا معاملہ کرنے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتیں ہے کہ ’’أکٰلون للسحت سورۂ مائدہ آیـ۴۲‘‘ صاحب مظہری اس آیت کی تفسیر فرماتے ہوئے اپنی مایہ ناز تفسیر ،تفسیر مظہری میں رقم طراز ہے ۔حضرت حسن ،قتادہ ،اور ضحاک نے کہا سحت وہ رشوت ہے جو مقدمہ کے فیصلہ کے سلسلہ میں لی جائے۔ حسن نے کہا باطل کو حق بنا نے اور حق کو باطل قرار دینے کے لئے حاکم کو جو رشوت دی جائے وہ سحت ہے ۔ (تفسیرِ مظہری)

اس حکم کی وعید کا تعلق پیچھے کی آیت ’’لھم فی الدنیا خزی، ولھم فی الآخرۃ عذاب عظیم ‘‘ سے ہے یعنی ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں ذلت ہے۔

معارف القرآن میں اس آیت کی تفسیر اس طرح سے کی ہے:۔ سحت کے لفظی معنی کسی چیز کو جڑ بنیاد سے کھود کر برباد کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید میں اس جگہ لفظ سحت سے مراد رشوت ہے حضرت علی، ابراہیم نخعیؒ، حسن بصریؒ، مجاہدؒ، قتادہؒ، ضحاکؒ، وغیرہ مفسرین نے اس کی تفسیر رشوت سے کی ہے۔

رشوت کو سحت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف لینے دینے والوں کو برباد کرتی ہے بلکہ پوری ملک وملت کی جڑ بنیاد اور امن عامہ کو تباہ کرنے والی ہے جس ملک یا جس محکمہ میں رشوت چل جائے وہاں قانون معطل ہوکر رہ جاتا ہے،اور قانون ملک کی وہ چیز ہے جس سے ملک وملت کا امن برقرار رکھا جاتا ہے، وہ معطل ہوجاتاہے تو کسی کی نہ جان محفوظ رہتی ہے نہ اس کی آبرو اور نہ مال، اس لئے اس کو شریعت نے سحت فرماکر اشد حرام قرار دیا ہے۔ (معارف القرآن)

نیز قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ إرشاد باری ہے۔

ولا تأکلواأموالکم بینکم بالباطل وتدلوا بھاإلی الحکام لتأکلوا فریقا من من اموال الناس بالإثم وأنتم تعلمون سورۂ بقرہ آیـ ۱۸۸‘‘اس آیت میں بھی اللہ نے أموال باطلہ سے روکا ہے ساتھ میں یہ إشارہ بھی کیا ہے کہ رشوت کا مال نہ کھاؤ۔ ایک اورآیت میں اسی جملہ کو دوہرا کر إستثنائی صورت کو بیان کیا ہے کہ حلال طریقہ سے کھاؤ باطل طریقہ سے نہ کھاؤ۔ (یا أیھا الذین اٰمنوا لا تأکلواأموالکم بینکم بالباطل  إلا أن تکون تجارۃً عن تراض منکم۔ (النساء آیـ ۲۹)

رشوت کا حکم حدیث سے

احادیث رسول میں مختلف انداز میں الگ الگ الفاظ میں اس کی قباحت کو بیان کیا ہے مسندأحمد میں ہے عن عبد اللہ بن عمرؓ لعن رسول اللہ ﷺالراشی والمرتشی ۔نیز ترمذی شریف میں فی الحکم کا إضافہ ہے اور طبرانی میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے فی النار کا إضافہ ہے اور الترغیب والترھیب میں والرائش کا إضافہ ہے اور تہذیب الکمال میں’’والرائش یعنی الذی بینھما‘‘کا إضافہ ہے اور مجمع الزوائد میں بھی ’’والرائش یعنی الذی بینھما‘‘ کا إضافہ ہے،ان سب احادیث سے یہ بات واضح طور پر سامنے آگئی کہ رشوت کتنا گھناؤنا فعل ہے 

نیز اللہ کے رسول کی حدیث ہے کہ جس کا گوشت مال سحت سے پنپتا ہے اس کے لئے جہنم کی آگ اولی ہے:۔عن ابن عباسؓ وزاد وقال من نبت لحمہ من السحت فا النار أولیٰ بہ۔ مشکوۃالمصابیح صـ۲۴۔ إرشاد الساری میں اس کے آگے ہے کسی نے دریافت کیا  یا رسول اللہ ﷺ وما السحت: تو آپ نے فرمایا کہ الرشوة في الحکم۔ 

 أحادیث مذکورہ سے اتنی بات واضح ہوگئی کہ رشوت باطل طریقے سے مال کھانے کی صورتوں میں انتہائی بدترین اور قبیح صورت ہے کیونکہ اس میں مال دے کر اسے حق سے منحرف کرنے کی کوشش کرنا ہے ،اور جس طرح رشوت لیناحرام ہے اسی طرح رشوت دینا بھی حرام ہے ،اس سلسلہ میں فقہاء کے یہاں ایک متفقہ اصول ہے کہ جس چیز کا لینا حرام اس کا دینا بھی حرام ہے ماحرم أخذہ، حرم إعطاءہ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔آمیں یارب العالمین۔

رشوت ان کبیرہ گناہوں میں سے ہے،جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر سختی سے روک لگائی ہے،اور رسول اللہ ﷺ نے لعنت اور پھٹکار لگائی ہے اس سے پہلے خود کو محفوظ رکھیں اور دوسروں کو بھی اس سے روکیں،اس لئے کہ یہ تو گناہ عظیم ہے اور بھیانک نتائج کا سبب ہے،یہ گناہوں کا سبب بھی بنتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، اور قرآن میں ارشاد فرمایا: (تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان)

مجبوری میں رشوت دینے کا حکم

مذکورہ وضاحت سے یہ بات واضح طور پر سامنے آگئی کہ رشوت لینا دینا دونوں حرام ہے اور دونوں پر اللہ کے رسولﷺ نے لعنت فرمائی ہے جس کی بنا پر ہر ممکن کوشش تو یہی ہو کہ رشوت کے بغیر قانونی طریقۂ کار کے مطابق اپناکام کرانے کی کوشش کرنی چاہئے، 

البتہ اگر قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے باوجود بھی رشوت کے بغیر جائز اور ضروری کام ہوتا ہی نہ ہو یا انتہائی دشواریاں درپیش ہو یاکام تو ہوجائے لیکن اتنا وقت گذرجائے کہ اس کام سے کوئی فائدہ نہ ہو ،اوررشوت لینے والے پر آپ کا حق ہوکہ وہ اس کام کو کرے اور وہ کام شرعاً جائز بھی ہواوراس کام کو کروانے میں کسی پر زیادتی بھی نہ ہو تو اپنا جائز حق حاصل کرنے اور ظلم ونا انصافی سے بچنے کے لئے رشوت دینے کی گنجائش ہے،

علامہ رازی نے’’السحت‘‘کی تفسیر میں مذکورہ صورت کو اپنی اس عبارت سے جائز قرار دیا ہے:

(ووجہ آخر من الرشوۃ،وھو الذی یرشو السلطان لدفع ظلمہ عنہ،فھذہ الرشوۃ محرمۃ علیٰ آخذھا غیر محظورۃ علیٰ معطیھا،وروی عن جابر بن زید والشعبی قالا:لا بأس بأن یصانع الرجل عن نفسہ ومالہ إذاخاف الظلم ،وعن عطاء وإبراھیم مثلہ) (تفسیر أحکام القرآن للجصاص)

بیہقی میں ضرورت کے وقت رشوت کے جواز کے سلسلہ میں اس طرح سے منقول ہے کہ رشوت اپنے مال جان کی حفاظت میں ہو تو وہ رشوت نہیں ہے بلکہ رشوت اس وقت ہے جب کہ وہ اس چیز کے لئے دیوے جو اس کا حق نہیں ہے۔

(عن وھب بن منبہ قال:لیست الرشوۃ التی یأثم فیھاصاحبھا بأن یرشو فیدفعن مالہ ودمہ،إنما الرشوۃ التی تأثم فیھا أن ترشو لتعطی مالیس لک) (السنن الکبریٰ للبیھقی بیروت،ج۱۵/۱۴۵،رقم الحدیث،۲۱۰۶۹)

علامہ شامی بھی تحریر فرماتے ہیں کہ، ایسی صورت میں جب کہ دین یا جان و مال کا خطرہ ہو تو دفع ظلم کے خاطر رشوت دینا یہ رشوت ہی نہیں ہے۔ ولابأس بالرشوۃ إذا خاف علیٰ دینہ…دفع المال لسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسہ ومالہ ولاستخراج حق لہ لیس برشوۃ یعنی فی حق الدافع) (شامی،ذکریا،ج۹/۶۰۷)

ایک اور جگہ پرعلامہ شامی ضرورت کے وقت رشوت میں مال دینے کی اباحت پر اس عبارت سے جواز کو نقل فرماتے ہوئے رقم طراز ہے۔ (وفی الفتح:ثم الرشوۃ أربعۃ اقسام…والرابع:مایدفع لدفع الخوف من المدفوع إلیہ علی نفسہ أومالہ حلال للدافع حرام علی الآخذ،لأن دفع الضرر عن المسلم واجب) (شامی ج۸/ص۳۵)

البحر الرائق میں مال و جان کے خوف سے رشوت کے دینے کی إجازت دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔(ومنھا إذا دفع الرشوۃ خوفاً علیٰ نفسہ أو مالہ فھو حرام علیٰ الآخذ غیر حرام علیٰ الدافع)(البحر الرائق ،۶/۴۴)

فتاویٰ ھندیہ میں بھی اپنے اور اپنے اہل وعیال کے اوپر سے ظلم کو ختم کرنے کئے رشوت دینے کی صورت میں گناہ نہ ہونے کی وضاحت کی ہے۔ (إذا دفع الرشوۃ لدفع الجور عن نفسہ أو أحد من أہل بیتہ لم یأثم۔ (فتاویٰ ہندیہ  ج۴/۴۰۳)

اور یادرہے چونکہ یہاں پر مجبوری ہے، تو بر بنائے ضرورت وإضطرارشرعاً بقدر ضرورت اوربدرجہ مجبوری الضرورات تبیح المحضورات اور الضرر یزال اور المشقت تجلب التیسیررشوت دینے کی گنجائش دی ہے۔

المشقۃ تجلب التیسیر ویتخرج علی ھذہ القاعدۃ جمیع رخص الشرع وتخفیفاتہ  الأشباہ ج۱/۱۴۵۔الضرر یزال …وتتعلق بھا قواعد،الاولیٰ الضرورات تبیح المحظورات۔ومن ثم جاز اکل المیتۃ عند المخمصۃ وإساغۃ اللقمۃبالخمروالتلفظ بکلمۃ الکفر للإکراہ۔ (الأشباہ ج۱/۲۷۵)

لیکن اس بات کوبھی دھیان میں رکھیں کہ جہاں شریعت الضرورات تبیح المحضورات کا قاعدہ بیان کیا ہے، وہی پر ما اُبیح للضرورۃ یقدر بقدرھا الأشباہ ج۱/۲۷۸ کا قاعدہ بھی بیان کرتے ہیں،لہذا جتنی مقدار ضرورتاً مباح ہوتی ہے اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے ۔

مال رشوت کا مصرف

اگر دل میں احساس ہو جائے توتوبہ کریں اور مستقل میں کبھی رشوت نہ لینے کا پختہ عزم کریں،اور جس سے رشوت لی ہے وہ زندہ ہو تو اس کو وہ رقم واپس کریں، ورنہ جورقم رشوت میں اب تک ملی ہے اس کو بلا نیتِ ثواب غرباء میں جو مستحقِ زکوٰۃ ہو ان میں تقسیم کردی جائے ،اس کو خود استعمال نہیں کرسکتا۔

البحرالرائق میں ہے’’فظاہرأن التوبۃ من الرشوۃ برد المال إلیٰ صاحبہ وإن قضیٰ حاجتہ‘‘تبیین الحقائق میں بھی اس کو صدقہ کا حکم دیا گیا ہے،(لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ) (تبیین الحقائق ج۶/ص٢) (البحر الرائق،ج۶/۴۴۱)   

اور بذل المجھود میں بھی اس طرح کے مال کو خود صاحب مال یا اس کی عدم موجودگی میں فقراء کو دینے کا حکم وارد ہے،

(وأما إذاکان عند رجل مال خبیث، فأما إن ملکہ بعقد فاسد،أو حصل لہ بغیر عقد،ولا یمکنہ أن یردہ إلی مالکہ،ویرید أن یدفع مظلمتہ عن نفسہ فلیس لہ حیلۃ إلا أن یدفعہ إلی الفقراء…ولکن لایرید بذلک الأجر والثواب،ولٰکن یرید دفع المعصیۃ عن نفسہ)(بذل المجہود ج۱/ص۱۵۹)

فقط والسلام : ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب 

العارض: آصف بن محمد گودھروی 

خادم: جامعہ تحفیظ القران اسلام پورا 


کوئی تبصرے نہیں: