سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کوئی شخص مکمل قرآن حفظ کرکے بھول جائے یا حافظ قرآن نہیں ہے، لیکن کچھ پارے حفظ کیے پھر یاد کرنا چھوڑ دیا تو جو پارے یاد کئے ہیں تو کیا وہ پارے یاد رکھنا ضروری ہے، جس طرح حافظ قرآن کو قرآن یاد نہ رکھنے پر جو وعید ہیں، وہ وعید ان پر بھی صادق آئے گی۔
سائل:ثوبان اسلام پوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
قرآن پاک حفظ کرنے کی توفیق کا ملنا اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے۔ اور قرآن مجید مکمل یا اس کا بعض حصہ حفظ کرنا بہت بڑی سعادت ہے اس سعادت کا حقیقی صلہ تو اللہ جل شانہ آخرت میں عنایت فرمائیں گے مگر اس دنیا میں بھی بڑی بڑی نعمتیں حافظ قرآن کو عطا ہوتی ہیں۔ اور حفظ کرنے کے بعد سستی اور کاہلی کی وجہ سے بھلادینا بہت بڑا گناہ ہے، احادیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔
ہر مسلمان پر بقدر ما یجوز بہ الصلوۃ یعنی اتنا قرآن مجید یاد کرنا کہ جس سے نماز ادا ہوجائے، فرض عین ہے، اور پورا قرآن مجید حفظ کرنا فرض کفایہ ہے۔
قرآن حکیم پڑھ کر بھول جانے پر وعید کا بیان
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عرضت علي أجور أمتي حتى القذأۃ یخرجہا الرجل من المسجد وعرضت علي ذنوب أمتي فلم أر ذنباً أعظم من سورۃ من القرآن أو آیۃ أوتیہا رجل ثم نسیہا۔ (سنن أبي داؤد، الصلاۃ/ باب في کنس المسجد، سنن الترمذي/ أبواب فضائل القرآن)
”حضرت انس بن مالک رضي اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے میری امت کے اَجر و ثواب پیش کئے گئے یہاں تک کہ وہ کوڑا کرکٹ بھی جو آدمی مسجد سے نکالتا ہے (اس کا ثواب بھی پیش کیا گیا)۔ اور مجھ پر میری اُمت کے گناہ پیش کئے گئے تو میں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ قرآن کی کوئی سورت یا کوئی آیت کسی آدمی کو (یاد کرنے کی توفیق) دی گئی اور پھر اس نے اسے بھلا دیا۔“
عنْ سعْد بْن عبادة رضيﷲ عنه قال: قَالَ رسولﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: ما من امْرئ يقْرأالْقرآن، ثم ينساه إلا لقيﷲ عز وجل أجْزم۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب التشديد فيمن حفظ القرآن ثم نسيه،)
”حضرت سعد بن عبادہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن حکیم پڑھنا سیکھ لے پھر اسے بُھلا دے وہ اﷲ تعالیٰ سے اِس حال میں ملاقات کرے گا کہ ا س پر (مرضِ) کوڑھ طاری ہوگا۔“
احناف کے یہاں اس عتاب کے مصداق
مذکورہ احادیث میں قرآنِ مجید بھولنے پر جو وعید آئی ہے احناف کے نزدیک اس سے مراد اس طرح بھول جانا ہے کہ انسان الفاظ کی پہچان ہی بھول جائے اور ناظرہ بھی نہ پڑھ سکے۔
قال العلامة المناوي:قوله:ما من امرئ يقرأ القرآن، يحتمل بحفظه عن ظهر قلب و يحتمل يتعود قرأته نظرة في المصحف أو تلقينا ويدل للأول بل العينه، قوله: ثم ينساه إلا لقي الله يوم القيامة وهو أجزم (فيض القدير ۵۷۲/۵)
اسی طرح بذل المجہود میں ہے
والنسيان عندناأن لايقدر بالنظر (بذل المجهود ملتان ۲٤۹/۱ )
اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے
إذا حفظ الإنسان القرآن ثم نسیہ فإنہ یأثم، وتفسیر النسیان أن لا یمکنہ القراءۃ من المصحف۔(۵/۳۱۷، کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح وقراء ۃ القرآن الخ)
اسی طرح ملا علی قاری مشکوۃ کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں۔
والنسيان عندنا أن لا يقدر أن يقرأ بالنظر كذا في شرح شرعة الإسلام .(مرقاۃ المفاتیح، باب المساجد و مواضع الصلاۃ، حدیث نمبر: ٧٢٠، ٢/٦٠٢ )
نسیان ( کا معنی) ہمارے ہاں یہ ہے کہ وہ ناظرہ قرآن پڑھنے پر بھی قادر نہ رہے ( یعنی دیکھ کر پڑھنا بھی بھول گیا) جیسے کہ شرعۃ إسلام ( کتاب) میں ہے.
کتاب النوازل میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضرت مفتی سلمان منصورپوری تحریر فرماتے ہیں۔ کہ قرآن کریم حفظ یاد کرنے کے بعد جو شخص غفلت اور لا ابالی پن کی وجہ سے ناظرہ تک پڑھنا بھول جائے، وہ احادیث کی وعید کا اولین مستحق ہے، تاہم جو شخص ناظر تو پڑھ سکتا ہو لیکن حفظ بھول جائے تو اس کی محرومی میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے البتہ تجوید وغیرہ کے قواعد کا بھول جانا اس وعید میں داخل نہیں ہے۔(کتاب النوازل ٢/٢٨٧)
خلاصہ کلام
قرآن کریم کو مکمل حفظ کرنے والے یا بعض حصہ کو یاد کرنے والے دوقسم کے ہے
(١) وہ حضرات جو ذہنی سطح کے اعتبار سے اعلی ہے۔ لیکن اپنی کوتاہی، سستی اور غفلت کی وجہ سے بھول جائے‘ قرآنِ مجید کی تلاوت ترک کر دے تو بلاشبہ وہ ان روایات اور عتاب کے دائرہ میں شامل ہوگا اور سخت گناہگار ہوگا۔ کیونکہ اس نے قرآن مجید کیساتھ تعلق توڑ دیا اور کلام اللہ کی اہمیت کا عملاً انکار کر دیا۔
(٢) ذہنی سطح بالکل صفر ہے لیکن فکر مند ہے اور تسلسل سے وہ قرآن کو وقتاً فوقتاً یاد کرتا رہتا ہے۔ خود کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتا لیکن بشری کمزوری کی وجہ سے بھول جاتا ہے، تو کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اس صورت میں بھی وہ قرآنِ مجید کی تلاوت ترک نہ کرے، بھول جانے والے حصے کو بار بار یاد کرنے کی کوشش کرتا رہے۔
لہذا جو شخص اپنی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے قرآنِ کریم اتنا بھول جائے کہ بالکل نہ پڑھ سکے وہ اس وعید میں شامل ہے، جو شخص مسلسل اپنی محنت اور عزم سے قرآن کریم کو یادکرتا رہے اور حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے اگر پختگی مضبوط نہ رہ سکی تو امید ہے کہ ان شاء اللہ اس وعید سے محفوظ رہے گا۔
فقط والسلام: واللہ اعلم بالصواب
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں