سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرت مفتی صاحب کچھ سوالات دریافت کرنا ہے امید ہے کہ بالتفصیل جواب مرحمت فرمائیں گے۔
میرے نانا مرحوم انتقال کر گئے اور ان کے کچھ روزہ و نماز ذمہ میں باقی ہے، مسئلہ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے وصیت بھی نہیں کی ہے، اب اگر ان کے وارثین ان کی طرف سے رجاءً روزہ و نماز کی فدیہ سے تلافی کرنا چاہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا صورت ہے؟ اور فی زماننا کیا مقدار ہے؟ نماز روزوں کا اندازہ نہیں ہے تو کیا کریں، اور عبادات میں نیابت کا کیا حکم ہے، اسی طرح حیلۂ اسقاط کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اس کی صورت و حکم بھی واضح فرمائیں مہربانی ہوگی۔
سائل:مولوی عمر چھاپی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
عبادات تین قسم کی ہے ایک خالص بدنی دوسری خالص مالی تیسری مالی اور بدنی کا مجموعہ
خالص مالی عبادات جیسے صدقاتِ نافلہ و واجبہ
اس میں نیابت ہر حال میں درست ہے جس کی طرف سے اداکی جائے چاہے وہ زندہ ہو یا نہ ہو کوئی بھی آدمی اس کی طرف سے اس کی اجازت سے زکوۃ ادا کرسکتا ہے۔
مالی اور بدنی عبادت کا مجموعہ جیسے حج
اس میں جس کی طرف سے ادا کیا جارہاہے وہ زندہ اور صاحب استطاعت ہے تو درست نہیں ہے اور اگر زندہ نہیں ہے یا حج پر قادر نہیں ہے تو اس کی طرف سے ادا کرنا درست ہوجائےگا۔
خالص بدنی عبادات جیسےنماز اور روزے
کوئی بھی آدمی دوسرے کی طرف سے قضا نمازیں یا روزے ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی ادا کرنے سے وہ ادا ہو سکتی ہیں، چاہے دوسرا آدمی زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو، البتہ فوت شدہ آدمی کے ذمہ واجب الادا نمازوں کا فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے،
اس کی دو صورتیں ہے
(١)مرنے والے نے وصیت کی ہو
چنانچہ اگر کسی آدمی کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ قضا نمازیں باقی ہوں تو اگر اس نے اپنی قضا نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر لازم ہے کہ اس کے ایک تہائی ترکہ میں سے فی نماز ایک فدیہ ادا کریں، اسی طرح روزے کا بھی حکم ہے، اگر تمام قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تو بہترہے، اگر مکمل ادا نہ ہو تو بقیہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ورثہ کے ذمہ لازم نہیں ہوگا،
(٢) مرنے والے نے وصیت نہ کی ہو
اگر مرنے والے نے فدیہ کی وصیت نہیں کی تو شرعاً ورثاء پران کی نماز اور روزہ کا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر ورثاء ازخود باہمی رضامندی سے یا کوئی ایک وارث اپنی جانب سے ان کی نماز، روزوں کا فدیہ ادا کردیں تو ادا ہوجائے گا اور میت پر بڑا احسان ہوگا، البتہ اس میں بہتر صورت یہ ہے کہ ترکہ تقسیم کردیا جائے پھر جو وارث اپنی خوشی سے فدیہ ادا کرنا چاہے وہ ادا کردے ۔
"(العبادة المالية) كزكاة وكفارة (تقبل النيابة) عن المكلف (مطلقاً) عند القدرة والعجز ولو النائب ذمياً؛ لأن العبرة لنية الموكل ولو عند دفع الوكيل (والبدنية) كصلاة وصوم (لا) تقبلها (مطلقاً، والمركبة منهما) كحج الفرض (تقبل النيابة عند العجز فقط)".(شامی٢/٥٩٧)
مسئولہ سورت میں سارے وارثین اپنی رضامندی سے فدیہ ادا کرنا چاہے تو ادا کرسکتے ہیں بشرطیکہ کہ سب بالغ ہوں اگر کوئی نابالغ ہے اور اس کے حصہ میں کمی ہوتی ہے تو درست نہیں ہوگا، البتہ تقسیم ترکہ کے بعد بالغ وارثین کے لئے گنجائش ہے کہ وہ فدیہ ادا کریں۔
فدیہ کی مقدار
ایک روزے اور ایک نماز یا ایک روزہ کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گیہوں یا اس کا آٹا یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔ فدیہ کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے یعنی مسلمان فقیر جو صاحبِ نصاب بھی نہ ہو، لہذا ورثاء ان کی نماز اور روزوں کا اندازہ لگاکرفدیہ اداکرناچاہیں تو مذکورہ طریقے پر ادا کرسکتے ہیں۔
نماز روزوں کا اندازہ
مرحوم کے ذمہ واجب الادا حنمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد معلوم نہ ہو اور فدیہ ادا کرنا چاہیں تو ایک محتاط اندازہ لگالیں، اور میت کی عمومی عادت کو بھی دیکھا جائے کہ نماز کی ادائیگی کی کتنی پابندی کرتے تھے، بیماری کے ایام کے معمولات کا جائزہ لیا جائے، پھر اندازے سے تعداد مقرر کرلی جائے۔
اور احتیاطاً کچھ زیادہ شمار کر کے ادا کرنا چاہیے، اگر یک مشت نہ ہوسکے تو تھوڑا تھوڑا کرکے وقتاً فوقتاً ادا کرتے رہیں۔
"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر)"(شامی٢/٧٢)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله". (١/١٢٥، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، ط؛ رشیدیه)
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:
"وعليه الوصية بما قدر عليه وبقي بذمته فيخرج عنه وليه من ثلث ما ترك لصوم كل يوم ولصلاة كل وقت حتى الوتر نصف صاع من بر أو قيمته وإن لم يوص وتبرع عنه وليه جاز ولا يصح أن يصوم ولا أن يصلي عنه". (ص: ١٦٧، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، فصل فی اسقاط الصلاۃوالصوم،ط:المکتبۃ العصریہ)
حیلہ اسقاط کن حضرات کے لئے مشروع ہے
بعض فقہاء نے حیلۂ اسقاط کو ایسے شخص کے لیے تجویز فرمایا تھا جس کی کچھ نمازیں اورروزے وغیرہ اتفاقی طورپرفوت ہوگئے ہوں، پھر اسے قضا کرنے کا موقع نہ ملا ہو اور اس نے موت کے وقت فدیہ کی وصیت تو کی ہو، لیکن مرحوم نے اتنا ترکہ نہ چھوڑا ہو کہ جس کے ایک تہائی سے اس کی تمام فوت شدہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کیا جاسکے۔
حیلہ اسقاط کا طریقہ
کسی ایسے آدمی کا انتقال ہوجائے جس کے پاس ترکہ میں بہت کم رقم موجود ہے اور اس نے نماز روزوں کے فدیہ کی وصیت کی ہے اور اتنی رقم سے نماز روزوں کا فدیہ ممکن نہیں ہے۔ اور ورثاء کے پاس بھی گنجائش نہیں ہے۔ کہ وہ اداکر سکیں تو فقہاء نے حیلہ اختیار کرنے کی گنجائش ذکر کی ہے، اور اس کی جائز صورت یہ ہے کہ:
ورثاء فدیے کی نیت سے کچھ رقم کسی مستحق زکوٰۃ فقیر کو دے کر اس کو رقم کا اس طور پر مالک بنا دیں کہ اگر وہ اس رقم کو خود استعمال کرنا چاہے تو ورثاء برا نہ مانیں، اور اس مستحق کو معلوم ہو کہ اگر میں یہ رقم مرحوم کے ورثاء کو نہیں دوں گا، تو انہیں واپس لینے کا اختیار بھی نہیں ہے، اس کے باوجود اگر وہ مستحق بغیر کسی دباؤ کے اپنی خوشی سے وہ رقم ورثاء کو واپس کر دے، اور پھر ورثاء اس مستحق کو یا کسی اور مستحق کو اسی طریقے کے مطابق دے دیں، وہ بھی اپنی خوشی سے انہیں واپس کر دے، اس طرح بار بار ورثاء یہ رقم کسی مستحق کو دیتے رہیں اور وہ اپنی خوشی سے واپس کرتا رہے، یہاں تک کہ مرحوم کی تمام نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا ہوجائے، تو اب وہ رقم آخر میں جس مستحق شخص کو ملے گی وہی رقم کا مالک ہوگا اور اسے اس رقم کو خرچ کرنےکا مکمل اختیار ہوگا، آخر میں ورثاء کو وہ رقم لینے کی اجازت نہیں ہے۔
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ : (ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة(وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله) ولو لم يترك مالا يستقرض وارثه نصف صاع مثلا ويدفعه لفقير ثم يدفعه الفقير للوارث ثم وثم حتى يتم.(شامی، ٢/ ٧٢)
لہذا مجوزہ حیلہ اسقاط میں جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں:
(١) میت اور ورثا کا غریب ہونا کہ مال سے فدیہ ذمے سے ساقط نہ ہوسکتا ہو۔
(٢) میت کے مال میں سے اگر کیا جائے تو تمام بالغ ورثا اس پر دل سے راضی ہوں۔
(٣) اگر کوئی نابالغ وارث بھی ہے تو اس کے حصے میں سے اس رقم سے کوئی کمی نہ ہونے پائے، بلکہ جو بالغ ورثا یہ حیلہ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے اپنے حصوں سے ادا کریں۔
(٤) جس کو یہ مال دے رہے ہیں وہ مستحق ہو۔
(٥) اس مستحق فقیر کو اس مال کا مالک بناکر اس پر قبضہ دیا جائے۔
(٦) جس فقیر کو دیا جاتا ہے اس کا اپنی مرضی اور دلی رضا مندی سے اس مال کا میت کے ورثا کو ہبہ کرنا بھی ضروری ہے۔اس پر کوئی زور زبردستی نہ کی جائے۔
علامہ شامی رقم طراز ہیں
“لومات و علیہ صلوات فائتۃ واوصیٰ بالکفارۃ یعطی لکل صلوۃ نصف صاع من بر کالفطرۃ وکذا حکم الوتر والصوم‘ وانما یعطی من ثلث مالہ‘ ولو لم یترک مالا یستقر من وارثہ نصف صاع مثلاً و یدفعہ‘ الفقیر ثم یدفعہ الفقیر للوارث ثم و ثم حتی یتم ( قال فی الشامیہ) ثم ینبغی بعد تمام ذالک کلہ ان یتصدق علی الفقراء بشئ من ذالک المال او بما اوصیٰ بہ المیت ان کان اوصیٰ” (شامی ۲/۷۴ ط سعید)
اسی طرح البحر میں ہیں
“وإن لم يترك مالا تستقرض ورثته نصف صاع ويدفع إلى المسكين ثم يتصدق المسكين على بعض ورثته ثم يتصدق ثم وثم حتى يتم لكل صلاة ما ذكرنا ولو قضاها ورثته بأمره لا يجوز وفي الحج يجوز” (البحر الرائق: کتاب الصلوٰۃ،باب قضاء الفوائت،ص ٣٣)
حیلہ اسقاط کا حکم
عوام میں مال کی حرص اور لالچ کی بنا پر اس کی طرف رجحان زیادہ دیکھاجاتا ہے، حالآنکہ فقہاء نے صرف غریب میت کے لیےاس کی اجازت دی تھی،اور فقہائے کرام نے اس حیلے کو چند شرائط کے ساتھ مشروط کیا ہے، جن کا عام طور پر کوئی خیال نہیں رکھا جاتا، اور یہ سب ایک طے شدہ معاملے کے مطابق کیا جاتا ہے، جسکی وجہ سے یہ مروجہ حیلہ اسقاط ناجائز ہے، کیونکہ اس میں چند مزید خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں کہ عوام کا عقیدہ فاسد ہو جاتا ہے، اس رسم کے بڑھانے سے عوام دلیر ہو جاتی ہے کہ نماز، روزہ سب حیلہ اسقاط سے ساقط ہو جائیں گے،اور پھر جن شرائط اور آداب کی رعایت رکھتے ہوئے اس کی اجازت تھی ان کا بھی قطعاً خیال نہیں رکھا جاتا ہے،
حیلہ تملیک کی صورت کے سلسلہ میں بحث کرتے ہوئے فتاوی دارالعلوم دیوبند٤/١٢٧ پر لکھا ہے کہ ’’یہ حیلہ اس وقت حیلہ شمار ہوتا ہے جب کہ واقعی تملیک ہو، اور مروجہ حیلۂ تملیک میں واقعی تملیک نہیں ہوتی، اور حیلۂ اسقاط عبادت میں مفتیان کرام یہ فتویٰ دے چکے ہیں کہ وہ محض ڈھونگ ہے، اس سے نماز، روزے معاف نہیں ہوتے، کیونکہ اس میں واقعی تملیک نہیں ہوتی،
علامہ شامی ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں۔
"وبه ظهر حال وصایا أهل زماننا ، فإن الواحد منکم یکون في ذمته صلوات کثیرة وغیرها من زکاة وأضاح وأیمان، ویوصي لذلك بدراهم یسیرة، ویجعل معظم وصیته لقراءة الختمات والتهالیل التي نص علماؤنا علی عدم صحة الوصیة بها" (الشامية، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، مطلب في بطلان الوصیة بالنخمات والتهالیل، (شامی زکریا ۲/۵۳۴)
لہذا ورثاء کی ناداری کی بنا پر اور مالی گنجائش نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ تفصیلی شرائط کے ساتھ حیلہ کرنے کی گنجائش ہے، ورنہ حیلہ اسقاط درست نہیں ہے۔ ( مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: مفتی شفیع رحمہ اللہ کا رسالہ"حیلہ اسقاط" جو جواہر الفقہ کے نئے طبع کی جلد اول میں شامل ہے، اور نظام الفتاوی ص ۱۱۷ ج٦)
فقط والسلام: واللہ اعلم بالصواب
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا