سوال
السلام عليكم ورحمةالله و برکاتہ
حضرت آپ بخیر وعافیت ہونگے ایک مسئلہ پوچھنا تھا وہ یہ کہ زندہ ہونے کی حالت میں اپنا کلیجہ دوسرے شخص کو دے سکتے ہے بطور ہدیہ؟ اور جس کو دے رہے ہے اسکی جان خطرے میں ہے تو جیسے خون کو بطور تحفہ دینا جائز ہے اس پر قیاس کرکے اس کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ تو حضرت اس مسئلہ کی پوری تحقیق مطلوب ہے۔
سائل عبد الحسیب اسلامپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اس کو سمجھنے کے لئے دوباتوں کا سمجھنا ضروری ہے۔
(١) انسان کے اعضاء یہ انسان کی اپنی ملک نہیں ہے بلکہ یہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے خود جائز حدود میں ہی استعمال کرنے اور ان سے نفع اٹھانے کا انسان کو حق دیاہے اور جب انسان اپنے اعضاء کا مالک نہیں ہے اور انسانی اعضاء مال بھی نہیں ہیں تو اپنے اعضاء میں سے کسی عضو کو نہ ہبہ کرسکتا ہے اور نہ عطیہ کرنے کی وصیت کرسکتا ہے یعنی اعضائے انسانی کا کسی کو ہبہ و عطیہ کرنا درست نہیں ہے۔
(٢) انسان قابلِ احترام وتکریم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو اس کے بدن سے جدا کرکے دوسرے انسان کودینے میں انسانی تکریم کے خلاف ورزی لازم آتی ہے اسی بناپر فقہاءِ کرام نے علاج معالجہ اور شدید مجبوری کے موقع پربھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قراردیاہے۔
جہاں تک خون کا مسئلہ ہے تو اضطراری حالات اور ضرورتِ شدیدہ کے موقعے پر فقہاءِ نے عورت کے دودھ پر قیاس کرکے اس کے استعمال کی اجازت دی ہے لیکن خون اور انسانی اعضاء میں فرق ہے، خون یہ انسانی جزء ضرور ہے، لیکن اعضاء میں سے نہیں ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ انسان جب مرجاتا ہے، اس کے تمام اعضاء پہلے جس طرح موجود ہوتے ہیں، مرنے کے بعد بھی تمام اعضاءموجود ہوتے ہیں، بخلاف خون کے کیوں کہ خون جزءِ مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے پانی بن جاتا ہے، اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا ۔دوسری طرف ”جگر“ انسانی اعضاء میں داخل ہے، اور عضو کو جز پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے
اسی طرح خون کو دوسرے انسان کے بدن میں منتقل کرنے کے لیے اعضاءِ انسانی میں کانٹ چھانٹ کی ضرورت پیش نہیں آتی، بلکہ انجکشن کے ذریعہ خون نکالا اور دوسرے بدن میں ڈالا جاتا ہے اور جگر میں چیر پھاڑ کانٹ چھانٹ وغیرہ جیسی اور بھی کئی خرابیاں کا موجود ہونا بھی واضح ہے لہذا انسانی جگر کی دوسرے انسان کے جسم میں پیوندکاری جائز نہیں ہے۔
فتاوی عا لمگیری میں ہے
وأما ما يرجع إلى الواهب فهو أن يكون الواهب من أهل الهبة، وكونه من أهلها أن يكون حرا عاقلا بالغا مالكا للموهوب حتى لو كان عبدا أو مكاتبا أو مدبرا أو أم ولد أو من في رقبته شيء من الرق أو كان صغيرا أو مجنونا أو لا يكون مالكا للموهوب لا يصح، هكذا في النهاية۔ (کتاب الھبۃ، الباب الأول في تفسير الهبۃ وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها وفيما يكون هبۃ من الألفاظ وما يقوم مقامها وما لا يكون ٤/٣٧٤ ط: دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
(ولم يبح الإرضاع بعد موته) لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية . وفي البحر لا يجوز التداوي بالمحرم في ظاهر المذهب أصله بول المأكول كما مر۔ (فتاوی شامی ٤/٣٩٧)
شرح سیر الکبیر میں ہے
والآدمي محترم بعد موته على ما كان عليه في حياته. فكما يحرم التداوي بشيء من الآدمي الحي إكْراما له فكذلك لا يجوز التداوي بعظم الميت. قال صلى الله عليه وسلم كسر عظم الميت ككسر عظم الحي (شرح السیر الکبیر ١/٨٩)
فتاوی ہندیہ میں ہے
الانتفاع بأجزاء الآدمي لم يجز قيل للنجاسة وقيل للكرامة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي۔ (فتاوی ہندیہ ۵/٣۵٤ الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات ط: رشیدیہ)
اس سلسلے میں فتاوی بنوریہ کا ایک فتوی ملاحظہ فرمائیں۔
کسی انسانی عضو کا (خواہ زندہ کا ہو یا مردہ کا) دوسرے انسان کے جسم میں استعمال (معاوضہ کے ساتھ ہو یابغیرمعاوضہ کے)مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر جائز نہیں ہے:
(1) اس مقصد کے لیے انسانی جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے جو کہ مثلہ ہے ، اور مثلہ شریعت میں جائز نہیں ہے۔حدیث شریف میں ہے:
"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ جُيُوشَهُ قَالَ: «اخْرُجُوا بِسْمِ اللَّهِ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، لَا تَغْدِرُوا، وَلا تَغُلُّوا، وَلا تُمَثِّلُوا، وَلا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ، وَلا أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ»"۔ (مسند احمد،3/218، ط؛دارالحدیث بیروت)
(2) کسی زندہ حیوان (جس میں انسان بھی شامل ہے) کے جسم سے اگر کوئی جز الگ کردیا جائے وہ مردار اور ناپاک کے حکم میں ہوجاتا ہے،جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے:
"عَنْ أَبِي وَاقِدٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ»"۔ (ابو داؤد،2/48، ح؛2858، ط؛رحمانیہ) عضو کی پیوند کاری کی وجہ سے پوری عمر ایک ناپاک چیز سے جسمِ انسانی ملوث رہے گا۔
(3) کسی چیز کو ہبہ کرنے یا عطیہ کے طور پر کسی کو دینے کے لیے یہ شرط ہے وہ شے مال ہو ، اور دینے والے کی ملک ہو ، اور یہی شرط وصیت کے لیے بھی ہے۔ جیساکہ "فتاوی عا لمگیری" میں ہے:
"وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْوَاهِبِ، فَهُوَ أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ مِنْ أَهْلِ الْهِبَةِ، وَكَوْنُهُ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ يَكُونَ حُرًّا عَاقِلًا بَالِغًا مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ حَتَّى لَوْ كَانَ عَبْدًا أَوْ مُكَاتَبًا أَوْ مُدَبَّرًا أَوْ أُمَّ وَلَدٍ أَوْ مَنْ فِي رَقَبَتِهِ شَيْءٌ مِنْ الرِّقِّ أَوْ كَانَ صَغِيرًا أَوْ مَجْنُونًا أَوْ لَا يَكُونُ مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ لَا يَصِحُّ، هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ. وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْمَوْهُوبِ فَأَنْوَاعٌ، مِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا وَقْتَ الْهِبَةِ فَلَا يَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَوْجُودٍ وَقْتَ الْعَقْدِ ... ومِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَالًا مُتَقَوِّمًا فَلَا تَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ أَصْلًا كَالْحُرِّ وَالْمَيْتَةِ وَالدَّمِ وَصَيْدِ الْحَرَمِ وَالْخِنْزِيرِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، وَلَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُطْلَقٍ كَأُمِّ الْوَلَدِ وَالْمُدَبَّرِ الْمُطْلَقِ وَالْمُكَاتَبِ، وَلَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُتَقَوِّمٍ كَالْخَمْرِ، كَذَا فِي الْبَدَائع"۔ (4 / 374، کتاب الھبہ، ط؛رشیدیہ)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وَشَرَائِطُهَا: كَوْنُ الْمُوصِي أَهْلًا لِلتَّمْلِيكِ) فَلَمْ تَجُزْ مِنْ صَغِيرٍ وَمَجْنُونٍ وَمُكَاتَبٍ إلَّا إذَا أَضَافَ لِعِتْقِهِ كَمَا سَيَجِيءُ (وَعَدَمُ اسْتِغْرَاقِهِ بِالدَّيْنِ) لِتَقَدُّمِهِ عَلَى الْوَصِيَّةِ كَمَا سَيَجِيءُ (وَ) كَوْنُ (الْمُوصَى لَهُ حَيًّا وَقْتَهَا) تَحْقِيقًا أَوْ تَقْدِيرًا لِيَشْمَلَ الْحَمْلَ الْمُوصَى لَهُ فَافْهَمْهُ فَإِنَّ بِهِ يَسْقُطُ إيرَادُ الشُّرُنْبُلَالِيُّ (وَ) كَوْنُهُ (غَيْرَ وَارِثٍ) وَقْتَ الْمَوْتِ (وَلَا قَاتِلٍ) وَهَلْ يُشْتَرَطُ كَوْنُهُ مَعْلُومًا. قُلْت: نَعَمْ كَمَا ذَكَرَهُ ابْنُ سُلْطَانٍ وَغَيْرُهُ فِي الْبَابِ الْآتِي (وَ) كَوْنُ (الْمُوصَى بِهِ قَابِلًا لِلتَّمَلُّكِ بَعْدَ مَوْتِ الْمُوصِي)"۔ (6/649، کتاب الوصایا،سعید)
انسان کو اپنے اعضاء میں حقِ منفعت تو حاصل ہے، مگر حقِ ملکیت حاصل نہیں ہے، جن اموال و منافع پر انسان کو حقِ مالکانہ حاصل نہ ہو انسان ان اموال یا منا فع کی مالیت کسی دوسرے انسان کو منتقل نہیں کرسکتا۔
(4) انسانی اعضاء و جوارح انسان کے پاس امانت ہیں اور انسان ان کا نگران اور محافظ ہے، اور امین کو ایسے تصرفات کا اختیار نہیں ہوتا جس کی اجازت امانت رکھنے والے نے نہ دی ہو، جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وَأَمَّا حُكْمُهَا فَوُجُوبُ الْحِفْظِ عَلَى الْمُودَعِ وَصَيْرُورَةُ الْمَالِ أَمَانَةً فِي يَدِهِ وَوُجُوبُ أَدَائِهِ عِنْدَ طَلَبِ مَالِكِهِ، كَذَا فِي الشُّمُنِّيِّ". (4/338، کتاب الودیعہ، ط؛رشیدیہ)
(5) انسان قابلِ احترام اور مکرم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو اس کے بدن سے الگ کرکے دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے علاج ومعالجہ اور شدید مجبوری کے موقع پر بھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے، چناچہ شرح سیر الکبیر میں ہے:
"وَالْآدَمِيُّ مُحْتَرَمٌ بَعْدَ مَوْتِهِ عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ فِي حَيَاتِهِ. فَكَمَا يَحْرُمُ التَّدَاوِي بِشَيْءٍ مِنْ الْآدَمِيِّ الْحَيِّ إكْرَامًا لَهُ فَكَذَلِكَ لَا يَجُوزُ التَّدَاوِي بِعَظْمِ الْمَيِّتِ. قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِ عَظْمِ الْحَيِّ»" . ( شرح السیر الکبیر(1 /89)
نیز جس طرح کسی زندہ آدمی کے کسی عضو کو لے کر علاج کرنا درست نہیں ہے ،اسی طرح کسی مردہ انسان کے عضو سے بھی علاج کرنا جائز نہیں ہے۔جیساکہ "فتاوی ہندیہ " میں ہے:
"الِانْتِفَاعُ بِأَجْزَاءِ الْآدَمِيِّ لَمْ يَجُزْ، قِيلَ: لِلنَّجَاسَةِ، وَقِيلَ: لِلْكَرَامَةِ، هُوَ الصَّحِيحُ، كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ". (5 / 354، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، ط: رشیدیہ)
یعنی آدمی کے تمام اعضاء سے فائدہ اٹھانے کی حرمت اس کی تکریم و احترم کے پیش ِ نظر ہے، تاکہ جس ہستی کو اللہ تعالی نے مکرم ومحترم بنایا ہے لوگ اس کے اعضاء و جوارح کو استعمال کرنے کی جسارت نہ کریں۔
(6) اگر انسانی اعضاء کی پیوندکاری کو جائز قرار دیا جائے تویہ پوری انسانیت کے لیے ایک بڑاخطرہ اورتباہی کاذریعہ بنےگا،کیوں کہموجودہ زمانہ کے حالات و ماحول اورمعاشرہ میں پھیلی ہوئی بددیانتی کودیکھتےہوئےکوئی بعیدنہیں کہ لوگ اعضاءکی منتقلی کےجواز کے فتووں کابےجااستعمال کرتے ہوئے اسےباقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دے دیں اورانہی اعضاءکواپنا ذریعۂ معاش بنالیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ:
1..بازار میں دیگراشیاءکی طرح انسانی اعضاءکی بھی علانیہ ورنہ خفیہ خرید و فروخت شروع ہوجائےگی، جو بلاشبہ انسانی شرافت کے خلاف اورناجائز ہے۔
۲..غربت زدہ لوگ اپنا اور بچوں کاپیٹ پالنے کے لیے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے اعضاءفروخت کرناشروع کردیں گے۔
۳.. مُردوں کی بے حرمتی اوراُن کے ساتھ ظالمانہ رویّہ شروع ہوجائے گا ، بالخصوص لاوارث مُردےاپنے بہت سے اعضاء سے محروم ہوکر دنیا سے جایا کریں گے، اور یہ بھی بعید نہیں کہ مال و دلت کے لالچی اور پُجاری مدفون لاشوں کو اکھاڑکر اپنی ہوس پوری کرنے لگیں،جیسا کہ مختلف ذرائع سے سننے میں آتا رہتا ہے۔
۴.. خدا نخواستہ یہ معاملہ بڑھتا رہا تو صرف اپنی موت مرنے والوں تک ہی یہ سلسلہ محدود نہیں رہے گا ، بلکہ اس کام کے لیے بہت سے معصوم انسانوں کے قتل کا بازار گرم ہوجانا اور اس مقصد کے لیے اغوا کا شروع ہونا ممکن ہے
جو پورے انسانی معاشرے کی تباہی کا اعلان ہے۔
مذکورہ بالا دلائل کی وضاحت کرتے ہوئے مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ تحریر فرماتے ہیں:
”انسان کے اعضاء و اجزاء انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہیں جن میں وہ مالکانہ تصرفات کرسکے، اسی لیے ایک انسان اپنی جان یا اپنے اعضاء و جوارح کو نہ بیچ سکتا ہےنہ کسی کو ہدیہ اور ہبہ کے طور پر دے سکتا ہے،اور نہ ان چیزوں کو اپنے اختیار سے ہلاک و ضائع کرسکتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کے اصول میں تو خود کشی کرنا اور اپنی جان یا اعضاء رضاکارانہ طور پر یا بقیمت کسی کو دے دینا قطعی طور حرام ہی ہے جس پر قرآن و سنت کی نصوصِ صریحہ موجود ہیں، تقریباً دنیا کے ہر مذہب و ملت اور عام حکومتوں کے قوانین میں اس کی گنجائش نہیں، اس لیے کسی زندہ انسان کا کوئی عضو کاٹ کر دوسرے انسان میں لگادینا اس کی رضامندی سے بھی جائز نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ شریعتِ اسلام نے صرف زندہ انسان کے کارآمد اعضاء ہی کا نہیں بلکہ قطع شدہ بے کار اعضاء و اجزاء کا استعمال بھی حرام قرار دیا ہے، اور مردہ انسان کے کسی عضو کی قطع و برید کو بھی ناجائز کہا ہے، اور اس معاملہ میں کسی کی اجازت اور رضامندی سے بھی اس کے اعضاء و اجزاء کے استعمال کی اجازت نہیں دی، اور اس میں مسلم و کافر سب کا حکم یکساں ہے؛ کیوں کہ یہ انسانیت کا حق ہےجو سب میں برابر ہے۔تکریمِ انسانی کو شریعتِ اسلام نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کسی وقت کسی حال کسی کو انسان کے اعضاء و اجزاء حاصل کرنے کی طمع دامن گیر نہ ہو، اور اس طرح یہ مخدومِ کائنات اور اس کے اعضاء عام استعمال کی چیزوں سے بالاتر ہیں جن کو کاٹ چھانٹ کر یا کوٹ پیس کر غذاؤں اور دواؤں اور دوسرے مفادات میں استعمال کیا جاتا ہے، اس پر ائمہ اربعہ اور پوری امت کے فقہاء متفق ہیں، اور نہ صرف شریعتِ اسلام بلکہ شرائعِ سابقہ اور تقریباً ہر مذہب و ملت میں یہی قانون ہے"۔ (انسانی اعضاء کی پیوندکاری، ص: ۳۶، مصدقہ مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ)
مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ انسانی اعضاء کا استعمال کسی حال میں جائز نہیں ہے، لہذا سائل کے لیے اپنا گردہ اپنے ماموں کو دینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ فقط واللہ اعلم۔ (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : ١٤٣٩٠٩٢٠٠٤٨۵)
صورت مسئولہ زندہ یا مردہ کا کلیجہ دوسرے شخص کو بطور ہدیہ دینا جائز نہیں ہےچاہے جس کو دیا جارہا ہے اسکی جان خطرے میں ہو خون اور اعضاء میں فرق ہے لہذا اعضاء کو بطور تحفہ دینا جائز نہیں ہے اور خون میں ضرورت کے وقت گنجائش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا