چاندی کی انگوٹھی کی مقدار اور اس کا شرعی حکم مفتی آصف گودھروی
سوال
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
محترم حضرات ۱ مسئلہ کا تشفی بخش جواب مطلوب ہیں۔
(١) مرد کو انگوٹھی پیہننے کے بارے میں شریعت کیا کہتی ھے؟ (٢) وزن کتنا ھو؟ (٣) شرعی وزن سے زیادہ ھو تو نماز کے علاوہ پہن سکتے ھے؟ (٤) ( یہ خاص بات )نگینہ ایک ہی ہونا چاہئے یا زیادہ کا بھی جواز ھے؟ (٥) اور بھی کوئ تفصیل ہو تو ارسال فرمائیں .
سائل: حمید ابن مولانا لقمان اسلامپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
(١) مردوں کے لیے صرف چاندی کی ایک خاص مقدار کی انگوٹھی کا پہننا جائز ہے، سنت یا مستحب نہیں ہے؛ بلکہ بلا ضرورت نہ پہننا بہتر ہے،
قال في الدر المختار: وترکُ التختم لغیر سلطان والقاضي أفضل قال الشامي ... قول المصنف أفضل کالہدایة وغیرہا یفید الجواز (شامي ٩/٥٢٠)
اس کے علاوہ کسی اور دھات کی انگوٹھی کا استعمال جائز نہیں ہے،
(٢) ایک مثقال سے کم وزن چاندی کی انگوٹھی مردوں کے لیے حلال اور جائز ہے۔ ایک مثقال ساڑھے چار ماشہ یعنی٤گرام، ٣٧٤ملی گرام ہوتاہے۔
ذكر في الجامع الصغير وينبغي أن تكون فضة الخاتم المثقال، ولا يزاد عليه وقيل: لا يبلغ به المثقال وبه ورد الأثر، كذا في المحيط." (الفتاوى الهندیہ ج،٥,ص:٣٣٥, دار الفكر)
(٣) شرعی وزن سے زیادہ ہو تو اس کو کسی صورت میں پہننا جائز اور درست نہیں ہے، اس میں نماز اور غیر نماز کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔
" (ولايتحلى) الرجل (بذهب وفضة) مطلقاً، (إلا بخاتم ومنطقة وحلية سيف منها) أي الفضة ... (ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ... ولايزيده على مثقال" (شامی٩/٥١٦):
(٤) ایک چاندی کی انگوٹھی ایک نگ کی پہننا جائز ہے دو(٢) یا دوسے زیادہ نگ والی انگوٹھی پہننا حرام ہے۔
إنما يجوز التختم بالفضة لو على هيئة خاتم الرجال أما لو له فصان أو أكثر حرم۔ (شامی٩/٥٢١ )
(٥) مردوں کے لئے چاندی کے علاوہ کسی بھی دھات سونا، پیتل، تانبا، لوہا و غیرہ کی انگوٹھی پہننا جائزنہیں ،اسی طرح پتھر کی انگوٹھی بھی مردوں کے لئے جائز نہیں۔ اورعورتوں کے لیے سونے اور چاندی دونوں قسم کی انگوٹھی پہننا جائز ہے، اور ان کے لیے انگوٹھی میں سونے یا چاندی کی کوئی خاص مقدار بھی متعین نہیں ہے۔
"وفي الجامع الصغير: ولا يتختم إلا بالفضة، وهذا نص على أن التختم بالحجر والحديد والصفر حرام. ورأى رسول الله عليه الصلاة والسلام على رجل خاتم صفر فقال: "مالي أجد منك رائحة الأصنام". ورأى على آخر خاتم حديد فقال: "مالي أرى عليك حلية أهل النار" ومن الناس من أطلق الحجر الذي يقال له يشب؛ لأنه ليس بحجر، إذ ليس له ثقل الحجر، وإطلاق الجواب في الكتاب يدل على تحريمه." (وفي الهداية: ج:٤ص:٤٦٧ دار احياء التراث العربي)
البتہ عورتوں کے لیے بھی سونے اور چاندی کے علاوہ دھات کی انگوٹھی کا پہننا جائز نہیں ہے، ہاں اسے ڈھلواکر انگوٹھی کے علاوہ دیگر زیور بناکر خواتین استعمال کرسکتی ہیں۔
والتختم بالحدید والصفر والنحاس والرصاص مکروہ للرجال والنساء ۔ (شامی:۹/٥١٨)
یہ ساری تفصیل انگوٹھی کے حلقے سے متعلق ہے۔جہاں تک انگوٹھی کے نگینہ کی بات ہے چاندی کے علاوہ کوئی بھی قیمتی پتھر عقیق یاقوت ہیرے اور سونے کےسوا باقی دھاتوں کا بھی لگانا درست ہے۔
والعبرة بالحلقة من الفضة لا بالفص فیجوز من حجر و عقیق و یاقوت وغیرہا . (الدر المختار مع الشامي، ج٩ ص٥١٩)
مرد انگوٹھی کا نگینہ اندرون کف یعنی ہتھیلی کی طرف رکھے گا اور عورت کے لئے چونکہ زینت ہے اس لئے وہ اوپر کی طرف رکھے گی۔
اسی طرح انگوٹھی بائیں ہاتھ کی چھنگلی میں یعنی بائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی میں پہننا افضل ہے۔ اور فقیہ ابواللیث ثمرقندی نے اس کو عرف پر محمول کیا ہے،
( ويجعله ) أي الفص لبطن كفه، بخلاف النسوان لأنه تزين في حقهن . هداية قوله : (في يده اليسرى) وينبغي أن يكون في خنصرها دون سائر أصابعه ودون اليمني،ذخيرة قوله:(فيجب التحرز عنه)عبارة القهستاني عن المحيط:جاز أن يجعله في اليمني إلا أنه شعار الروافض اه. ونحوه في الذخيرة، تأمل قوله:ولعله كان وبان) أي كان ذلك من شعارهم في الزمن السابق، ثم انفصل وانقطع في هذه الأزمان، فلا ينهى عنه كيفما كان. وفي غاية البيان: قد سوی الفقيه أبو الليث في شرح الجامع الصغير بين اليمين واليسار، وهو الحق لأنه قد اختلفت الروايات عن رسول الله في ذلك، (شامی:۹/٥١٩)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی میں ایک قیمتی پتھر تھا جو حبش سے لایا گیا تھا۔ عن أنس بن مالک قال کان خاتم النّبي صلی اللّہ علیہ وسلم من ورق وکان فصّہ حبشیًا (أي حجرًا منسوبًا إلی الحبش لأنہ معدنہ) والحدیث رواہ الشیخان ایضًا عنہ.
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آپ کی انگوٹھی میں عقیق کا نگینہ تھا، بعض لوگوں نے کہا کہ مہرہ تھا، جس میں سفیدی اور سیاہی تھی، لیکن یہ دونوں اقوال ضعیف ہیں۔ (ملخصاً جمع الوسائل لملا علی القاری: ١٦٩)
انگوٹھی میں چاندی کی مقدار ایک مثقال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیےاور مثقال کے موجودہ وزن کے بارے میں کچھ اختلاف ہے۔اتنی بات تو متفق علیہ ہے کہ مثقال کا وزن سو(١٠٠)جو کے برابر ہے۔ حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نےاپنی شہرہ آفاق تصنیف جواھر الفقہ کی تیسری جلد میں اس مسئلے کی مفصل تحقیق ذکر کی ہے۔ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق سو جو کا وزن تقریبا پانچ ماشہ بنتا ہےاورچونکہ ایک ماشہ میں آٹھ رتی ہوتی ہیں، اس لئے مزید احتیاط کے لئے جب مفتی صاحب نے مثقال کا وزن رتی کے حساب سے بھی کرنا چاہا تو اس کا وزن ٣٦ رتی کے برابر نکلاجوکہ ساڑھے چار ماشہ کے برابر بنتاہے اور یہی وزن جمہور کے نزدیک بھی راجح ہے۔لہذا انگوٹھی میں چاندی کی مقدار کا خلاصہ یہ ہوا کہ احتیاط اسی میں ہے کہ ساڑھے چار ماشہ (٤گرام ٣٧٤ملی گرام) سے زیادہ وزن کی انگوٹھی نہ ہو۔
فقط والسلام: واللہ اعلم بالصواب
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں