سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ۔۔۔
مدارس میں عام طور پر إمداد مد زکوۃ سے۸۰ فیصد اور للہ رقم سے۲۰ فیصد ہوتی ہے اور مجموعی افعال اتنے ہوتے ہیں کہ وہ اس للہ کی قلیل مقدارسے پورا کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے تو ایسی صورت میں مدارس والے اس مد زکوۃکو کس طرح سے خرچ کریں،
اسی طرح جو حیلے زکاۃکی حلت کے لئے کئے جاتے ہیں جس کو حیلۂ تملیک کہتے ہیں اس کا شرعی حکم کیا ہے، جیسے آج کل مدارس میں بچوں کے ہاتھ میں پیسے دیکر انہیں اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ آفس میں جمع کروادے، اسی طرح بچوں سے ان کی فیس جمع کروانا۔
نیز تملیک کسے کہتے ہیں اور کیا تملیک زکوۃ میں ضروری ہے یا نہیں اس کو بھی مدلل و مفصل بیان فرمائیں آپ کی مہربانی ہوگی۔
سائل: مولانا وسیم سورتی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
زکوۃ اور دیگر صدقاتِ واجبہ کے مصارف فقراء ومساکین وغیرہ ہیں جن پر تملیکاً خرچ کرنا ضروری ہے، نیز حسبِ تصریح فقہائے حنفیہ اموالِ زکوٰۃ میں تملیک شرط ہے یعنی اس مال کو کسی اہل مصرفِ زکوٰۃ کی ملکیت میں بحیثیتِ تملیک کہ دینا ضروری ہے۔
پہلے زمانے میں جب اسلامی حکومت تھی تو مدارس، مکاتب، مساجد اورخانکاہوں کے جملہ إخراجات کی کفالت اور انتظام حکومت کیا کرتی تھی، لیکن جب اسلامی حکومت زوال پزیر ہوگئی اوردین اور علم دین کی حفاظت کا مسئلہ درپیش ہوا تو حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتویؒ اور آپ کے رفقاء نے آزاد مدارس کی بنیاد ڈالی،
حضرت عابد صاحب دیوبندی نے کسم پرسی کے عالم میں اپنے رومال میں ۳ روپئے ڈال کر عوام کے چندے سے مدارس چلانے کی بنیاد ڈالی اور امت کے عطیات وصدقات سے مدارس چلنا شروع ہوگئے، لیکن وقت کے گذرنے کے ساتھ عطیات کے مقابلہ میں مد زکوٰۃ کی رقوم زیادہ ہوگئی نتیجہ یہ ہوا کہ عطیات کی قلیل مقدار سے مدارس کا مکمل خرچ کا نبھاؤ مشکل ہو گیا تو علماء نے حیلۂ تملیک کی صورتوں کو بیان کیا
حیلۂ تملیک کیا ہے
کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو بلا کسی عوض کے زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنادینا تملیک کہلاتا ہے، اصطلاح میں تملیک کہا جاتا ہے کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو مالک بناکر اس کے واسطے سے کسی ایسے دینی یا رفاہی کام میں خرچ کرنا جہاں زکوٰۃ کی رقم کا شرعا استعمال کرنا درست نہ ہو، اس معنیٰ میں تملیک بلا ضرورتِ شدیدہ مخصوص شرائط کے بغیر درست نہیں ہے۔
اس کی مختلف صورتیں فقہاء نے رقم بند کی ہے
(۱) کسی مستحق زکوٰۃ کو پہلے مدرسہ کی ضروریات بتلادی جائیں، جس کو مدرسہ سے ہمدردی ہو اوراجرو ثواب کے حصول کا مخلصانہ جذبہ بھی ہو، اور وہ اپنی ملکیت کی چیز کو مدرسہ کی ضروریات میں خرچ کرنے پر راضی ہو، اس کو زکوٰۃ کی رقم دی جائے کہ وہ اپنی مرضی سے مدرسہ کو دیدیں اور مفت میں صدقہ کا ثواب حاصل کریں ۔
والحیلۃ لمن أراد ذالک أن یتصدق ینوی الزکوٰۃ علی فقیر،ثم یأمرہ بعد ذالک بالصرف إلی ھذہ الوجوہ،فیکون لصاحب المال ثواب الصدقۃ ولذلک الفقیر ثواب ھذاالصرف۔ التاتارخانیہ جدید ۳/۲۰۸
(۲) مدرسہ کا جتنا ماہانہ خرچ ہو اس کا مکمل خرچ سارے طلبہ پر تقسیم کردیا جائے اور جو مستحق زکوٰۃ طلبہ ہو ان کو مد زکوٰۃ دیکر ان کی فیس جمع کرلی جائے، یہ طریق بہت احسن ہے۔(مستفاد:،فتاوی محمودیہ جدید،۹/۶۰۳)
(۳) کسی مستحق زکوٰۃ طالب علم کو کہا جائے کہ وہ کسی سے یا مدرسہ سے قرض لیکر پھر وہ مدرسے کے کسی مصرف میں خرچ کردے، اس کے بعد مدرسہ والے مد زکوٰۃ کو طالب علم کے حوالے کردے تاکہ وہ اپنا قرض أدا کردے، یہ صورت مدارس والوں کو ایک حد تک معین ومدد گار ہو سکتی ہے۔ اس لئے کہ مد زکوٰۃ غریب طلبہ کی ضروریات کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں یہ قرض والی صورت بہت بے غبار رہے گی۔ کمافی الھندیہ:والدفع إلی من علیہ الدین اولی من للدفع إلی الفقیر کذا فی المضمرات۔ (فتاویٰ ھندیہ،۱۸۸/۱)
(۴) مہتممِ مدرسہ یا ذمہ داران حضرات غریب بچوں کے خرچ کے وکیل بن جائے اور داخلہ فارم میں ایک کالم توکیل کے لئے بھی چھوڑدیا جائے اور بچے سے اس پر دستخط لی جائے کہ میں مدرسہ کے جملہ خرچ کے سلسلہ میں مدرسہ کے مہتمم اور ذمہ داران حضرات کو اپنی زکوۃ وصول کر کے خرچ کرنے کا وکیل بنا تا ہوں۔
فتاوی دارالعلوم میں توکیل نامہ کا مضمون اس طرح سے لکھا ہے۔ "میں حضرت مہتمم صاحب یا ان کے قائم مقام کو اپنی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کا وکیل بناتا ہوں، اور اپنی ضروریات میں خرچ کرنے کا وکیل بناتا ہوں" یہ مہتمم و منتظمین حضرات کو غریب طلبہ کی مکمل کفالت کرنے میں حیلۂ تملیک کے عدم ضرورت تک معین ومددگار بن سکتی ہے۔ ( مستفاد فتاوی دارالعلوم دیو بند ج۱۴/۱۲۷)
(۵) مدرسے کے کسی غریب طالب علم کو مد زکوٰۃ کا مالک بنایا جائے، پھر اس کو کہا جاوے کہ وہ مدرسہ کواپنی خوشی سے ہدیہ کردے، تاکہ وہ مدارس کے عام مصارف میں کام آسکے۔ (مستفاد فتاوی قاسمیہ ج۱۰/۹۵)
اس صورت کے سلسلہ میں بحث کرتے ہوئے فتاوی دارالعلوم دیوبند ٤/١٢٧ پر لکھا ہے کہ ’’یہ حیلہ اس وقت حیلہ شمار ہوتا ہے جب کہ واقعی تملیک ہو، اور مروجہ حیلۂ تملیک میں واقعی تملیک نہیں ہوتی، اور حیلۂ اسقاط عبادت (مروجہ حیلۂ تملیک کی طرح ہی حیلۂ اسقاطِ عبادت ہوتا ہے، یعنی جس طرح طلبہ کو مالک بنا کر حیلۂ تملیک کیا جاتا ہے)میں مفتیان کرام یہ فتویٰ دے چکے ہیں کہ وہ محض ڈھونگ ہے، اس سے نماز، روزے معاف نہیں ہوتے، کیونکہ اس میں واقعی تملیک نہیں ہوتی، اس لئے اربابِ مدارس کے لئے لمحۂ فکر یہ پیدا ہوا کہ اس مخمصہ سے نکلنے کی تدبیر کیا کی جائے؟ پھر اس عبارت کے بعد مسئلۂ توکیل کو بیان کیا ہے گویا انہوں نے اس مروجہ حیلہ کوڈھونگ سے تعبیر کیا ہے۔
بندۂ عاجز کو بھی اس صورت میں زمانۂ طالب علمی سے ہی إختلاف رہا ہے، اور کئی بار اساتذۂ کرام سے بھی تبادلۂ خیال کیا ہے، اس وقت سے لیکر آج تک اسی عدم جواز کی صورت پر شرح صدر ہے، اور اس صورت میں عدم تملیک کا پہلو زیادہ واضح معلوم ہوتا ہے، اس لئے کہ طالب علم کوجو قبضہ کروایا جائے گا وہ اسی إرادے سے لے گا کہ یہ میرا نہیں مدرسہ کا مال ہے، اور مجھے واپس کرنا ہی ہے، اس کا إرادہ تملیک کا ہوتا ہی نہیں ہے۔
حیلۂ تملیک کی یہ ساری صورتیں علماء سے منقول ہیں جس پربھی عمل ہو، احتیاط کے ساتھ ہو، اس کا اہتمام انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، بہت سی انتظامیہ اس سلسلہ میں کافی کوتہ نظری سے کام لیتے ہیں۔
اور بسااوقات اس طرف رہنمائی کرنے والوں کے ساتھ کٹ نظری کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ بعض جگہوں پر راقم الحروف کو بھی اس سے دو چار ہونا پڑا ہے۔
لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ غذاکا حصولِ علم اور تربیت وتقویٰ پر بڑابھاڑی اثر ہوتا ہے، نادانی اور جذبات میں ہم خطاء کرجائیں گے اس کی سزا مظلوم طلباء کو علم کی محرومی اور تربیت کی دوری کی شکل میں ملے گی، اور زکوٰۃ دہندگان کی زکوٰۃ کے نہ ادا ہونے کا بوجھ الگ سے رہے گا، اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
تملیک: دلائل کی روشنی میں
صاحب بدائع نے بدائع الصنائع میں تحریر فرمایاہے کہ، اللہ تعالیٰ نے آتواالزکوٰۃ کا حکم فرمایا، اور ایتاء میں تملیک کے معنیٰ پائے جاتے ہیں، اور اسی وجہ سے اللہ نے زکوٰۃ کو صدقہ سے تعبیر کیا ہے اور تصدق میں تملیک ہے۔
وقد أمراللہ تعالی الملاک بإیتاء الزکوٰۃ لقولہ عزوجل وآتواالزکوٰۃ والایتاء ھو التملیک ولذاسمیٰ اللہ تعالیٰ الزکوٰۃ صدقۃ بقولہ عزوجل إنما الصدقات للفقرآء والتصدق تملیک (بدائع ۲/ ۴۵۶)
اور ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جہاں لام کی إضافت ملاک کی طرف ہو تو وہ ملکیت کے لئے خاص ہوجاتا ہے۔
أما النص فقولہ تعالیٰ إنما الصدقات للفقرآء وقولہ عزوجل فی أموالھم حق معلوم للسائل والمحروم والإضافہ بحرف اللام تقتضی الإختصاص بجھۃ الملک إذا کان المضاف إلیہ من أھل الملک۔ دوسری جگہ إرشاد ہے کہ زکوٰۃ فقیر کو مالک بنانے سے ہی ادا ہوگی۔ فإن الزکاۃ تملیک المال من الفقیر۔ (۲/۲۸۰ بدائع)
صاحب ہدایہ نے ہدایہ میں زکوٰۃ کے مال کومسجد اور کفن دفن میں خرچ کرنے کے عدمِ جواز کے پورے مسئلے کو بیان کرنے کے بعد اس کی وجہ تحریر فرماتے ہیں کہ لإنعدام الملک وھوالرکن۔ (ہدایہ جلد۱/ ۲۲۲)
صاحب فتح القدیر نے بھی صدقہ کی حقیقت کو تملیک سے تعبیر کیاہے۔ لإنعدام التملیک وھوالرکن: فإن اللہ تعالیٰ سماھا صدقۃ،وحقیقۃ الصدقۃ تملیک المال من الفقیر (فتح القدیر۲/۲۷۲)
صاحب بنایہ نے بھی زکوٰۃ میں تملیک کو جزو لاینفک کا درجہ دیاہے۔ لأن الرکن فی الزکوٰۃ التملیک من الفقیر۔ (البنایہ ۳/ ۴۶۲)
صاحب بحر نے بھی البحر الرائق میں زکوٰۃ کے مال کو مسجد اور کفن دفن میں خرچ کرنے کے عدمِ جواز کے پورے مسئلے کو بیان کرنے کے بعد اس کی وجہ تحریر فرماتے ہوئے لکھا ہے ہیں کہ۔ وعدم الجواز لإنعدام التملیک الذی ھو الرکن۔ (البحرالرئق۲/۲۷۲)
شامی میں رفاہی افعال میں خرچ کے عدم جواز کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی وجہ عدم تملیک کو قرار دیتے ہوے رقم طراز ہیں۔ ویشترط أن یکون الصرف (تملیکاً)…وکل مالا تملیک فیہ۔ (شامی ۳/ ۲۹١)
الخلاصۃ الفقہیہ میں بھی تملیک کو اصل کا درجہ دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ، زکوٰۃ بلا تملیک مال درست نہیں ہے، پھر ایک قاعدہ بیان کیا ہے کہ ہر ایسی عبادت جو تملیک سے خالی ہو وہاں زکوۃ دینادرست نہیں ہے۔ والأصل فیہ أن الواجب فیہ فعل الإیتاء فی جزء من المال، ولا یحصل الإیتاء إلا بالتملیک، فکل قربۃ خلت عن التملیک لایجزیٔ عن الزکوٰۃ۔ (الخلاصۃ الفقہیہ ۱ ص۴۵۳)
فقہائے کرام کی ان عبارات سے اتنی وضاحت ضرور ہوجاتی ہے کہ زکوٰۃ میں تملیک یہ شرط کے درجہ میں ہے اس میں بلاضرورتِ شدیدہ کہ کسی بھی طرح کے حیلہ حوالے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
فقط و السلام: واللہ اعلم بالثواب
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں