بدھ، 21 اپریل، 2021

حیلہ کی شرعی حیثیت مفتی آصف گودھروی

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

لوگ روزہ کی حالت میں پیاس سے بچنے کے لئے حیلہ کرتے ہیں جیسے تر کپڑاگلے اور ہونٹوں پر رکھنا، اسی طرح تر کپڑے پہننا، سر کو تر کرنا، اور کلی کرنا وغیرہ، اس حیلہ کا کیا حکم ہے، نیز حیلۂ شرعی کیا ہے عبادات میں حیلہ مطلق جائز ہے یا کسی شرط کے ساتھ مقیدہے؟ مفصل ومدلل جواب مطلوب ہے

سائل :مولوی احمد  ماہی

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

خلاصہ جواب

      مذکورہ سوال میں روزے سے بچنے کے لیے جو حیلہ مذکور ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اس طرح کا حیلہ کرنے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں ہوگا روزہ درست ہوجائے گا۔

    ایسا حیلہ جس میں حرام یا معصیت کا ارتکاب یا ابطال حق اللہ وحق العبد نہ ہو اور وصول الی الحق واجتناب حرام ومعصیت کے خاطرہو تو حیلہ جائز ہے 

    اور اگر حرام یا معصیت کا ارتکاب یا ابطال حق اللہ وحق العبد ہو اور وصول الی الحق واجتناب حرام و معصیت کے خاطر نہ ہو تو حیلہ نا جائز ہے 

تفصیلی جواب

         روزے کی حالت میں پیاس سے بچنے کہ لیے حیلہ کی جو صورتیں بیان کی ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ ان میں سے کسی بھی صورت میں دخول ماء متحقق نہیں ہو تا۔ شامی میں لکھا ہے کہ منافذ اصلیہ سے دخول متحقق ہو گا تب ہی وہ مفطرہوگا

’’والمفطرانما ہو الداخل من المنافذ‘‘شامی جلد ۳ صـ ۳۶۷

حیلہ کی تعریف

    حیلہ مہارت و تدبیر کو کہتے ہیں،شرعی اعتبار سے گناہ اور حرام سے بچنے کے لئے اور معصیت کا دروازہ بند کرنے اور شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے حلال کو طلب کرنے والے کسی بھی کام کو حیلہ کہتے ہیں، نیز فقہائے کرام کی اصطلاح میں حیلہ حرمت و معصیت سے بچنے کے لئے ایسی خلاصی کی راہ اختیار کرنا جس کی شریعت نے اجازت دی ہو، 

    الحیل جمع حیلۃٍ وھی الحذف فی تدبیر الامور ای تقلیب الفکر حتی یہتدی الی المقصود  واحتال طلب الحیلۃ:قال الحموی والمراد بھاھاھنا  (ای فی جواب الفقہ)ما یکون مختصا شرعا لمن ابتلی بحادثۃ دینیۃ (تلخیلص و تقریب الاشباہ والنظائر مکتبۃ شبکۃ الالوکۃ صفخہ ۴۷)

حیلہ کی دو صورتیں ہیں 

(۱)جائز حیلہ

اس سلسلہ میں خود قرآن مجید کے اندر اللہ تعالی نے حضرت ایوب کو حیلہ کا طریقہ بتایا ہے ،جب  آپؑ نے حالت علالت میں اپنی اہلیہ محترمہ کو سو (۱۰۰)کوڑے مارنے کی قسم کھا لی تھی ،چونکہ آپ کی اہلیہ محترمہ نے انتہائی فراخ دلی سے آپ کی خدمت کی تھی اللہ تعالی نے اس قسم سے بچنے کا حیلہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’وخذبیدک ضغثا فاضرب بہ ولا تحنث (سورہ ص  آیت نمبر۴۴‘‘مفاتیح الغیب میں علامہ فخرالدین رازی رقم طراز ہے ’’ولما کانت حسنۃ الخدمۃلہ لاجرم حلل اللہ یمینہ بأھون شیء علیہ و علیہا‘‘

    نیزاس رخصت کی بقاء کے سلسلہ میں رقم طراز ہے۔’’ وہذہ الرخصہ باقیۃ وعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ اُتِیَ بمخذم خبث بامہ فقال خذواعثکالا فیہ مائۃ شمراخ فاضربوہ بہ ضربۃ‘‘ 

    البحر المحیط میں لکھا ہے کہ’’ فحلل یمینہ بِأھون شیء علیہ وعلیھا لِحسن خدمتھا ایاہ ورضاہ عنھا‘‘ پھر آگے لکھتے ہیں ۔’’وقد وقع مثل ھذہ الرخصۃ فی الاسلام‘‘

     حضرت مفتی شفیع صاحب اپنی مایۂ ناز ’’تفسیر معارف القران ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ کسی نا مناسب یا مکروہ بات سے بچنے کے لیے کوئی شرعی حیلہ اختیار کیا جائے تو و ہ جائز ہے، پھر اس واقعہ سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ یعنی حضرت ایوبؑ کا واقعہ حیلہ کے جواز پر دلالت کرتا ہے ،حضرت مفتی شبیر احمد عثمانی اسی واقعہ کے تحت رقمطراز ہے کہ جو حیلہ حکم شرعی کو باطل نہ کرے بلکہ کسی معروف کا ذریعہ بنتا ہو اسکی اجازت ہے نیز احکام القرآن میں بھی اس آیت سے حیلہ کا استدلال کیا ہے۔ 

    دوسری جگہ قرآن پاک میں سورہ یوسف’’ فبدأباوعیتھم قبل وعاء اخیہ آیت ۷۶‘‘حضرت یوسف کے جائز حیلہ کا تذکیرہ ہے فقہائے کرام نے ان آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزامور میں حیلہ کی اجازت دی ہے، جہاں حرام سے محفوظ رہتے ہوئے حلال کی طرف رسائی ممکن ہو ۔

    علامہ سرخسی نے حیلہ کی جائز صورت پر گفنگو کرتے ہو ئے خلاصۂ بحث یوں لکھا ہے کہ’’ فالحاصل ان ما یتخلص بہ الرجل من الحرام او یتوصل الی الحلال من الحیل فہو حسن‘‘ 

(مبسوط سرخسی ۳۰صفحہ ۲۱۰ )

    پس خلاصہ یہ کہ آدمی جس کے ذریعہ حرام سے بچ جائے یا حیلہ کے ذریعہ حلال کی طرف وصولیابی ہو پس وہ اچھاہے ۔أشباہ میں ہے ۔’’وقال أبوسلیمان الجوزجانیؒ وإنما ھو (أی الحیلۃ الجائزۃ فی الشرع)الھرب من الحرام والتخلص منہ حسن‘‘۔(تلخیص وتقریب الاشباہ والنظائر ص ۷۶)

    علامہ ابن نجیم مصری جامع الفتاوی کہ حوالہ سے رقم طراز ہے کہ حرام سے چھٹکارہ مقصود ہو اور توصل الی الحلال ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔’’ وفی العیون وجامع الفتاوی وکل حیلۃ یحتال بھا الرجل یتخلص بھا عن الحرام او لیتوصل بھاالی الحلال فھی حسنۃ وھو معنی ما نقل عن  الشعبی لا باس بالحیلۃ فیما یحل‘‘اور اس میں کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو ،ورنہ درست نہیں ہے۔’’وقال أبوسلیمان الجوزجانیؒ:وھذا کلہ إذا لم یُؤد إلی الضرر بأحدٍ‘‘

تلخیص وتقریب الاشباہ والنظائر ص ۷۶

    حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب اپنی کتاب میںتحریر فرماتے ہیں کہ حیلہ کے معنی مہارت اور تدبیر ہے فقہائے کرام کی اصطلاح میں حرمت و معصیت سے بچنے کے لیے ایسی خلاصی کی راہ اختیار کرنے کا نام ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہو ۔ (حلال و حرام ص ۴۵ /۴۶)

    ان سارے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسا حیلہ کہ جس میںحرام یا معصیت کا ارتکاب یاإبطال حق اللہ و حق العبد نہ ہو اور وصول الی الحق اور اجتناب حرام و معصیت کے خاطر حیلہ جائز ہے،ورنہ جائز نہیں ہے۔

 (۲)نا جائزحیلہ 

    انسان حیلہ کے مزین لبادے میں ملبوس ہو کر حرام اور معصیت کا ارتکاب کرے اور حیلہ کی دیوار کی آڑ میں فرائض سے دور ہو ،اور فرائض کو پامال کرنا شروع کردے، اور ظلم و زیادتی یا کسی کے حق کے ابطال میں حیلہ کا سہارہ لیکر بے باک ہو جائے تو یہ جائز نہیںہے۔

    قران کریم میں سورہ اعراف آیت نمبر ۱۶۳ میں بنی اسرائیل کا تذکیرہ کرتے ہوئے بڑے ملیح انداز میں ناجائز حیلہ کی تردید کی ہے ،جس میں ان کو سنیچر کے دن مچھلیوں کے شکار کرنے سے روکا گیا تھا انہوںنے اس میںحیلہ سے شکار کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے ان پر عذاب خداوندی نازل ہوا۔

    علامہ عبد الماجد دریابادی تفسیر ماجدی میں  اس آیت کے تحت لکھتے ہیں’’ویستدل بعض اھل العلم بقصتہ ھؤلاء المعتدین علی حرمۃ الحیل فی الدین‘‘اس کے بعد آگے لکھتے ہیں: مرشد تھانوی ؒنے فرمایا کے جن حیلوںکا مشروع ہونا فقہاء و حکمائے اُمت سے واردہوا ہے ،وہ احکام شرعی کی تعمیل کے لیے ہے نہ کے ان سے بچنے کے لیے ۔

    علامہ سرخسی مبسوط سرخسی میی رقم طراز ہے ’’انما یکرہ ذالک ان یحتال فی حق لرجل حتی یبطلہ او فی باطل حتی یموھہ او فی حق حتی یدخل فیہ شبھۃ فیما کان علی ھذا السبیل فھو مکروہ ‘‘

(مبسوط سرخسی جلد ۳۰ ص ۲۱۰) 

    علامہ ابن نجیم مصری الاشباہ میں تحریر فرماتے ہے ’’قال ابو سفیان الجوزجانی وھذا کلہ اذا لم یؤد الی الضرر باحد فال فی الفتاوی خانیہ ومذھب علمائنا ان کل حیلۃ یحتال بھا الرجل لابطال حق الغیر او لادخال شبھۃ فیہ فھی مکروھۃ یعنی تحریمھا والعیون وجامع الفتاوی لا یسعہ ذلک‘‘ 

تلخیص وتقریب الاشباہ والنظائر ص۷۶

    مفتی شبیر احمد عثمانی سورہ ص آیت۴۴کی تفسیر میں لکھتے ہے جس حیلہ سے کسی حکم شرعی یا مقصدِ دینی کا ابطال ہوتا ہو وہ جائز نہیں ہے ۔

    مفتی شفیع صاحب عثمانی اسی آیت کے تحت لکھتے ہے کہ اگر حیلہ کا مقصد یہ ہو کہ کسی حقدار کا حق باطل کیا جائے یا کسی صریح فعل حرام کو اس کی روح بر قرار رکھتے ہوئے اپنے لیے حلال کر دیا جائے تو ایسا حیلہ بالکل جائز نہیں ہے ۔اس پوری وضاحت سے یہ بات صاف ہو گیٔ کہ حیلہ کا جواز مقید بالبروالتقوی ہے اگر بالاثم والعدوان ہو تو جائز نہیں ہے۔

 فقط والسلام :واللہ اعلم بالصواب 

العارض آصف بن محمد گودھروی 

خادم: جامعہ تحفیظ القران اسلام پورا 


کوئی تبصرے نہیں: