منگل، 27 اپریل، 2021

روزے کی نیت کب تک کرسکتے ہیں مفتی آصف گودھروی

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بعد سلام بصد احترام عرض ہے کہ ایک شخص نے رات کو نیت کی صبح سفر میں جانا ھے صبح روزہ نہیں رکھونگا اب وہ سفر نہیں گیا اور دوپہر 3:00 بجے اٹھا اور اس نے روزہ کی نیت کرلی تو اب روزہ کا کیا حکم ہے، اسی طرح رمضان اور دیگر روزوں کی نیت کب تک کرسکتے ہیں، نیز نصف النہار شرعی اور نصف النہار عرفی کا بھی کچھ تعارف ہوجائے مہربانی ہوگی؟

سائل: مولانا لقمان صاحب گودھروی 

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

دوپہر کو 3:00بجے اٹھ کر نیت کی ہے اور چونکہ اس وقت نیت کا وقت ختم ہوجاتا ہے اس لئے اس روزے کا اعتبار نہیں ہوگا، البتہ پورے دن یعنی غروب تک اس کے لئے کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنا ضروری ہے جسے فقہاء کی اصطلاح میں امساک کہتے ہیں۔

يجب الامساك بقية اليوم على ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسافر أقام، (الخلاصة الفقيه على مذهب السادة الحنفيه جلد ١/٥١٤)

روزے کی نیت 

نیت دِل کے ارادے کا نام ہے، رمضان کے مہینے میں روزے کی نیت کرنا ضروری ہے، نیت اس حد تک کافی ہے کہ اس کو اس بات کا استحضار ہو کہ یہ رمضان کا روزہ ہے یا پھر کوئی اور روزہ ہے بلکہ روزے کے ارادے سے سحری کے لئے بیدار ہونا ہی نیت کے لئے کافی ہو جائے گا، زبان سے نیت کا تلفظ ضروری نہیں ہے البتہ زبان سے ادا کرنا ستت ہے۔ (والشرط فيها أن يعلم بقلبه أي صوم يصومه : قال الحدادی: والسنة أن يتلفظ بها، شامی٣/ ٣٤٥)

نیت کا وقت

رمضان نظرمعین، اور نفل کے روزوں کی نیت غروب سے لیکر نصف النهار شرعی تک کر سکتے ہیں۔ 

نصف النہار

اس کی دو قسمیں ہیں

(١) نصف النہار شرعی: صبح صادق سے لیکر غروب تک جتنا وقت ہوتا ہے اس کے آدھے کو نصف النہار شرعی کہتے ہیں۔ یعنی صبح صادق اور غروب آفتاب کے درمیان جتنے گھنٹے اور منٹ ہوتے ہوں، ان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، پہلے نصف پر جو وقت ہوتا ہے وہی نصف النہار ہوتا ہے۔ اور روزے میں اسی کا اعتبار ہوگا اور نصف النہار شرعی سے پہلے پہلے تک نیت کرنا ضروری ہوگا۔

(٢) نصف النہار عرفی: جس کو زوال بھی کہتے ہیں طلوع آفتاب سے غروب تک کے نصف کو نصف النہار عرفی یعنی زوال کہتے ہیں۔ یعنی طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے درمیان جتنے گھنٹے اور منٹ ہوتے ہوں، ان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، پہلے نصف پر جو وقت ہوتا ہے وہی زوال آفتاب کا وقت ہوتا ہے۔

(فيصح اداء صوم رمضان، والنذر المعين، و النفل ، بنية من الليل ........ فلا تصح قبل الغروب ولا عنده ( إلى ضحوة الكبرى لا ) بعدها ولا عندها إعتبارا لأكثراليوم ۔۔۔۔۔۔۔ "(قوله: إلى الضحوة الكبرى) المراد بها نصف النهار الشرعي والنهار الشرعي من استطارة الضوء في أفق المشرق إلى غروب الشمس۔ (شامی۳۳۸/۳) 

دیگر روزوں کی نیت کا حکم

اور رمضان کے قضاء روزے نظرغیرمعین اور کفاروں کے روزے ان کی نیت صبح صادق سے پہلے کرنا ضروری ہے۔

(وأماصوم الدين من القضاءوالنذر المطلق والكفارات، اذانوی خارج رمضان مطلقا ولم ينو صوم القضاء أو الكفارات ، فانه لا يقع عنه ، لان خارج رمضان متعين للنفل عند بعض مشائخنا ۔ وعند بعضهم هو وقت الصيامات كلها على الابهام وانما يتعين بالتعيين. (تحفة الفقهاء- ۳٤۹/۱ ) 

فقط والسلام: واللہ اعلم بالصواب

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا

پیر، 26 اپریل، 2021

افطاری سے پہلے دعاء کرنا مسنون ہے یا افطاری کے بعد مفتی آصف گودھروی

 سوال

اسلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

افطاری کے وقت دعامانگےجانے کی تحقیق، دعا کا وقت کون سا ہیں، افطاری سے پہلے یا افطاری کے وقت ہونے پر، کیونکہ افطاری سے پہلے غروب آفتاب کا بھی وقت ہے، اکثر یہاں دیکھا گیا ھیکہ  افطاری کےپہلے ہی دعا مانگتے ہیں؟ مفصّل و مدلل جواب مطلوب ہو، سحری اور افطاری کی دعا احادیث کی روشنی میں مطلوب ہو

 ساںٔل: محمد صابر ممبئ

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

غروب کے وقت دعاء

غروب آفتاب کے وقت دعاء کی بڑی تاکید وارد ہوئی ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ ہمیں مغرب کی اذان کے قریب دعا کرنے کا حکم دیا جاتا تھا۔

 وعن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما أنہ قال: کنا نؤمر بالدعاء عند أذان المغرب۔ (مشکوٰة المصابیح)

افطار کے وقت دعاء کرنا

روزہ دار انسان جب دعا کرتا ہے تو اللہ اس کی دعا کو رد نہیں فرماتا ہے

سنن بیہقی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ثلاث دعوات مستجابات دعوة الصائم، ودعوة المظلوم، ودعوة المسافر تین قسم کی دعائیں قابل قبول ہوتی ہیں روزہ دار کی دعا، مظلوم کی دعا اور مسافر کی دعا۔

نیزایک اور حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إن للصائم عند فطره دعوة لا ترد افطار کے وقت روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی اس سے پتا چلتا ہے کہ افطاری کے وقت دعا کرنا عند اللہ محبوب اور پسندیدہ ہے؛ لہذا اس وقت پوری توجہ و آداب کے ساتھ خوب  دعا مانگنی چاہیے، 

اور غروب شمس کے وقت افطاری سے قبل عاجزی وانکساری ہوتی ہے اور تذلل کے ساتھ ساتھ وہ روزے سے بھی ہے اور یہ سب کے سب دعا کے قبول ہونے کے اسباب ہیں اور افطاری کے بعد تو انسان کا نفس راحت اور فرحت وخوشی میں ہوتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ غفلت میں پڑ جائے۔

 عن عبدالله بن عمرو للصّائمِ عندَ فطرهِ دعوةً لا تردُّ (معجم الشيوخ ابن عساكر١‏/٣٠٧) 

عن عبدالله بن عمر لكلِّ عبد صائمٍ دعوةٌ مستجابةٌ عندَ إفطارِه أُعطِيها في الدنيا أو ادُّخِرَتْ لهُ في الآخرةِ (الجامع الصغير السيوطي ٧٣٠٦)

ثلاثةٌ لا تُردُّ دعوتُهُم: الصّائمُ حينَ يُفْطِرَ وفي روايةٍ صحيحةٍ: حتّى يُفْطِرَ والإمامُ العادلُ ودعوَةُ المظلومِ يرفعُها اللَّهُ فَوقَ الغمامِ وتُفتَحُ لَها أبوابُ السَّماءِ ويقولُ الرَّبُّ: وعزَّتي لأنصرنَّكِ ولَو بعدَ حينٍ (الزواجر الهيتمي المكي ١‏/١٩٧ )

افطار کے وقت کی دعائیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افطار کے وقت کی دعائیں جو احادیث کی کتابوں میں منقول ہیں۔

''عن معاذ بن زهره أنه بلغه أن النبي صلی الله علیه وسلم کان إذا أفطر قال: اللّٰهم لک صمت وعلی رزقک أفطرت'' (سنن أبي داؤد، کتاب الصیام، باب القول عند الأفطار، النسخة الهندیة ۱/۳۲۲، دارالسلام)

ترجمہ:اے اللہ!میں نے تیرے ہی واسطے روزہ رکھا اورتیرے ہی رزق سے افطارکیا۔

وبک آمنت کا اضافہ

اور اس دعا میں وبک آمنت وعلیک توکلتُ کا اضافہ جامع الرموز میں قہستانی نے ذکر کیا ہے۔ (کتاب الصوم قبل فصل الاعتکاف: ص۱۶۴)

لیکن  ملا علی قاری رحمہ اللہ نے ''مرقاۃ المفاتیح'' (٤/٤٢٦ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) میں اورحضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ نےحصن حصین مترجم (ص٢١٤) کے حاشیہ میں اس اضافہ کو بے اصل قرار دیا ہے اور حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ نے جواہر الفقہ (٣/۵۲۲ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) میں صرف مسنون الفاظ ذکر فرمائے ہیں۔لہذا صرف مسنون الفاظ پر اکتفا ہی بہترہے۔ البتہ اگر اسے مسنون دعا کا حصہ نہ سمجھتے ہوئے پڑھ لے تو اس کی گنجائش ہے اس سے منع نہیں کیا جائے گا۔

(ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ (سنن ابی ٢/٢٧٨، بیروت)

ترجمہ:پیاس چلی گئی اوررگیں ترہوگئیں اوراللہ نے چاہا تواجرو ثواب قائم ہوگیا۔

مولاناعاشق الٰہی بلندشہری رحمہ اللہ نےتحفۃ المسلمین میں لکھاہے کہ ان میں سے پہلی دعا افطاری کے وقت یعنی افطارسے قبل اوردوسری دعاافطاری کے بعد پڑھنی چاہئے۔(جیساکہ الفاظ احادیث بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ افطاری کے بعدہی پڑھی جائے۔)

اسی طرح اللہ کے رسول سے (يا واسع الفضل اغفرلي) (الحمد لله الذي أعانني فصمت ورزقني فأفطرت) یہ دعاء بھی منقول ہے اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرو سے یہ دعا بھی منقول ہے۔ اللهمَّ إني أسألكَ برحمتكَ التي وَسِعَتْ كلَّ شيٍء أن تغفرَ لي ذنوبي۔

"وورد أنه صلى الله عليه وسلم كان يقول: " «يا واسع الفضل اغفر لي» "، وأنه كان يقول: " «الحمد لله الذي أعانني فصمت ورزقني فأفطرت» اهـ وأما ما اشتهر على الألسنة " اللهم لك صمت وبك آمنت وعلى رزقك أفطرت " فزيادة، (وبك آمنت) لا أصل لها وإن كان معناها صحيحًا". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)

عن عبدالله بن عمرو إنَّ للصائمِ عند فطرِهِ دعوةٌ ما تُرَدُّ وكان ابنُ عمرو إذا أفطرَ يقولُ اللهمَّ إني أسألكَ برحمتكَ التي وَسِعَتْ كلَّ شيٍء أن تغفرَ لي ذنوبي. (تحفة المحتاج ابن الملقن ٢‏/٩٧)


العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا

اتوار، 25 اپریل، 2021

سحری میں پان تمباکو منہ میں رکھ کر سوجانا مفتی آصف گودھروی

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کسی چیز کے حلق سے نیچے اترنے سے اسی طرح پیٹ میں پہنچنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، لیکن کوئی ایسی چیز منہ میں رکھ کر چبائی جوحلق سے نہیں اترتی جیسے تمباکو اور پان جو منہ میں ہی رہتا ہے مگر حلق سے نہیں جاتا تو اس کا کیا حکم ہے کیا اس پر کھانے کا اطلاق ہوگا اور اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا؟

اسی طرح سحری کے وقت کسی شخص نے پان یا تمباکو کھایا اور اسکی آنکھ لگ گئ اور صبح صادق کے وقت بیدارہوا تو اسکا روزہ باقی رہے گا کہ نہیں اس کا کیا حکم ہے؟

 سائل: زکوان میترانہ

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

تمباکو یا پان وغیرہ منہ میں رکھ کر چبانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا، اور قضاء وکفارہ دونوں لازم ہوں گے، اس لئے کہ زمانے کے عرف نے جس چیز کو اکل سے تعبیر کیا ہے اس کا اطلاق اکل یعنی کھانے سے ہی ہوگا، لہذا نشہ کے لیے تمباکو منھ میں رکھنا عملاً کھانے کے حکم میں ہے،

اور عام طور پر اس کا کچھ حصہ یا اثر دماغ اور پیٹ میں ضرور پہنچ جاتا ہے اور تمباکو میں دماغ یا پیٹ کی طرف کھنچنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے، اسی لیے غیر معتاد لوگوں کو واضح طور پر چکر آتے ہیں اور اعضاء شکنی وغیرہ ہوتی ہے، یہ اسی کا اثر ہوتا ہے

اور پان تمباکو کے استعمال میں اس بات کا پورے پورا امکان ہے کہ اس کے اجزاء تھوک کے ساتھ حلق تک پہنچ جائیں گے، اور شریعت میں جس جگہ کسی بات کے ہونے کا پورے پورا امکان پایا جاتا ہو اور عملی اعتبار سے اس بات کی تحقیق دشوار ہو کہ وہ بات واقع بھی ہوئی ہے یا نہیں؟ وہاں امکان کو واقع ہونے کا درجہ دیا جاتا ہے۔شامی میں ہے،

فإن کان ما یصل عادة حکم بالفساد؛ لأنہ کالمتیقن (رد المحتار ٣/٢٩٦)

حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب کا فتوی

حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب جدید فقہی مسائل میں تحریر بقلم ہے،

ان چیزوں کے استعمال سے بھی روزہ ٹوٹ جائے گا۔ ایک تو اس لئے کہ شریعت نے اکل کا کوئی قطعی معنی متعین نہیں کیا ہے اور جن الفاظ کے مفہوم کی شارع کی طرف سے تجدید تعیین نہ ہوئی ہو ، ان کا مصداق عرف (عام حالات و عادات اور بول چال ) سے متعین ہوتا ہے ، پس عرف میں جن چیزوں کے چبانے کو کھانا کہا جاتا ہے سو ان چیزوں کا چبالینا ہی کھالینے کے حکم میں ہے اس لئے پان اور تمباکو کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے گا کیوں کہ عرف میں پان تمباکو کو کھانا کہتے ہیں چبانا نہیں کہتے۔ دوسرے پان اور تمباکو کے استعمال میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس کے اجزاء لعاب دہن کے ساتھ حلق تک پہنچ جائیں گے ، اور شریعت میں جہاں کسی بات کا قوی امکان پایا جاتا ہو اور عملا اس بات کی تحقیق دشوار ہو کہ وہ بات واقع بھی ہوئی ہے یا نہیں؟ وہاں امکان کو واقع ہونے کا درجہ دیا جاتا ہے، نیند کو اسی لئے ناقض وضو مانا گیا ہے کہ اس میں خروج ریح کا قوی امکان ہے اور یقینی طور پر اس کی تحقیق دشوار ہے، پھر چونکہ پان تمباکو کے خوگر لوگوں کو پان تمباکو میں لذت ملتی ہے اور وہ تلذذ نفس ہی کے لئے اس کا استعمال کرتے ہیں، لہذا اس کے استعمال پر کفار بھی واجب ہوگا۔ (جدید فقہی مسائل، ١/١٢٩)

حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کا فتوی

حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہے کہ تمباکو نسوار وغیرہ کا استعمال مباح ہے، اور اس سے روزہ بھی فاسد ہو جاتا ہے اس لئے کہ نسوار (تمباکو)کا منہ میں رکھنا عملا کھانے کے حکم میں ہے۔(فتاوی عثمانی ٢/١٩٢)

اور کوئی شخص سحری کے وقت پان تمباکو منہ میں رکھ کر سوجائے تو اس کا روزہ درست نہیں ہوگا قضاء لازم ہوگی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا

ہفتہ، 24 اپریل، 2021

روزہ کی حالت میں شرمگاہ میں کوئی آلہ داخل کرنا مفتی آصف گودھروی

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بعد سلام بصد احترام عرض ہے کہ روزہ کی حالت میں حاملہ عورت کی شرمگاہ میں علاج کے طور پر کوئی آلہ استعمال کرنا کیسا ہے

سائل: مولوی لقمان صاحب گودھروی

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

حاملہ روزہ دار خاتون کی شرم گاہ میں علاج کے طور پر کوئی آلہ استعمال کریں، تو دیکھا جائے گا کہ آلے کے ساتھ دوائی وغیرہ لگائی ہے یا نہیں اگر آلے کے ساتھ دوائی لگائی ہے تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا، اورصرف قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہ ہوگا، اور اگر روزے کی حالت میں خشک آلہ ڈالے تو اس سے روزہ فاسد نہ ہوگا، لیکن ایک مرتبہ داخل کرکے نکالنے کے بعد واپس وہی آلہ شرم گاہ میں ڈالا جائے تو تر ہونے کی وجہ سے روزہ فاسد ہوجائے گا

شامی میں ہے

( أو أدخل اصبعه اليابسة فيه أي دبره أو فرجها ولو مبتلة فسد (شامی ٣/٣٦٩)

فتاوی ہندیہ میں ہے۔

"ولو أدخل أصبعه في استه أو المرأة في فرجها لايفسد، وهو المختار، إلا إذا كانت مبتلةً بالماء أو الدهن فحينئذ يفسد؛ لوصول الماء أو الدهن، هكذا في الظهيرية. ( كتاب الصوم، الباب الرابع فيما يفسد وما لا يفسد، ١/٢٠٤، ط:دار الفكر)


العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا

نماز اور روزوں کے فدیہ اور وصیت کا حکم مفتی آصف گودھروی

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت مفتی صاحب کچھ سوالات دریافت کرنا ہے امید ہے کہ بالتفصیل جواب مرحمت فرمائیں گے۔

میرے نانا مرحوم انتقال ‌کر گئے اور‌ ان کے کچھ روزہ و نماز ذمہ میں باقی ہے، مسئلہ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے وصیت بھی نہیں کی ہے، اب اگر ان کے وارثین ان کی طرف سے رجاءً روزہ و نماز کی فدیہ سے تلافی کرنا چاہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا صورت ہے؟ اور فی زماننا کیا مقدار ہے؟ نماز روزوں کا اندازہ نہیں ہے تو کیا کریں، اور عبادات میں نیابت کا کیا حکم ہے، اسی طرح حیلۂ اسقاط کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اس کی صورت و حکم بھی واضح فرمائیں مہربانی ہوگی۔

سائل:مولوی عمر چھاپی

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

عبادات تین قسم کی ہے ایک خالص بدنی دوسری خالص مالی تیسری مالی اور بدنی کا مجموعہ

خالص مالی عبادات جیسے صدقاتِ نافلہ و واجبہ

اس میں نیابت ہر حال میں درست ہے جس کی طرف سے اداکی جائے چاہے وہ زندہ ہو یا نہ ہو کوئی بھی آدمی اس کی طرف سے اس کی اجازت سے زکوۃ ادا کرسکتا ہے۔

مالی اور بدنی عبادت کا مجموعہ جیسے حج

اس میں جس کی طرف سے ادا کیا جارہاہے وہ زندہ اور صاحب استطاعت ہے تو درست نہیں ہے اور اگر زندہ نہیں ہے یا حج پر قادر نہیں ہے تو اس کی طرف سے ادا کرنا درست ہوجائےگا۔

خالص بدنی عبادات جیسےنماز اور روزے

کوئی بھی آدمی دوسرے کی طرف سے قضا نمازیں یا روزے ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی ادا کرنے سے وہ ادا ہو سکتی ہیں، چاہے دوسرا آدمی زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو، البتہ فوت شدہ آدمی کے ذمہ واجب الادا نمازوں کا فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے،

اس کی دو صورتیں ہے

(١)مرنے والے نے وصیت کی ہو

چنانچہ اگر کسی آدمی کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ قضا نمازیں باقی ہوں تو اگر اس نے اپنی قضا نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر لازم ہے کہ اس کے ایک تہائی ترکہ  میں سے فی نماز ایک فدیہ ادا کریں، اسی طرح روزے کا بھی حکم ہے، اگر تمام قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تو بہترہے، اگر مکمل ادا نہ ہو تو بقیہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ورثہ کے ذمہ لازم نہیں ہوگا،

(٢) مرنے والے نے وصیت نہ کی ہو

اگر مرنے والے نے فدیہ کی وصیت نہیں کی تو شرعاً ورثاء پران کی نماز اور روزہ کا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر ورثاء ازخود باہمی رضامندی سے یا کوئی ایک وارث اپنی جانب سے ان کی نماز، روزوں کا فدیہ ادا کردیں تو ادا ہوجائے گا اور میت پر بڑا احسان ہوگا، البتہ اس میں بہتر صورت یہ ہے کہ ترکہ تقسیم کردیا جائے پھر جو وارث اپنی خوشی سے فدیہ ادا کرنا چاہے وہ ادا کردے ۔

"(العبادة المالية) كزكاة وكفارة (تقبل النيابة) عن المكلف (مطلقاً) عند القدرة والعجز ولو النائب ذمياً؛ لأن العبرة لنية الموكل ولو عند دفع الوكيل (والبدنية) كصلاة وصوم (لا) تقبلها (مطلقاً، والمركبة منهما) كحج الفرض (تقبل النيابة عند العجز فقط)".(شامی٢/٥٩٧)

مسئولہ سورت میں سارے وارثین اپنی رضامندی سے فدیہ ادا کرنا چاہے تو ادا کرسکتے ہیں بشرطیکہ کہ سب بالغ ہوں اگر کوئی نابالغ ہے اور اس کے حصہ میں کمی ہوتی ہے تو درست نہیں ہوگا، البتہ تقسیم ترکہ کے بعد بالغ وارثین کے لئے گنجائش ہے کہ وہ فدیہ ادا کریں۔

فدیہ کی مقدار 

ایک روزے اور ایک نماز یا ایک روزہ کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گیہوں یا اس کا آٹا یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔ فدیہ کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے یعنی مسلمان فقیر جو صاحبِ نصاب بھی نہ ہو، لہذا ورثاء ان کی نماز اور روزوں کا اندازہ  لگاکرفدیہ اداکرناچاہیں تو مذکورہ طریقے پر ادا کرسکتے ہیں۔

نماز روزوں کا اندازہ

مرحوم کے ذمہ واجب الادا حنمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد معلوم نہ ہو اور فدیہ ادا کرنا چاہیں تو ایک محتاط اندازہ لگالیں، اور میت کی عمومی عادت کو بھی دیکھا جائے کہ نماز کی ادائیگی کی کتنی پابندی کرتے تھے، بیماری کے ایام کے معمولات کا جائزہ لیا جائے، پھر اندازے سے تعداد مقرر کرلی جائے۔

 اور احتیاطاً  کچھ زیادہ شمار کر کے ادا کرنا چاہیے، اگر یک مشت نہ ہوسکے تو تھوڑا تھوڑا کرکے وقتاً فوقتاً ادا کرتے رہیں۔

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر)"(شامی٢/٧٢)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله". (١/١٢٥، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، ط؛ رشیدیه)

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"وعليه الوصية بما قدر عليه وبقي بذمته فيخرج عنه وليه من ثلث ما ترك  لصوم كل يوم ولصلاة كل وقت حتى الوتر نصف صاع من بر أو قيمته وإن لم يوص وتبرع عنه وليه جاز ولا يصح أن يصوم ولا أن يصلي عنه". (ص: ١٦٧، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، فصل فی اسقاط الصلاۃوالصوم،ط:المکتبۃ العصریہ)

حیلہ اسقاط کن حضرات کے لئے مشروع ہے

بعض فقہاء نے حیلۂ اسقاط کو ایسے شخص کے لیے تجویز فرمایا تھا جس کی کچھ نمازیں اورروزے وغیرہ اتفاقی طورپرفوت ہوگئے ہوں، پھر اسے قضا کرنے کا موقع نہ ملا ہو اور اس نے  موت کے وقت فدیہ کی وصیت تو کی ہو، لیکن مرحوم نے اتنا ترکہ نہ چھوڑا ہو کہ جس کے ایک تہائی سے اس کی تمام فوت شدہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کیا جاسکے۔

حیلہ اسقاط کا طریقہ

کسی ایسے آدمی کا انتقال ہوجائے جس کے پاس ترکہ میں بہت کم رقم موجود ہے اور اس نے نماز روزوں کے فدیہ کی وصیت کی ہے اور اتنی رقم سے نماز روزوں کا فدیہ ممکن نہیں ہے۔ اور ورثاء کے پاس بھی گنجائش نہیں ہے۔ کہ وہ اداکر سکیں تو فقہاء نے حیلہ اختیار کرنے کی گنجائش ذکر کی ہے، اور اس کی جائز صورت یہ ہے کہ:

ورثاء فدیے کی نیت سے کچھ رقم کسی مستحق زکوٰۃ فقیر کو دے کر اس کو رقم کا اس طور پر مالک بنا دیں کہ اگر وہ اس رقم کو خود استعمال کرنا چاہے تو ورثاء برا نہ مانیں، اور اس مستحق کو معلوم ہو کہ اگر میں یہ رقم مرحوم کے ورثاء کو نہیں دوں گا، تو انہیں واپس لینے کا اختیار بھی نہیں ہے، اس کے باوجود اگر وہ مستحق بغیر کسی دباؤ کے اپنی خوشی سے وہ رقم ورثاء کو واپس کر دے، اور پھر ورثاء اس مستحق کو یا کسی اور مستحق کو اسی طریقے کے مطابق دے دیں، وہ بھی اپنی خوشی سے انہیں واپس کر دے، اس طرح بار بار ورثاء یہ رقم کسی مستحق کو دیتے رہیں اور وہ اپنی خوشی سے واپس کرتا رہے، یہاں تک کہ مرحوم کی تمام نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا ہوجائے، تو اب وہ رقم آخر میں جس مستحق شخص کو ملے گی وہی رقم کا مالک ہوگا اور اسے اس رقم کو خرچ کرنےکا مکمل اختیار ہوگا، آخر میں ورثاء کو وہ رقم لینے کی اجازت نہیں ہے۔

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ : (ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة(وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله) ولو لم يترك مالا يستقرض وارثه نصف صاع مثلا ويدفعه لفقير ثم يدفعه الفقير للوارث ثم وثم حتى يتم.(شامی، ٢/ ٧٢)

لہذا مجوزہ حیلہ اسقاط میں جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں:

(١) میت اور ورثا کا غریب ہونا کہ مال سے فدیہ ذمے سے ساقط نہ ہوسکتا ہو۔ 

(٢) میت کے مال میں سے اگر کیا جائے تو تمام بالغ ورثا اس پر دل سے راضی ہوں۔

(٣) اگر کوئی نابالغ وارث بھی ہے تو اس کے حصے میں سے اس رقم سے کوئی کمی نہ ہونے پائے، بلکہ جو بالغ ورثا یہ حیلہ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے اپنے حصوں سے ادا کریں۔ 

(٤) جس کو یہ مال دے رہے ہیں وہ مستحق ہو۔ 

(٥) اس مستحق فقیر کو اس مال کا مالک بناکر اس پر قبضہ دیا جائے۔

(٦) جس فقیر کو دیا جاتا ہے اس کا اپنی مرضی اور دلی رضا مندی سے اس مال کا میت کے ورثا کو ہبہ کرنا بھی ضروری ہے۔اس پر کوئی زور زبردستی نہ کی جائے۔

علامہ شامی رقم طراز ہیں

“لومات و علیہ صلوات فائتۃ واوصیٰ بالکفارۃ یعطی لکل صلوۃ نصف صاع من بر کالفطرۃ وکذا حکم الوتر والصوم‘ وانما یعطی من ثلث مالہ‘ ولو لم یترک مالا یستقر من وارثہ نصف صاع مثلاً و یدفعہ‘ الفقیر ثم یدفعہ الفقیر للوارث ثم و ثم حتی یتم ( قال فی الشامیہ) ثم ینبغی بعد تمام ذالک کلہ ان یتصدق علی الفقراء بشئ من ذالک المال او بما اوصیٰ بہ المیت ان کان اوصیٰ” (شامی ۲/۷۴ ط سعید)

اسی طرح البحر میں ہیں

“وإن لم يترك مالا تستقرض ورثته نصف صاع ويدفع إلى المسكين ثم يتصدق المسكين على بعض ورثته ثم يتصدق ثم وثم حتى يتم لكل صلاة ما ذكرنا ولو قضاها ورثته بأمره لا يجوز وفي الحج يجوز” (البحر الرائق: کتاب الصلوٰۃ،باب قضاء الفوائت،ص ٣٣)

حیلہ اسقاط کا حکم

عوام میں مال کی حرص اور لالچ کی بنا پر اس کی طرف رجحان زیادہ دیکھاجاتا ہے، حالآنکہ فقہاء نے صرف غریب میت کے لیےاس کی اجازت دی تھی،اور فقہائے کرام نے اس حیلے کو چند شرائط کے ساتھ مشروط کیا ہے، جن کا عام طور پر کوئی خیال نہیں رکھا جاتا، اور یہ سب ایک طے شدہ معاملے کے مطابق کیا جاتا ہے، جسکی وجہ سے یہ مروجہ حیلہ اسقاط ناجائز ہے، کیونکہ اس میں چند مزید خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں کہ عوام کا عقیدہ فاسد ہو جاتا ہے، اس رسم کے بڑھانے سے عوام دلیر ہو جاتی ہے کہ نماز، روزہ سب حیلہ اسقاط سے ساقط ہو جائیں گے،اور پھر جن شرائط اور آداب کی رعایت رکھتے ہوئے اس کی اجازت تھی ان کا بھی قطعاً خیال نہیں رکھا جاتا ہے،

حیلہ تملیک کی صورت کے سلسلہ میں بحث کرتے ہوئے فتاوی دارالعلوم دیوبند٤/١٢٧ پر لکھا ہے کہ ’’یہ حیلہ اس وقت حیلہ شمار ہوتا ہے جب کہ واقعی تملیک ہو، اور مروجہ حیلۂ تملیک میں واقعی تملیک نہیں ہوتی، اور حیلۂ اسقاط عبادت میں مفتیان کرام یہ فتویٰ دے چکے ہیں کہ وہ محض ڈھونگ ہے، اس سے نماز، روزے معاف نہیں ہوتے، کیونکہ اس میں واقعی تملیک نہیں ہوتی،

علامہ شامی ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں۔

"وبه ظهر حال وصایا أهل زماننا ، فإن الواحد منکم یکون في ذمته صلوات کثیرة وغیرها من زکاة وأضاح وأیمان، ویوصي لذلك بدراهم یسیرة، ویجعل معظم وصیته لقراءة  الختمات والتهالیل التي نص علماؤنا علی عدم صحة الوصیة بها" (الشامية، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، مطلب في بطلان الوصیة بالنخمات والتهالیل، (شامی زکریا ۲/۵۳۴)

لہذا ورثاء کی ناداری کی بنا پر اور مالی گنجائش نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ تفصیلی شرائط کے ساتھ حیلہ کرنے کی گنجائش ہے، ورنہ حیلہ اسقاط درست نہیں ہے۔ ( مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: مفتی شفیع رحمہ اللہ کا رسالہ"حیلہ اسقاط" جو جواہر الفقہ کے نئے طبع کی جلد اول میں شامل ہے، اور نظام الفتاوی ص ۱۱۷ ج٦)

فقط والسلام: واللہ اعلم بالصواب

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا

بدھ، 21 اپریل، 2021

حیلہ کی شرعی حیثیت مفتی آصف گودھروی

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

لوگ روزہ کی حالت میں پیاس سے بچنے کے لئے حیلہ کرتے ہیں جیسے تر کپڑاگلے اور ہونٹوں پر رکھنا، اسی طرح تر کپڑے پہننا، سر کو تر کرنا، اور کلی کرنا وغیرہ، اس حیلہ کا کیا حکم ہے، نیز حیلۂ شرعی کیا ہے عبادات میں حیلہ مطلق جائز ہے یا کسی شرط کے ساتھ مقیدہے؟ مفصل ومدلل جواب مطلوب ہے

سائل :مولوی احمد  ماہی

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

خلاصہ جواب

      مذکورہ سوال میں روزے سے بچنے کے لیے جو حیلہ مذکور ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اس طرح کا حیلہ کرنے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں ہوگا روزہ درست ہوجائے گا۔

    ایسا حیلہ جس میں حرام یا معصیت کا ارتکاب یا ابطال حق اللہ وحق العبد نہ ہو اور وصول الی الحق واجتناب حرام ومعصیت کے خاطرہو تو حیلہ جائز ہے 

    اور اگر حرام یا معصیت کا ارتکاب یا ابطال حق اللہ وحق العبد ہو اور وصول الی الحق واجتناب حرام و معصیت کے خاطر نہ ہو تو حیلہ نا جائز ہے 

تفصیلی جواب

         روزے کی حالت میں پیاس سے بچنے کہ لیے حیلہ کی جو صورتیں بیان کی ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ ان میں سے کسی بھی صورت میں دخول ماء متحقق نہیں ہو تا۔ شامی میں لکھا ہے کہ منافذ اصلیہ سے دخول متحقق ہو گا تب ہی وہ مفطرہوگا

’’والمفطرانما ہو الداخل من المنافذ‘‘شامی جلد ۳ صـ ۳۶۷

حیلہ کی تعریف

    حیلہ مہارت و تدبیر کو کہتے ہیں،شرعی اعتبار سے گناہ اور حرام سے بچنے کے لئے اور معصیت کا دروازہ بند کرنے اور شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے حلال کو طلب کرنے والے کسی بھی کام کو حیلہ کہتے ہیں، نیز فقہائے کرام کی اصطلاح میں حیلہ حرمت و معصیت سے بچنے کے لئے ایسی خلاصی کی راہ اختیار کرنا جس کی شریعت نے اجازت دی ہو، 

    الحیل جمع حیلۃٍ وھی الحذف فی تدبیر الامور ای تقلیب الفکر حتی یہتدی الی المقصود  واحتال طلب الحیلۃ:قال الحموی والمراد بھاھاھنا  (ای فی جواب الفقہ)ما یکون مختصا شرعا لمن ابتلی بحادثۃ دینیۃ (تلخیلص و تقریب الاشباہ والنظائر مکتبۃ شبکۃ الالوکۃ صفخہ ۴۷)

حیلہ کی دو صورتیں ہیں 

(۱)جائز حیلہ

اس سلسلہ میں خود قرآن مجید کے اندر اللہ تعالی نے حضرت ایوب کو حیلہ کا طریقہ بتایا ہے ،جب  آپؑ نے حالت علالت میں اپنی اہلیہ محترمہ کو سو (۱۰۰)کوڑے مارنے کی قسم کھا لی تھی ،چونکہ آپ کی اہلیہ محترمہ نے انتہائی فراخ دلی سے آپ کی خدمت کی تھی اللہ تعالی نے اس قسم سے بچنے کا حیلہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’وخذبیدک ضغثا فاضرب بہ ولا تحنث (سورہ ص  آیت نمبر۴۴‘‘مفاتیح الغیب میں علامہ فخرالدین رازی رقم طراز ہے ’’ولما کانت حسنۃ الخدمۃلہ لاجرم حلل اللہ یمینہ بأھون شیء علیہ و علیہا‘‘

    نیزاس رخصت کی بقاء کے سلسلہ میں رقم طراز ہے۔’’ وہذہ الرخصہ باقیۃ وعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ اُتِیَ بمخذم خبث بامہ فقال خذواعثکالا فیہ مائۃ شمراخ فاضربوہ بہ ضربۃ‘‘ 

    البحر المحیط میں لکھا ہے کہ’’ فحلل یمینہ بِأھون شیء علیہ وعلیھا لِحسن خدمتھا ایاہ ورضاہ عنھا‘‘ پھر آگے لکھتے ہیں ۔’’وقد وقع مثل ھذہ الرخصۃ فی الاسلام‘‘

     حضرت مفتی شفیع صاحب اپنی مایۂ ناز ’’تفسیر معارف القران ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ کسی نا مناسب یا مکروہ بات سے بچنے کے لیے کوئی شرعی حیلہ اختیار کیا جائے تو و ہ جائز ہے، پھر اس واقعہ سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ یعنی حضرت ایوبؑ کا واقعہ حیلہ کے جواز پر دلالت کرتا ہے ،حضرت مفتی شبیر احمد عثمانی اسی واقعہ کے تحت رقمطراز ہے کہ جو حیلہ حکم شرعی کو باطل نہ کرے بلکہ کسی معروف کا ذریعہ بنتا ہو اسکی اجازت ہے نیز احکام القرآن میں بھی اس آیت سے حیلہ کا استدلال کیا ہے۔ 

    دوسری جگہ قرآن پاک میں سورہ یوسف’’ فبدأباوعیتھم قبل وعاء اخیہ آیت ۷۶‘‘حضرت یوسف کے جائز حیلہ کا تذکیرہ ہے فقہائے کرام نے ان آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزامور میں حیلہ کی اجازت دی ہے، جہاں حرام سے محفوظ رہتے ہوئے حلال کی طرف رسائی ممکن ہو ۔

    علامہ سرخسی نے حیلہ کی جائز صورت پر گفنگو کرتے ہو ئے خلاصۂ بحث یوں لکھا ہے کہ’’ فالحاصل ان ما یتخلص بہ الرجل من الحرام او یتوصل الی الحلال من الحیل فہو حسن‘‘ 

(مبسوط سرخسی ۳۰صفحہ ۲۱۰ )

    پس خلاصہ یہ کہ آدمی جس کے ذریعہ حرام سے بچ جائے یا حیلہ کے ذریعہ حلال کی طرف وصولیابی ہو پس وہ اچھاہے ۔أشباہ میں ہے ۔’’وقال أبوسلیمان الجوزجانیؒ وإنما ھو (أی الحیلۃ الجائزۃ فی الشرع)الھرب من الحرام والتخلص منہ حسن‘‘۔(تلخیص وتقریب الاشباہ والنظائر ص ۷۶)

    علامہ ابن نجیم مصری جامع الفتاوی کہ حوالہ سے رقم طراز ہے کہ حرام سے چھٹکارہ مقصود ہو اور توصل الی الحلال ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔’’ وفی العیون وجامع الفتاوی وکل حیلۃ یحتال بھا الرجل یتخلص بھا عن الحرام او لیتوصل بھاالی الحلال فھی حسنۃ وھو معنی ما نقل عن  الشعبی لا باس بالحیلۃ فیما یحل‘‘اور اس میں کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو ،ورنہ درست نہیں ہے۔’’وقال أبوسلیمان الجوزجانیؒ:وھذا کلہ إذا لم یُؤد إلی الضرر بأحدٍ‘‘

تلخیص وتقریب الاشباہ والنظائر ص ۷۶

    حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب اپنی کتاب میںتحریر فرماتے ہیں کہ حیلہ کے معنی مہارت اور تدبیر ہے فقہائے کرام کی اصطلاح میں حرمت و معصیت سے بچنے کے لیے ایسی خلاصی کی راہ اختیار کرنے کا نام ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہو ۔ (حلال و حرام ص ۴۵ /۴۶)

    ان سارے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسا حیلہ کہ جس میںحرام یا معصیت کا ارتکاب یاإبطال حق اللہ و حق العبد نہ ہو اور وصول الی الحق اور اجتناب حرام و معصیت کے خاطر حیلہ جائز ہے،ورنہ جائز نہیں ہے۔

 (۲)نا جائزحیلہ 

    انسان حیلہ کے مزین لبادے میں ملبوس ہو کر حرام اور معصیت کا ارتکاب کرے اور حیلہ کی دیوار کی آڑ میں فرائض سے دور ہو ،اور فرائض کو پامال کرنا شروع کردے، اور ظلم و زیادتی یا کسی کے حق کے ابطال میں حیلہ کا سہارہ لیکر بے باک ہو جائے تو یہ جائز نہیںہے۔

    قران کریم میں سورہ اعراف آیت نمبر ۱۶۳ میں بنی اسرائیل کا تذکیرہ کرتے ہوئے بڑے ملیح انداز میں ناجائز حیلہ کی تردید کی ہے ،جس میں ان کو سنیچر کے دن مچھلیوں کے شکار کرنے سے روکا گیا تھا انہوںنے اس میںحیلہ سے شکار کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے ان پر عذاب خداوندی نازل ہوا۔

    علامہ عبد الماجد دریابادی تفسیر ماجدی میں  اس آیت کے تحت لکھتے ہیں’’ویستدل بعض اھل العلم بقصتہ ھؤلاء المعتدین علی حرمۃ الحیل فی الدین‘‘اس کے بعد آگے لکھتے ہیں: مرشد تھانوی ؒنے فرمایا کے جن حیلوںکا مشروع ہونا فقہاء و حکمائے اُمت سے واردہوا ہے ،وہ احکام شرعی کی تعمیل کے لیے ہے نہ کے ان سے بچنے کے لیے ۔

    علامہ سرخسی مبسوط سرخسی میی رقم طراز ہے ’’انما یکرہ ذالک ان یحتال فی حق لرجل حتی یبطلہ او فی باطل حتی یموھہ او فی حق حتی یدخل فیہ شبھۃ فیما کان علی ھذا السبیل فھو مکروہ ‘‘

(مبسوط سرخسی جلد ۳۰ ص ۲۱۰) 

    علامہ ابن نجیم مصری الاشباہ میں تحریر فرماتے ہے ’’قال ابو سفیان الجوزجانی وھذا کلہ اذا لم یؤد الی الضرر باحد فال فی الفتاوی خانیہ ومذھب علمائنا ان کل حیلۃ یحتال بھا الرجل لابطال حق الغیر او لادخال شبھۃ فیہ فھی مکروھۃ یعنی تحریمھا والعیون وجامع الفتاوی لا یسعہ ذلک‘‘ 

تلخیص وتقریب الاشباہ والنظائر ص۷۶

    مفتی شبیر احمد عثمانی سورہ ص آیت۴۴کی تفسیر میں لکھتے ہے جس حیلہ سے کسی حکم شرعی یا مقصدِ دینی کا ابطال ہوتا ہو وہ جائز نہیں ہے ۔

    مفتی شفیع صاحب عثمانی اسی آیت کے تحت لکھتے ہے کہ اگر حیلہ کا مقصد یہ ہو کہ کسی حقدار کا حق باطل کیا جائے یا کسی صریح فعل حرام کو اس کی روح بر قرار رکھتے ہوئے اپنے لیے حلال کر دیا جائے تو ایسا حیلہ بالکل جائز نہیں ہے ۔اس پوری وضاحت سے یہ بات صاف ہو گیٔ کہ حیلہ کا جواز مقید بالبروالتقوی ہے اگر بالاثم والعدوان ہو تو جائز نہیں ہے۔

 فقط والسلام :واللہ اعلم بالصواب 

العارض آصف بن محمد گودھروی 

خادم: جامعہ تحفیظ القران اسلام پورا 


پیر، 19 اپریل، 2021

قرآن مکمل یا بعض حصہ حفظ کرکے بھول جانا مفتی آصف گودھروی

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

کوئی شخص مکمل قرآن حفظ کرکے بھول جائے یا حافظ قرآن نہیں ہے، لیکن کچھ پارے حفظ کیے پھر یاد کرنا چھوڑ دیا تو جو پارے یاد کئے ہیں تو کیا وہ پارے یاد رکھنا ضروری ہے، جس طرح حافظ قرآن کو قرآن یاد نہ رکھنے پر جو  وعید ہیں، وہ وعید ان پر بھی صادق آئے گی۔

سائل:ثوبان اسلام پوری

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

قرآن پاک حفظ کرنے کی توفیق کا ملنا اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے۔ اور قرآن مجید مکمل یا اس کا بعض حصہ حفظ کرنا بہت بڑی سعادت ہے اس سعادت کا حقیقی صلہ تو اللہ جل شانہ آخرت میں عنایت فرمائیں گے مگر اس دنیا میں بھی بڑی بڑی نعمتیں حافظ قرآن کو عطا ہوتی ہیں۔ اور حفظ کرنے کے بعد سستی اور کاہلی کی وجہ سے بھلادینا بہت بڑا گناہ ہے، احادیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔

ہر مسلمان پر بقدر ما یجوز بہ الصلوۃ  یعنی اتنا قرآن  مجید یاد کرنا کہ جس سے نماز ادا ہوجائے، فرض عین ہے، اور پورا قرآن مجید حفظ کرنا فرض کفایہ ہے۔

قرآن حکیم پڑھ کر بھول جانے پر وعید کا بیان

عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عرضت علي أجور أمتي حتى القذأۃ یخرجہا الرجل من المسجد وعرضت علي ذنوب أمتي فلم أر ذنباً أعظم من سورۃ من القرآن أو آیۃ أوتیہا رجل ثم نسیہا۔ (سنن أبي داؤد، الصلاۃ/ باب في کنس المسجد، سنن الترمذي/ أبواب فضائل القرآن)

”حضرت انس بن مالک رضي اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے میری امت کے اَجر و ثواب پیش کئے گئے یہاں تک کہ وہ کوڑا کرکٹ بھی جو آدمی مسجد سے نکالتا ہے (اس کا ثواب بھی پیش کیا گیا)۔ اور مجھ پر میری اُمت کے گناہ پیش کئے گئے تو میں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ قرآن کی کوئی سورت یا کوئی آیت کسی آدمی کو (یاد کرنے کی توفیق) دی گئی اور پھر اس نے اسے بھلا دیا۔“

عنْ سعْد بْن عبادة رضيﷲ عنه قال: قَالَ رسولﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: ما من امْرئ يقْرأالْقرآن، ثم ينساه إلا لقيﷲ عز وجل أجْزم۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب التشديد فيمن حفظ القرآن ثم نسيه،)

”حضرت سعد بن عبادہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن حکیم پڑھنا سیکھ لے پھر اسے بُھلا دے وہ اﷲ تعالیٰ سے اِس حال میں ملاقات کرے گا کہ ا س پر (مرضِ) کوڑھ طاری ہوگا۔“

احناف کے یہاں اس عتاب کے مصداق

مذکورہ احادیث میں قرآنِ مجید بھولنے پر جو وعید آئی ہے احناف کے نزدیک اس سے مراد اس طرح بھول جانا ہے کہ انسان الفاظ کی پہچان ہی بھول جائے اور ناظرہ بھی نہ پڑھ سکے۔

قال العلامة المناوي:قوله:ما من امرئ يقرأ القرآن، يحتمل بحفظه عن ظهر قلب و يحتمل يتعود قرأته نظرة في المصحف أو تلقينا ويدل للأول بل العينه، قوله: ثم ينساه إلا لقي الله يوم القيامة وهو أجزم (فيض القدير ۵۷۲/۵)

اسی طرح بذل المجہود میں ہے

والنسيان عندناأن لايقدر بالنظر (بذل المجهود ملتان ۲٤۹/۱ )

اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے

إذا حفظ الإنسان القرآن ثم نسیہ فإنہ یأثم، وتفسیر النسیان أن لا یمکنہ القراءۃ من المصحف۔(۵/۳۱۷، کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح وقراء ۃ القرآن الخ)

اسی طرح ملا علی قاری مشکوۃ کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں۔

والنسيان عندنا أن لا يقدر أن يقرأ بالنظر كذا في شرح شرعة الإسلام .(مرقاۃ المفاتیح، باب المساجد و مواضع الصلاۃ، حدیث نمبر: ٧٢٠، ٢/٦٠٢ )

نسیان ( کا معنی) ہمارے ہاں یہ ہے کہ وہ ناظرہ قرآن پڑھنے پر بھی قادر نہ رہے ( یعنی دیکھ کر پڑھنا بھی بھول گیا) جیسے کہ شرعۃ إسلام ( کتاب) میں ہے.

کتاب النوازل میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضرت مفتی سلمان منصورپوری تحریر فرماتے ہیں۔ کہ قرآن کریم حفظ یاد کرنے کے بعد جو شخص غفلت اور لا ابالی پن کی وجہ سے ناظرہ تک پڑھنا بھول جائے، وہ احادیث کی وعید کا اولین مستحق ہے، تاہم جو شخص ناظر تو پڑھ سکتا ہو لیکن حفظ بھول جائے تو اس کی محرومی میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے البتہ تجوید وغیرہ کے قواعد کا بھول جانا اس وعید میں داخل نہیں ہے۔(کتاب النوازل ٢/٢٨٧)

خلاصہ کلام

قرآن کریم کو مکمل حفظ کرنے والے یا بعض حصہ کو یاد کرنے والے دوقسم کے ہے 

(١) وہ حضرات جو ذہنی سطح کے اعتبار سے اعلی ہے۔ لیکن اپنی کوتاہی، سستی اور غفلت کی وجہ سے بھول جائے‘ قرآنِ مجید کی تلاوت ترک کر دے تو بلاشبہ وہ ان روایات اور عتاب کے دائرہ میں شامل ہوگا اور سخت گناہگار ہوگا۔ کیونکہ اس نے قرآن مجید کیساتھ تعلق توڑ دیا اور کلام اللہ کی اہمیت کا عملاً انکار کر دیا۔

(٢) ذہنی سطح بالکل صفر ہے لیکن فکر مند ہے اور تسلسل سے وہ قرآن کو وقتاً فوقتاً یاد کرتا رہتا ہے۔ خود کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتا لیکن بشری کمزوری کی وجہ سے بھول جاتا ہے، تو کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اس صورت میں بھی وہ قرآنِ مجید کی تلاوت ترک نہ کرے، بھول جانے والے حصے کو بار بار یاد کرنے کی کوشش کرتا رہے۔

لہذا جو شخص اپنی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے قرآنِ  کریم اتنا بھول جائے کہ بالکل نہ پڑھ سکے وہ اس وعید میں شامل ہے، جو شخص مسلسل اپنی محنت اور عزم سے قرآن کریم کو یادکرتا رہے  اور حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے اگر پختگی مضبوط نہ رہ سکی تو امید ہے کہ ان شاء اللہ اس وعید سے محفوظ رہے گا۔

فقط والسلام: واللہ اعلم بالصواب

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا