پیر، 26 اپریل، 2021

افطاری سے پہلے دعاء کرنا مسنون ہے یا افطاری کے بعد مفتی آصف گودھروی

 سوال

اسلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

افطاری کے وقت دعامانگےجانے کی تحقیق، دعا کا وقت کون سا ہیں، افطاری سے پہلے یا افطاری کے وقت ہونے پر، کیونکہ افطاری سے پہلے غروب آفتاب کا بھی وقت ہے، اکثر یہاں دیکھا گیا ھیکہ  افطاری کےپہلے ہی دعا مانگتے ہیں؟ مفصّل و مدلل جواب مطلوب ہو، سحری اور افطاری کی دعا احادیث کی روشنی میں مطلوب ہو

 ساںٔل: محمد صابر ممبئ

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

غروب کے وقت دعاء

غروب آفتاب کے وقت دعاء کی بڑی تاکید وارد ہوئی ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ ہمیں مغرب کی اذان کے قریب دعا کرنے کا حکم دیا جاتا تھا۔

 وعن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما أنہ قال: کنا نؤمر بالدعاء عند أذان المغرب۔ (مشکوٰة المصابیح)

افطار کے وقت دعاء کرنا

روزہ دار انسان جب دعا کرتا ہے تو اللہ اس کی دعا کو رد نہیں فرماتا ہے

سنن بیہقی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ثلاث دعوات مستجابات دعوة الصائم، ودعوة المظلوم، ودعوة المسافر تین قسم کی دعائیں قابل قبول ہوتی ہیں روزہ دار کی دعا، مظلوم کی دعا اور مسافر کی دعا۔

نیزایک اور حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إن للصائم عند فطره دعوة لا ترد افطار کے وقت روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی اس سے پتا چلتا ہے کہ افطاری کے وقت دعا کرنا عند اللہ محبوب اور پسندیدہ ہے؛ لہذا اس وقت پوری توجہ و آداب کے ساتھ خوب  دعا مانگنی چاہیے، 

اور غروب شمس کے وقت افطاری سے قبل عاجزی وانکساری ہوتی ہے اور تذلل کے ساتھ ساتھ وہ روزے سے بھی ہے اور یہ سب کے سب دعا کے قبول ہونے کے اسباب ہیں اور افطاری کے بعد تو انسان کا نفس راحت اور فرحت وخوشی میں ہوتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ غفلت میں پڑ جائے۔

 عن عبدالله بن عمرو للصّائمِ عندَ فطرهِ دعوةً لا تردُّ (معجم الشيوخ ابن عساكر١‏/٣٠٧) 

عن عبدالله بن عمر لكلِّ عبد صائمٍ دعوةٌ مستجابةٌ عندَ إفطارِه أُعطِيها في الدنيا أو ادُّخِرَتْ لهُ في الآخرةِ (الجامع الصغير السيوطي ٧٣٠٦)

ثلاثةٌ لا تُردُّ دعوتُهُم: الصّائمُ حينَ يُفْطِرَ وفي روايةٍ صحيحةٍ: حتّى يُفْطِرَ والإمامُ العادلُ ودعوَةُ المظلومِ يرفعُها اللَّهُ فَوقَ الغمامِ وتُفتَحُ لَها أبوابُ السَّماءِ ويقولُ الرَّبُّ: وعزَّتي لأنصرنَّكِ ولَو بعدَ حينٍ (الزواجر الهيتمي المكي ١‏/١٩٧ )

افطار کے وقت کی دعائیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افطار کے وقت کی دعائیں جو احادیث کی کتابوں میں منقول ہیں۔

''عن معاذ بن زهره أنه بلغه أن النبي صلی الله علیه وسلم کان إذا أفطر قال: اللّٰهم لک صمت وعلی رزقک أفطرت'' (سنن أبي داؤد، کتاب الصیام، باب القول عند الأفطار، النسخة الهندیة ۱/۳۲۲، دارالسلام)

ترجمہ:اے اللہ!میں نے تیرے ہی واسطے روزہ رکھا اورتیرے ہی رزق سے افطارکیا۔

وبک آمنت کا اضافہ

اور اس دعا میں وبک آمنت وعلیک توکلتُ کا اضافہ جامع الرموز میں قہستانی نے ذکر کیا ہے۔ (کتاب الصوم قبل فصل الاعتکاف: ص۱۶۴)

لیکن  ملا علی قاری رحمہ اللہ نے ''مرقاۃ المفاتیح'' (٤/٤٢٦ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) میں اورحضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ نےحصن حصین مترجم (ص٢١٤) کے حاشیہ میں اس اضافہ کو بے اصل قرار دیا ہے اور حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ نے جواہر الفقہ (٣/۵۲۲ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) میں صرف مسنون الفاظ ذکر فرمائے ہیں۔لہذا صرف مسنون الفاظ پر اکتفا ہی بہترہے۔ البتہ اگر اسے مسنون دعا کا حصہ نہ سمجھتے ہوئے پڑھ لے تو اس کی گنجائش ہے اس سے منع نہیں کیا جائے گا۔

(ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ (سنن ابی ٢/٢٧٨، بیروت)

ترجمہ:پیاس چلی گئی اوررگیں ترہوگئیں اوراللہ نے چاہا تواجرو ثواب قائم ہوگیا۔

مولاناعاشق الٰہی بلندشہری رحمہ اللہ نےتحفۃ المسلمین میں لکھاہے کہ ان میں سے پہلی دعا افطاری کے وقت یعنی افطارسے قبل اوردوسری دعاافطاری کے بعد پڑھنی چاہئے۔(جیساکہ الفاظ احادیث بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ افطاری کے بعدہی پڑھی جائے۔)

اسی طرح اللہ کے رسول سے (يا واسع الفضل اغفرلي) (الحمد لله الذي أعانني فصمت ورزقني فأفطرت) یہ دعاء بھی منقول ہے اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرو سے یہ دعا بھی منقول ہے۔ اللهمَّ إني أسألكَ برحمتكَ التي وَسِعَتْ كلَّ شيٍء أن تغفرَ لي ذنوبي۔

"وورد أنه صلى الله عليه وسلم كان يقول: " «يا واسع الفضل اغفر لي» "، وأنه كان يقول: " «الحمد لله الذي أعانني فصمت ورزقني فأفطرت» اهـ وأما ما اشتهر على الألسنة " اللهم لك صمت وبك آمنت وعلى رزقك أفطرت " فزيادة، (وبك آمنت) لا أصل لها وإن كان معناها صحيحًا". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)

عن عبدالله بن عمرو إنَّ للصائمِ عند فطرِهِ دعوةٌ ما تُرَدُّ وكان ابنُ عمرو إذا أفطرَ يقولُ اللهمَّ إني أسألكَ برحمتكَ التي وَسِعَتْ كلَّ شيٍء أن تغفرَ لي ذنوبي. (تحفة المحتاج ابن الملقن ٢‏/٩٧)


العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: