اتوار، 11 اپریل، 2021

رمضان میں دکانوں اور ہوٹلوں کے کھولنے کا شرعی حکم مفتی آصف گودھروی

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب رمضان کے مہینے میں ہوٹل صبح کھول سکتے ہیں کیا؟ اسی طرح دکانوں کے کھولنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ مفصل مدلل جواب تحریر فرماکر ممنون و مشکور فرمائیں۔

سائل: محمد قاسم بمبئی

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

دکانوں میں بکنے والی اشیاء عام طور پر دوقسم کی ہے

پہلی قسم

ایسے کھانے جن کے متعلق غالب گمان یہ ہو کہ خریدار فوری طور پر اسے کھا لے گا، یا تو اس لئے کہ اس کی بناوٹ ہی اس طرح کی ہوتی ہے کہ اس کو فوری کھالیا جائیے یا پی لیا جائے جیسے کہ گرم مأکولات و مشروبات جنہیں خریدتے ہی تناول کر لیا جاتا ہے یا اس کی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ اسے فوری کھانا پڑتا ہے، مثال کے طور پر: آئس کریم ، جوس، ٹھنڈا سوڈا واٹر، یا ، اسی طرح ایسی میٹھی مصنوعات جنہیں بنانے کے فورا بعد کھا لیا جاتا ہے، یا اسی طرح کی دیگر کوئی بھی کھانے پینے کی چیزیں، تو انہیں رمضان میں دن کے وقت فروخت کرنا مسلمان کیلیے جائز نہیں ہے؛ کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ اسے خریدنے ولا ماہِ رمضان کی حرمت پامال کرتے ہوئے  فوری کھا لے گا،  لہذا گناہ  کے کام میں کسی کی بھی معاونت کرنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ) ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں پر باہمی تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں پر باہمی تعاون مت کرو، اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تعالی سخت عذاب والا ہے۔[ المائدة:2]

دوسری قسم:

کھانے پینے کی ایسی چیزیں جن کے استعمال کا وقت دکاندار کو فروخت کرتے وقت چاہے دن ہو یا رات، معلوم  نہیں ہے کہ خریدار کس وقت کھائے گا، مثلاً: پیک شدہ کھانے کی چیزیں،  ٹافیاں، روٹی یا بریڈ، اسی طرح خشک اناج مثلاً: تیل ، چاول ، دالیں اور پھل فروٹ وغیرہ، اور عام طور پر بازار میں یہی چیزیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں تو مسلمان ان چیزوں کو رمضان میں دن کے وقت فروخت کر سکتا ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے

کیونکہ، اس حالت میں دکاندار کے ذہن میں غالب گمان یہی ہے کہ اسے خریدنے ولا فوری طور پر کھاکرماہِ رمضان کی حرمت پامال کرنے والا نہیں ہے، اوردکاندار کو یہ نہیں معلوم کہ  خریدار نے اسے کس لیے خریدا ہے، ممکن ہے کہ وہ فوری طور پر اسے استعمال کر لے یا کچھ عرصے بعد استعمال کرے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ چیز ہی خراب ہو جائے اور استعمال کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔

جس طرح ان چیزوں کے استعمال  کے لئے ایک عام حکم ہے، اور کوئی شخص یہ بھی حکم نہیں لگا سکتا  کہ خریدار دن میں یا رات کے فلاں وقت میں استعمال کرے گا، تو پھر ان چیزوں کا حکم بھی مطلق اور عام ہو گا

ہوٹلوں کا حکم

رمضان المبارک کے احترام کی خاطر دن کے وقت ہوٹل بند رکھنا ضروری ہے، خواہ کھانے پینے والے کسی بھی مذہب کے ہوں، یہ مبارک مہینہ شعائر ﷲ میں سے ہے، اور شعائر اللہ کا احترام ضروری ہے، البتہ شام کو افطاری سے کچھ پہلے ہوٹل کھولنا، تاکہ لوگ افطاری کی چیزیں مثلاً پکوڑے، سموسے اور دوسری نفیس اشیاء وغیرہ خرید کر اپنے گھر لے جائیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

وقال تعالیٰ: ومن یعظم شعائر اللّٰہ فانھا من تقوی القلوب۔ (سورۃ الحج، رقم الآیۃ: ۳۲)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

کذلک الاعانۃ علی المعاصی و الفجور و الحث علیھا من جملۃ الکبائر (فتاوی عالمگیری، کتاب الشھادات، جلد ٣ /٤٢٠ )

یعنی گناہوں اور برائیوں پر مدد کرنا اور ان پر اکسانا (ابھارنا) جملہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے. اسی طرح فقہی قاعدہ ہے کہ وما كان سببا لمحظور فهو محظور اهـ

مفتی عبد الرحیم صاحب نے فتاویٰ رحیمیہ میں ایک سوال کے جواب کے تحت لکھاہے کہ: ماہِ رمضان المبارک کے احترام کی خاطر دن کے وقت کھانے پینے کی ہوٹل بند رکھنا ضروری ہے ، کھانے پینے والے خواہ کسی بھی مذہب کے ہوں۔" (فتاوی رحیمیہ ج٧/٢٠٦)

فقط والسلام: وللہ اعلم بالصواب

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا


کوئی تبصرے نہیں: