اتوار، 31 جولائی، 2022

گھر وغیرہ کے لئے زکوۃ کی رقم لینا سوال نمبر ٣٦١

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اور علماء عظام مسألہ ذیل کے بارے میں، 

مسئلہ یہ ہے کہ  میرے ذمہ فی الحال نہ قرض ہے اور نہ میرے پاس زکوۃ کے نصاب کے بقدر مال ہے، 

اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک جگہ گھر بیچا جارہا ہے جسکی قیمت مثال کے طور پر پانچ لاکھ روپے ہے اور مجھے وہ گھر خریدنا ہے اور گھر کے بارے میں یہ اسکیم ہے کہ دو لاکھ روپے ادا کۓ جاۓ باقی کے پیسے زکوۃ کی رقم سے ادا کر دۓ جائینگے

اب میرے پاس بیس ہزار کے آس پاس رقم ہیں، لھذا میں دو لاکھ روپے کسی کے پاس سے قرض لیکرادا کردوں اور ما بقیہ تین لاکھ روپے ایک ٹرسٹ اور تنظیم ذکوۃ کی رقم سے ادا کردے، تو کیا میرے لئے اس طریقے سے مکان کا خریدنا جائز ہے؟

سائل: محمد شاھد پالن پوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


زکوۃ کے سلسلہ میں دوباتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے

(١) زکوۃ کا وجوب کس پر ہے؟

تو جس کی ملکیت میں مال نامی ہو یعنی وہ مال یاتو سونا چاندی یا مروجہ کرنسی ہو یا مال تجارت ہو لہذا اس کے لئے نیچے دئیے گئے اموال میں سے جس مال کا وہ مالک ہو اس پر زکوۃ واجب ہے بشرطیکہ اس پر قرضہ نہ ہو اگر قرضہ ہے تو اس کو الگ کر کے نصاب کو دیکھا جائے گا، اور جس کے پاس اتنا مال نہیں ہے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔


(١) سونا جبکہ ساڑھے سات تولہ(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔


(٢) چاندی جبکہ ساڑھے باون تولہ ہو(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔


(٣) روپیہ، پیسہ، جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات

 تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے بقدر ہو.


(٤) مالِ تجارت جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے برابر ہو) 


(٢)زکوۃ لینے کا مستحق کون ہے؟

جس کی ملکیت میں مال بقدر نصاب نہ ہو اگر ہے تو چاہے وہ نامی ہو یا نہ ہو یعنی وہ تجارت کے لئے ہو یا تجارت کے لئے نہ ہو اس کے لئے زکوۃ لینا جائز نہیں ہے لہذا اس سلسلے میں اوپر کا جو نصاب بیان کیا گیا ہے اس کا وہ مالک نہ ہو اور اس کے علاوہ زمین جائداد بھی ضرورت سے زائد نہ ہو تو وہ زکوۃ لے سکتا ہے۔


مسؤلہ صورت میں اگر آپ کے پاس بنیادی ضرورت و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر دوسری اتنی اشیاء ملکیت میں نہ ہو جو نصاب تک پہنچ جائے تو آپ کے لئے وہ رقم لینا جائز ہے۔


فتاوی شامی میں ہے۔

لا بأس أن يعطى من الزكاة من له مسكين، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال: كانوا: يعني الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للانسان منها. وذكر في الفتاوى فيمن له حوانيت ودور للغلة لكن غلتها لا تكفيه وعياله أنه فقير ويحل له أخذ الصدقة عند محمد، وعند أبي يوسف: لا يحل، وكذا لو له كرم لا تكفيه غلته، ولو عنده طعام للقوت يساوي مائتي درهم، فإن كان كفاية شهر يحل أو كفاية سنة قيل لا يحل، وقيل يحل لأنه مستحق الصرف إلى الكفاية فيلحق بالعدم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفي التتارخانية عن التهذيب: أنه الصحيح وفيها عن الصغرى له دار يسكنها لكن تزيد على حاجته بأن لايسكن الكل يحل له أخذ الصدقة في الصحيح وفيها سئل محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولاتكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا وعليه الفتوى وعندهما لايحل اهـ ملخصًا۔ (فتاوی شامی ٣/٢٩٦)


الدر المختار میں ہے۔

ومدیون لا یملک نصاباً فاضلاً عن دینہ ، وفی الظھیریة: الدفع للمدیون أولی منہ للفقیر (الدر المختار کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳/۲۸۹)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

جمعہ، 29 جولائی، 2022

عقیقہ کے کیا احکام ہیں؟ وضاحت فرمائیں سوال نمبر ٣٦٠

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

جناب مفتی صاحب عقیقہ کی شرعی حیثیت کیا ہے کب سے کب تک کرسکتے ہیں؟ اور کتنے جانور ذبح کرنا ہے؟ عقیقہ میں لڑکوں کے نام کتنے ہونے چاہئیں اور ایک نام کا ایک بکرا کرلیا تو عقیقہ ہو جایگا؟ عقیقہ لڑکے کاہے۔

سائل عبدالطیف مہوا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


بچے کی پیدائش پر بطورِ شکرانہ جو قربانی کی جاتی ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں، اور اس کا مستحب  وقت پیدائش کا ساتواں دن ہے، اگر ساتویں روز عقیقہ نہ کرسکے تو چودہویں روز کرلے، اور چودہویں روز نہ کیا تو اکیسویں روز کرلے، اور کسی مجبوری کے بغیر اس سے زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ سنن ترمذی میں ہے


صاحب استطاعت افراد کے لیے  اپنے نومولود بچہ کا عقیقہ اس کی زندگی میں پیدائش کے ساتویں دن کرنا، اس کے بال اتروانا، اور اس کے بقدر چاندی یا سونا صدقہ کرنا مستحب ہے، ساتویں دن نہ کرسکیں تو چودہویں دن، پھر اکیسویں دن۔ اس کے بعد اگر کرنا ہے تو پیدائش سے ساتویں دن کی رعایت کرلی جائے، ساتویں دن کے بعد عقیقے کے لیے بال اتروانا ثابت نہیں، اگر عقیقے کے لیے جانور خریدا اور پھر بچہ مرگیا تو اس جانور کا جو چاہے کرے، خوداپنے استعمال میں بھی لاسکتا ہے۔


البتہ شریعت مطہرہ میں عقیہ کے بارے میں کچھ فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ لڑکے کے عقیقہ کے لئے دو چھوٹے جانور ذبح کرنا افضل ہے، جبکہ لڑکی کے لئے ایک چھوٹا جانور ذبح کرنا کافی ہے، لہذا لڑکے کی طرف سے چھوٹا جانور ہے تو دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنا مستحب ہے، تاہم اگر لڑکے کے عقیقہ میں دو چھوٹے جانور کی وسعت نہ ہو تو ایک چھوٹا جانور کرنے سے بھی عقیقہ ہوجائے گا۔


اسی طرح سے اگر بڑا جانور ہے تو لڑکے کی طرف سے دوحصے اور لڑکی کی طرف سے ایک حصہ ذبح کرنے سے بھی عقیقہ ہوجائے گا، اور اگر کئی بچوں کا عقیقہ ایک ساتھ کرنے کا ارادہ ہو تو بڑے جانور میں سات تک حصہ کیے جا سکتے ہیں، اور ہر حصہ ایک چھوٹے جانور کی طرف سے کافی ہوگا، یعنی بچی کے لئے ایک حصہ اور بچے کی طرف سے دو حصے کرنے سے عقیقہ ادا ہوجائے گا۔


سنن ترمذی میں ہے

عن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: الغلام مرتهن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع، و يسمي و يحلق رأسه. قال الإمام الترمذي: و العمل علي هذا عند أهل العلم، يستحبون أن يذبح عن الغلام يوم السابع، فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم إحدي و عشرين (أبواب الأضاحي، باب ما جاء في العقيقة، ١/ ٢٧٨، ط: سعيد) 


مشکاۃ المصابیح میں ہے

عن أم كرز رضی الله عنها ، قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: اقروا الطير على مكناتها، قالت وسمعته يقول: عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة ولايضرکم ذكرانا كن أو إناثا. رواه أبو داود والترمذي والنسائي۔ (مشکاۃ المصابیح ص ٣٦٢ ط قدیمی)


اعلاء السنن میں ہے

أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع (١٧/١١٧ باب العقیقہ، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة)

ایضاً 

عن الربيع بن صبيح عن الحسن البصري إذا لم يعق عنک، فعق عن نفسك وإن كنت رجلا۔ ( ١٧/١٢١ ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة)


فتاوی شامی میں ہے:

يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً۔ (فتاوی شامی ٩/٤٨۵ کتاب الأضحیة، ط: سعید)


العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:

ووقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ، فلا يجزئ قبلها، وذبحها في اليوم السابع يسن، والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة ؛ للتبرك بالبكور۔ (العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية كتاب الشرب، ٢/ ٢١٣، دار المعرفة)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

جمعرات، 28 جولائی، 2022

بے پردہ عورتوں سے تجارت کرنے والے شخص کی امامت کا حکم سوال نمبر ٣۵٩

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

میرا سوال یہ ہے کہ ایک آدمی آن لائن بینکنگ کا کام کرتا ہے اور اس آدمی کے پاس عورتیں بے پردہ ہمیشہ آتی جاتی رہتی ہے ،تو ایسے آدمی کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

سائل: محمد ولی اللہ چوبیس پرگنہ


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قرآن کریم کی آیات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ارشادات سے یہ بات ثابت ہے کہ عورتوں پر پردہ فرض اور بے پردگی حرام ہے البتہ عورت کے لئے مجبوری کے وقت ضرورت کے مطابق باپردہ گھر سے باہر نکلنا جائز ہے تجارت یا کسی بھی ضرورت  کے لئے بے پردگی جائز نہیں ہے، کیونکہ بے پردگی کی صورت  عورت نامحرم مرد دونوں گناہگار ہوتے ہیں، ہاں اگر واقعی مجبوری ہے تو عورت شرعی پردہ کے ساتھ بازار سے سامان  خرید کر لا سکتی ہے اور مرد بھی پردے کا لحاظ رکھتے ہوئے اس سے خریدوفروخت کرسکتا ہے۔


امام صاحب کو بھی پردہ کا لحاظ رکھتے ہوئے عورتوں سے تجارت کرنے کی گنجائش ہے اگر عورتیں بے پردہ ہوکر سامنے آئے تو امام صاحب اپنی نگاہوں کی حفاظت کے ساتھ ان سے تجارت کرسکتا ہے لہذا اس وجہ سے ان کے کردار کو داغدار نہیں کرسکتے لہذا ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے البتہ امام صاحب کو بھی اس کا خیال رہنا چاہئے کہ ان سے پردہ میں تجارت کریں تاکہ ان کی عزت داغدار نہ ہو ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب 


قرآن کریم میں ہے

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا (سورۃ الاحزاب، آیت نمبر: ۵٩)

وفیہ ایضاً:

وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة النور، الایۃ: ٣١)


مشکاۃ المصابیح میں ہے

عن بریدۃؓ رفعہ قال: یا علي! لا تتبع النظرۃ النظرۃ، فإن لک الأولی ولیست لک الآخرۃ (مشکاۃ المصابیح ٢/٩٣٣ ط: المکتب الاسلامی)

وفیہ ایضا

أن رسول صلى الله عليه وسلم قال: «لعن الله الناظر والمنظور إليه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان۔ (مشکاۃ المصابیح ٢/٩٣٦ ط: المكتب الاسلامی)


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

بدھ، 27 جولائی، 2022

قبروں پر موم بتی جلانا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣۵٨

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

لوگ قبرستان جاتے ہیں اور خوشبو والی اگر بتیاں قبروں پرلگاتے ہیں۔یہ عمل جائز ہے ؟

سائل محمد عبداللہ پاکستانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


احادیثِ مبارکہ میں قبرستان میں آگ لے جانے یا قبروں پر چراغ جلانے کی ممانعت آئی ہے رسول کریم نے قبروں پر چراغ جلانے سے سخت ممانعت اور ایسے فعل کے مرتکب پر لعنت فرمائی ہے مشکوۃ شریف میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو مسجد بنا لینے (یعنی قبروں پر سجدہ کرنے والوں) اور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔


اس حدیث کی توضیح کرتے ہوئے صاحب مرعات فرماتے ہیں کہ: یعنی اس حدیث میں صریح ردّ ہے ان قبوریوں کا جو قبروں پر قبے تعمیر کرتے، انھیں سجدہ کرتے ان پر چراغاں کرتے، اور اصحابِ قبور کی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے ان پر پھول چڑھاتے ہیں


اگربتی بھی آگ ہی ہے، اس لیے قبر پر اسے جلانے کی اجازت نہیں ہے اسی طرح قبروں پر اگربتی جلانا احادیث اور شریعت مبارکہ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے نیز اگر بتی جلانے کا عمل اسراف بھی ہے، کیونکہ اس کا مقصد اگر میت کو خوشبو پہنچانا ہے تو اگر وہ مقبول بندہ ہے تو اس کے لیے اپنے اعمال کی خوشبو اور جنت کے جھونکے کافی ہیں اور اگر وہ گناہگار ہے تو اگر بتی سے اس کی قبر کی ظلمت یا بداعمالیوں کی بد بو ختم نہیں کی جاسکتی لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے 


مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے

عن ابن عباس، قال: ’’لعن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم زائرات القبور والمتخذین علیها المساجد والسرج رواه أبوداؤد و الترمذي والنسائي (باب ما جاء في كراهية أن يتخذ على القبر مسجدا۔ ٢/١٣٦ رقم الحدیث ٣٢٠ ط شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)


مرعاۃ المفاتیح میں ہے:

و فیه رَد صریح علی القبوریین الذین یبنون القباب علی القبور و یسجدون الیها و یسرجون و یضعون الزهور و الریا حین علیها تکریما و تعظیما لاصحابها۔ (مرعاۃ المفاتیح ٤۹۸/۱)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

وإخراج الشموع إلی رأس القبور فی اللیالی بدعة (ہندیة: ۵/۳۵۱، کتاب الکراہیة)۔ واللہ اعلم بالصواب ۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

سودی رقم سے عیدگاہ یا قبرستان کی زمین خریدنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣۵٧

سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کے بینک کا جو بیاج آتا ہے اس سے عید گاہ اور قبرستان کے لئے زمین خرید سکتے ہیں کیا مدلل جواب عنایت فرمائے

سائل:محمد صادق رشیدی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


حرام مال کا مالک معلوم ہو تو مالک کو لوٹانا ضروری ہے اور اگر مالک تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو فقراء پر صدقہ کرنے کا حکم ہے


ویبرأ بردھا ولو بغیر علم المالک، فی البزازیة:غصب دراہم إنسان من کیسہ، ثم ردہا فیہ بلا علمہ برئ، وکذا لو سلمہ إلیہ بجہة أخریٰ کہبة وإیداع وشراء، وکذا لو أطعمہ فأکلہ، (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الغصب، ۹/ ٢٦٦ /٢٦٩)


ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء قال: والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱/٣٤ ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)


سودی رقم بھی مال حرام میں سے ہے، اگر کسی فرد سے لی ہو تو اس کو لوٹانا شرعاً ضروری ہے، لہذا بینک وغیرہ سے سودی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر بینک میں پیسے جمع کئے ہو اور اس پر سود ملا ہو تو اس گناہ سے اپنے آپ کو پاک کرنے کے لیے مستحق زکاۃ شخص کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا واجب ہوگا۔ البتہ مسجد، مدرسہ یا کسی اور تعمیر میں یہ رقم خرچ کرنا درست نہیں ہے۔


أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ(إعلاء السنن/٤/۳۷۲،ط: ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة کراتشي)،


صورت مسئولہ میں عید گاہ اور قبرستان کے لئے  سودی رقم لگاکر زمین خریدنا جائز نہیں ہے، نہ ہی اس کا حیلہ درست ہے، بلکہ سودی رقم کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کا مالک معلوم ہو، تو وہ رقم اسے لوٹادی جائے اور اگر مالک معلوم نہ ہو، تو اس کا صحیح مصرف یہ ہے کہ اس رقم کو بلا نیت ثواب غرباء و مساکین کو دیدیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

منگل، 26 جولائی، 2022

جمعہ کے دن مبارک باد پیش کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣۵٦

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب جمعہ کی مبارکباد پیش کرنا کیسا ہے سنت ہے یا مستحب ہے ہا مباح یا مکروہ وضاحت فرمائیں؟ جزاکم اللہ خیرا کثیرا

سائل محمد عبداللہ پاکستانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جمعہ کی مبارکباد پیش کرنا نہ سنت ہے نہ مستحب البتہ مباح ہے، اور مباح سے مراد شریعت میں ایسا عمل ہوتا ہے جس کے کرنے اور نہ کرنے دونوں کا اختیارہو کسی مباح کام کو فرض و ضروری سمجھنا اور نہ کرنے والوں کو برا سمجھنا بدعت کہلاتا ہے ، شریعت میں اِس پر سخت وعید آئی ہے ، جس عمل کا جو درجہ متعین ہے ، اس کو وہی درجہ دینا ضروری ہے۔

لہذا یہ مبارکبادی کا عمل بھی مباح ہے اور اس کو پیش کرنے کا مطلب جمعہ کے بابرکت ہو نے کی دعا دینا ہے، اور برکت والے دن برکت کی دعا دینے میں  بذاتِ خود کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اس کا التزام واہتمام کرنا، اسے ضروری سمجھنا اور مبارک باد نہ دینے والے کو برا اور حقیر سمجھنا یہ بدعت اور مکروہ ہے۔


فتاوی بنوریہ میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ: جمعہ کی مبارک باد کا مطلب جمعہ کے بابرکت ہو نے کی دعا دینا ہے اور برکت والے دن برکت کی دعا دینے میں بذاتِ خود حرج نہیں ہے، البتہ اس طرح مبارک باد دینے کا التزام واہتمام کرنا، اسے رواج دینا اور مبارک باد نہ دینے والے کو برا سمجھنا اور کہنا ٹھیک نہیں ہے اور نہ ہی شرعی طور پر ان کاموں کا حکم دیاگیا ہے، ان چیزوں میں وقت صرف کرنے کی بجائے جو اعمال اس دن ثابت ہیں، یعنی نمازِ جمعہ اور خطبہ جمعہ میں خوب اہتمام وآداب کے ساتھ شرکت کرنا، درود شریف کی کثرت اور سورہ کہف کی تلاوت وغیرہ، ان اعمال کا اہتمام کرناچاہیے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل

القرآن الکریم: (الجمعۃ، الآیۃ: 9)

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ


کنز العمال: (488/1، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)

"أكثروا من الصلاة علي في يوم الجمعة فإنه يوم مشهود تشهده الملائكة، وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها". (ه) عن أبي الدرداء.


سنن الدارمی: (2143/4، ط: دار المغنی)

عن أبي سعيد الخدري، قال: «من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة، أضاء له من النور فيما بينه وبين البيت العتيق»واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

(دارالافتاء الاخلاص،کراچی جواب نمبر ٢٢٨٣) واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

پیر، 25 جولائی، 2022

مرض الوفات میں امام ابویوسف کا اپنے شاگرد سے سوال وجواب سوال نمبر ٣۵۵

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ 

امام ابو یوسف جب مرض الموت میں تھے تب ایک شاگرد ان کے پاس آئے تو دیکھا کے امام ابو یوسف کچھ پریشان ہے تو پوچھا کیا بات ہے تو امام صاحب نے کہا کہ ایک مسئلہ ہے کہ رمئ جمار پیدل افضل ہے یا سوار ہوکر تو شاگرد نے کہا کہ سوار ہوکر تو امام ابو یوسف نے کیا نہی تو شاگرد نے کہا کہ پھر تو پیدل افضل ہے تو کہا نہی تو امام ابو یوسف نے کیا جواب دیا تھا؟ برائے کرم تسلی بخش جواب ارسال فرمائیں 

سائل: محمد بن سعید پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی

امام ابو یوسف جب مرض الموت میں تھے تب ایک شاگرد ان کے پاس آئے تو امام صاحب نے آنکھیں کھولی اور کہا کہ رمئ جمار پیدل افضل ہے یا سوار ہوکر تو شاگرد نے کہا کہ سوار ہوکر تو امام ابو یوسف نے فرمایا آپ نے جواب صحیح نہیں دیا تو شاگرد نے کہا کہ پھر تو پیدل افضل ہے تو کہا آپ نے جواب صحیح نہیں دیا۔

اس وقت حضرت امام ابویوسف نے یہ جواب دیا تھاکہ جس رمی کے بعد رمی ہو وہ پیدل افضل ہے اور جس رمی کے بعد رمی اور وقوف نہ ہو وہ سوار ہوکر افضل ہے۔

ابتہ سوال میں مذکور یہ جملہ (تو دیکھا کے امام ابو یوسف کچھ پریشان ہے تو پوچھا کیا بات ہے) یہ تلاش بسیار کے بعد بھی مجھے نہیں ملا واللہ اعلم ۔


ہدایہ کے حاشیہ میں علامہ لکھنوی سے منقول ہے

مروی عن ابی یوسف حکی عن ابراہیم بن الجراح قال دخلت على ابن ابی يوسف في مرضه الذي مات فيه فتح عینیہ وقال الرمی راکبا افضل ام ماشیا فقلت راکبا قال اخطأت فقلت ماشیا قال اخطأت ثم قال کل رمي بعده رمی فہو ماشیا افضل و مالیس بعده وقوف ورمی فالرکوب افضل فقمت من عنده فلما انتهت الى باب الدار سمعت صراخ موتہ فتعجبت من حرمه على المسلم كذا في الشرح فان قلت ما وجه اشتغالہ بهذه المسالة قلت شرح الرمي في الأصل لدفع الشيطان وابويوسف كان محتضرا في ذلك الوقت فلذا ذكره بذه المسالة فاعرف فهذا ما سمح به خاطری بفضل اللہ تعالی۔(نقلہ شیخ عبدالحی لکھنوی فی حاشیۃ الھدایہ ١/٢٧۵ مکتبہ رحمانیہ) واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

جمعہ، 22 جولائی، 2022

انسانی اعضاء کی پیوندکاری کا شرعی حکم سوال نمبر ٣۵٤

 سوال 

السلام عليكم ورحمةالله و برکاتہ

حضرت آپ بخیر وعافیت ہونگے ایک مسئلہ پوچھنا تھا وہ یہ کہ زندہ ہونے کی حالت میں اپنا کلیجہ دوسرے شخص کو دے سکتے ہے بطور ہدیہ؟ اور جس کو دے رہے ہے اسکی جان خطرے میں ہے تو جیسے خون کو بطور تحفہ دینا جائز ہے اس پر قیاس کرکے اس کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ تو حضرت اس مسئلہ کی پوری تحقیق مطلوب ہے۔

سائل عبد الحسیب اسلامپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اس کو سمجھنے کے لئے دوباتوں  کا سمجھنا ضروری ہے۔

(١) انسان کے اعضاء یہ انسان کی اپنی ملک نہیں ہے بلکہ یہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے خود جائز حدود میں ہی استعمال کرنے اور ان سے نفع اٹھانے کا انسان کو حق دیاہے اور جب انسان اپنے اعضاء کا مالک نہیں ہے اور انسانی اعضاء  مال بھی نہیں ہیں تو اپنے اعضاء میں سے کسی عضو کو نہ ہبہ کرسکتا ہے اور نہ عطیہ کرنے کی وصیت کرسکتا ہے یعنی اعضائے انسانی  کا کسی کو ہبہ و عطیہ کرنا درست نہیں ہے۔


(٢) انسان قابلِ احترام وتکریم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو اس کے بدن سے جدا کرکے دوسرے انسان کودینے میں انسانی تکریم کے خلاف ورزی لازم آتی ہے اسی بناپر فقہاءِ کرام نے علاج معالجہ اور شدید مجبوری کے موقع پربھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قراردیاہے۔


جہاں تک خون کا مسئلہ ہے تو اضطراری حالات اور ضرورتِ شدیدہ کے موقعے پر  فقہاءِ  نے عورت کے دودھ پر قیاس کرکے  اس کے استعمال کی اجازت دی ہے لیکن خون اور انسانی اعضاء میں فرق  ہے،  خون یہ انسانی جزء ضرور ہے، لیکن اعضاء میں سے نہیں ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ انسان جب مرجاتا ہے، اس کے تمام اعضاء پہلے جس طرح موجود ہوتے ہیں،  مرنے کے بعد بھی تمام اعضاءموجود ہوتے ہیں،  بخلاف خون کے کیوں کہ خون جزءِ مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے پانی بن جاتا ہے، اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا ۔دوسری طرف ”جگر“ انسانی اعضاء میں داخل ہے، اور عضو کو جز پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے 


اسی طرح خون کو دوسرے انسان کے بدن میں منتقل کرنے کے لیے اعضاءِ انسانی میں کانٹ چھانٹ کی ضرورت پیش نہیں آتی، بلکہ انجکشن  کے ذریعہ  خون نکالا اور دوسرے بدن میں ڈالا جاتا ہے اور جگر میں چیر پھاڑ کانٹ چھانٹ وغیرہ جیسی اور بھی کئی خرابیاں کا موجود ہونا بھی واضح ہے لہذا انسانی جگر کی دوسرے انسان کے جسم میں  پیوندکاری جائز نہیں ہے۔


فتاوی عا لمگیری میں ہے

وأما ما يرجع إلى الواهب فهو أن يكون الواهب من أهل الهبة، وكونه من أهلها أن يكون حرا عاقلا بالغا مالكا للموهوب حتى لو كان عبدا أو مكاتبا أو مدبرا أو أم ولد أو من في رقبته شيء من الرق أو كان صغيرا أو مجنونا أو لا يكون مالكا للموهوب لا يصح، هكذا في النهاية۔ (کتاب الھبۃ، الباب الأول في تفسير الهبۃ وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها وفيما يكون هبۃ من الألفاظ وما يقوم مقامها وما لا يكون ٤/٣٧٤ ط: دارالفکر)


 فتاوی شامی میں ہے:

(ولم يبح الإرضاع بعد موته) لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية . وفي البحر لا يجوز التداوي بالمحرم في ظاهر المذهب أصله بول المأكول كما مر۔ (فتاوی شامی ٤/٣٩٧)

 

شرح سیر الکبیر میں ہے

والآدمي محترم بعد موته على ما كان عليه في حياته. فكما يحرم التداوي بشيء من الآدمي الحي إكْراما له فكذلك لا يجوز التداوي بعظم الميت. قال  صلى الله عليه وسلم كسر عظم الميت ككسر عظم الحي (شرح السیر الکبیر ١/٨٩)


فتاوی ہندیہ میں ہے

الانتفاع بأجزاء الآدمي لم يجز قيل للنجاسة وقيل للكرامة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي۔ (فتاوی ہندیہ ۵/٣۵٤ الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات ط: رشیدیہ)


اس سلسلے میں فتاوی بنوریہ کا ایک فتوی ملاحظہ فرمائیں۔

کسی انسانی عضو کا  (خواہ زندہ کا ہو یا مردہ کا)   دوسرے انسان کے جسم میں استعمال (معاوضہ کے ساتھ ہو یابغیرمعاوضہ کے)مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر  جائز نہیں ہے:


(1) اس مقصد کے لیے انسانی  جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے جو کہ مثلہ ہے ، اور مثلہ شریعت میں جائز  نہیں ہے۔حدیث شریف میں ہے: 


"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ جُيُوشَهُ قَالَ: «اخْرُجُوا بِسْمِ اللَّهِ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، لَا تَغْدِرُوا، وَلا تَغُلُّوا، وَلا تُمَثِّلُوا، وَلا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ، وَلا أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ»"۔ (مسند احمد،3/218، ط؛دارالحدیث بیروت)


(2) کسی زندہ حیوان (جس میں انسان بھی شامل ہے) کے جسم سے اگر کوئی جز  الگ کردیا جائے وہ  مردار اور ناپاک کے حکم میں ہوجاتا ہے،جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے: 


"عَنْ أَبِي وَاقِدٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ»"۔ (ابو داؤد،2/48، ح؛2858، ط؛رحمانیہ)    عضو کی     پیوند کاری کی وجہ سے پوری عمر ایک ناپاک چیز سے جسمِ انسانی ملوث رہے گا۔


(3) کسی چیز کو ہبہ کرنے یا عطیہ کے طور پر کسی کو دینے کے لیے یہ شرط ہے وہ شے  مال ہو ، اور دینے  والے کی ملک ہو ، اور یہی شرط وصیت کے لیے بھی ہے۔ جیساکہ "فتاوی عا لمگیری" میں ہے:


"وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْوَاهِبِ، فَهُوَ أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ مِنْ أَهْلِ الْهِبَةِ، وَكَوْنُهُ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ يَكُونَ حُرًّا عَاقِلًا بَالِغًا مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ حَتَّى لَوْ كَانَ عَبْدًا أَوْ مُكَاتَبًا أَوْ مُدَبَّرًا أَوْ أُمَّ وَلَدٍ أَوْ مَنْ فِي رَقَبَتِهِ شَيْءٌ مِنْ الرِّقِّ أَوْ كَانَ صَغِيرًا أَوْ مَجْنُونًا أَوْ لَا يَكُونُ مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ لَا يَصِحُّ، هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ. وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْمَوْهُوبِ فَأَنْوَاعٌ، مِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا وَقْتَ الْهِبَةِ فَلَا يَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَوْجُودٍ وَقْتَ الْعَقْدِ ... ومِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَالًا مُتَقَوِّمًا فَلَا تَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ أَصْلًا كَالْحُرِّ وَالْمَيْتَةِ وَالدَّمِ وَصَيْدِ الْحَرَمِ وَالْخِنْزِيرِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، وَلَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُطْلَقٍ كَأُمِّ الْوَلَدِ وَالْمُدَبَّرِ الْمُطْلَقِ وَالْمُكَاتَبِ، وَلَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُتَقَوِّمٍ كَالْخَمْرِ، كَذَا فِي الْبَدَائع"۔ (4 / 374، کتاب الھبہ، ط؛رشیدیہ)


فتاوی شامی میں ہے:


"(وَشَرَائِطُهَا: كَوْنُ الْمُوصِي أَهْلًا لِلتَّمْلِيكِ) فَلَمْ تَجُزْ مِنْ صَغِيرٍ وَمَجْنُونٍ وَمُكَاتَبٍ إلَّا إذَا أَضَافَ لِعِتْقِهِ كَمَا سَيَجِيءُ (وَعَدَمُ اسْتِغْرَاقِهِ بِالدَّيْنِ) لِتَقَدُّمِهِ عَلَى الْوَصِيَّةِ كَمَا سَيَجِيءُ (وَ) كَوْنُ (الْمُوصَى لَهُ حَيًّا وَقْتَهَا) تَحْقِيقًا أَوْ تَقْدِيرًا لِيَشْمَلَ الْحَمْلَ الْمُوصَى لَهُ فَافْهَمْهُ فَإِنَّ بِهِ يَسْقُطُ إيرَادُ الشُّرُنْبُلَالِيُّ (وَ) كَوْنُهُ (غَيْرَ وَارِثٍ) وَقْتَ الْمَوْتِ (وَلَا قَاتِلٍ) وَهَلْ يُشْتَرَطُ كَوْنُهُ مَعْلُومًا. قُلْت: نَعَمْ كَمَا ذَكَرَهُ ابْنُ سُلْطَانٍ وَغَيْرُهُ فِي الْبَابِ الْآتِي (وَ) كَوْنُ (الْمُوصَى بِهِ قَابِلًا لِلتَّمَلُّكِ بَعْدَ مَوْتِ الْمُوصِي)"۔ (6/649، کتاب الوصایا،سعید)


 انسان کو اپنے اعضاء میں حقِ منفعت تو حاصل ہے، مگر حقِ ملکیت حاصل نہیں ہے، جن اموال و منافع پر انسان کو حقِ مالکانہ حاصل نہ ہو  انسان  ان اموال یا منا فع کی مالیت کسی دوسرے انسان کو منتقل نہیں کرسکتا۔


(4) انسانی اعضاء و جوارح انسان کے پاس امانت ہیں  اور انسان ان کا نگران اور محافظ ہے، اور امین کو  ایسے تصرفات کا اختیار نہیں ہوتا جس کی اجازت امانت رکھنے والے نے نہ دی ہو،  جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:


"وَأَمَّا حُكْمُهَا فَوُجُوبُ الْحِفْظِ عَلَى الْمُودَعِ وَصَيْرُورَةُ الْمَالِ أَمَانَةً فِي يَدِهِ وَوُجُوبُ أَدَائِهِ عِنْدَ طَلَبِ مَالِكِهِ، كَذَا فِي الشُّمُنِّيِّ". (4/338، کتاب الودیعہ، ط؛رشیدیہ)


(5) انسان قابلِ احترام اور مکرم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو  اس کے بدن سے  الگ کرکے  دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے علاج ومعالجہ  اور شدید مجبوری کے موقع پر بھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے، چناچہ شرح سیر الکبیر میں ہے:


"وَالْآدَمِيُّ مُحْتَرَمٌ بَعْدَ مَوْتِهِ عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ فِي حَيَاتِهِ. فَكَمَا يَحْرُمُ التَّدَاوِي بِشَيْءٍ مِنْ الْآدَمِيِّ الْحَيِّ إكْرَامًا لَهُ فَكَذَلِكَ لَا يَجُوزُ التَّدَاوِي بِعَظْمِ الْمَيِّتِ. قَالَ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِ عَظْمِ الْحَيِّ»" . ( شرح السیر الکبیر(1 /89)


 نیز جس طرح کسی زندہ آدمی کے کسی عضو کو لے کر علاج کرنا درست نہیں ہے ،اسی طرح کسی مردہ انسان کے عضو سے بھی علاج کرنا جائز نہیں ہے۔جیساکہ "فتاوی ہندیہ " میں ہے:


"الِانْتِفَاعُ بِأَجْزَاءِ الْآدَمِيِّ لَمْ يَجُزْ، قِيلَ: لِلنَّجَاسَةِ، وَقِيلَ: لِلْكَرَامَةِ، هُوَ الصَّحِيحُ، كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ". (5 / 354، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، ط: رشیدیہ)


      یعنی آدمی کے تمام اعضاء سے فائدہ اٹھانے کی حرمت اس کی تکریم و احترم کے پیش ِ نظر ہے، تاکہ جس ہستی کو اللہ تعالی نے مکرم ومحترم بنایا ہے لوگ اس کے اعضاء و جوارح کو استعمال کرنے کی جسارت نہ کریں۔


(6)  اگر انسانی اعضاء کی پیوندکاری کو جائز قرار دیا جائے تویہ پوری انسانیت کے لیے ایک بڑاخطرہ اورتباہی  کاذریعہ بنےگا،کیوں کہموجودہ زمانہ کے حالات و ماحول اورمعاشرہ میں پھیلی ہوئی بددیانتی کودیکھتےہوئےکوئی بعیدنہیں کہ لوگ اعضاءکی منتقلی کےجواز کے فتووں کابےجااستعمال کرتے ہوئے اسےباقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دے دیں اورانہی اعضاءکواپنا ذریعۂ معاش بنالیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ:


1..بازار میں دیگراشیاءکی طرح انسانی اعضاءکی بھی علانیہ ورنہ خفیہ خرید و فروخت شروع ہوجائےگی، جو بلاشبہ انسانی شرافت  کے خلاف  اورناجائز ہے۔


۲..غربت زدہ لوگ  اپنا اور بچوں کاپیٹ پالنے  کے لیے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے اعضاءفروخت کرناشروع کردیں گے۔


۳.. مُردوں کی بے حرمتی اوراُن کے ساتھ  ظالمانہ رویّہ شروع ہوجائے گا ،  بالخصوص لاوارث مُردےاپنے بہت سے اعضاء سے محروم ہوکر دنیا سے جایا کریں گے، اور یہ بھی بعید نہیں کہ مال و دلت کے لالچی اور پُجاری مدفون لاشوں کو اکھاڑکر اپنی ہوس پوری کرنے لگیں،جیسا کہ مختلف ذرائع سے سننے میں آتا رہتا ہے۔


۴.. خدا نخواستہ یہ معاملہ بڑھتا رہا تو صرف اپنی موت مرنے والوں تک ہی یہ سلسلہ محدود نہیں رہے گا ، بلکہ اس کام کے لیے  بہت سے معصوم انسانوں کے قتل کا بازار گرم ہوجانا اور اس مقصد  کے لیے اغوا کا شروع ہونا ممکن ہے


جو پورے انسانی معاشرے کی تباہی کا اعلان ہے۔


مذکورہ بالا  دلائل کی وضاحت کرتے ہوئے مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ تحریر فرماتے ہیں:


”انسان کے اعضاء و اجزاء انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہیں جن میں وہ مالکانہ تصرفات کرسکے، اسی لیے ایک انسان اپنی جان یا اپنے اعضاء و جوارح کو نہ بیچ سکتا ہےنہ کسی کو ہدیہ اور ہبہ کے طور پر دے سکتا ہے،اور نہ ان چیزوں کو اپنے اختیار سے ہلاک و ضائع کرسکتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کے اصول میں تو خود کشی کرنا اور اپنی جان یا اعضاء رضاکارانہ طور پر یا بقیمت کسی کو دے دینا قطعی طور حرام ہی ہے جس پر قرآن و سنت کی نصوصِ صریحہ موجود ہیں، تقریباً دنیا کے ہر مذہب و ملت اور عام حکومتوں کے قوانین میں اس کی گنجائش نہیں، اس لیے کسی زندہ انسان کا کوئی عضو کاٹ کر دوسرے انسان میں لگادینا اس کی رضامندی سے بھی جائز نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ شریعتِ اسلام نے صرف زندہ انسان کے کارآمد اعضاء ہی کا نہیں بلکہ قطع شدہ بے کار اعضاء و اجزاء کا استعمال بھی حرام قرار دیا ہے، اور مردہ انسان کے کسی عضو کی قطع و برید کو بھی ناجائز کہا ہے، اور اس معاملہ میں کسی کی اجازت اور رضامندی سے بھی اس کے اعضاء و اجزاء کے استعمال کی اجازت نہیں دی، اور اس میں مسلم و کافر سب کا حکم یکساں ہے؛ کیوں کہ یہ انسانیت کا حق ہےجو سب میں برابر ہے۔تکریمِ انسانی کو شریعتِ اسلام نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کسی وقت کسی حال کسی کو انسان کے اعضاء و اجزاء حاصل کرنے کی طمع دامن گیر نہ ہو، اور اس طرح یہ مخدومِ کائنات اور اس کے اعضاء عام استعمال کی چیزوں سے بالاتر ہیں جن کو کاٹ چھانٹ کر یا کوٹ پیس کر غذاؤں اور دواؤں اور دوسرے مفادات میں استعمال کیا جاتا ہے، اس پر ائمہ اربعہ اور پوری امت کے فقہاء متفق ہیں، اور نہ صرف شریعتِ اسلام بلکہ شرائعِ سابقہ اور تقریباً ہر مذہب و ملت میں یہی قانون ہے"۔ (انسانی اعضاء کی پیوندکاری، ص: ۳۶، مصدقہ مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ)


مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ انسانی اعضاء کا استعمال کسی  حال میں جائز نہیں ہے، لہذا سائل کے لیے اپنا گردہ اپنے ماموں کو دینا شرعاً  ناجائز اور حرام ہے۔ فقط واللہ اعلم۔ (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : ١٤٣٩٠٩٢٠٠٤٨۵)


صورت مسئولہ زندہ یا مردہ کا کلیجہ دوسرے شخص کو بطور ہدیہ دینا جائز نہیں ہےچاہے جس کو دیا جارہا ہے اسکی جان خطرے میں ہو خون اور اعضاء میں فرق  ہے  لہذا اعضاء کو بطور تحفہ دینا جائز نہیں ہے اور خون میں ضرورت کے وقت گنجائش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

جمعہ، 15 جولائی، 2022

ہندؤں کے تیوہار کی چیزوں کی خرید وفروخت کرنا کیسا ہے ؟ سوال نمبر ٣۵٣

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

کوئی مسلمان ہندو کے تیوہار کی کوئی چیز خرید وفروخت کر سکتا ہے جیسا کہ دیوالی کے فٹاکے اور اوترایڑ کی پتنگے وغیرہ

سائل: مصعب شہرا گجرات 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اصولی اعتبار سے اتنی بات سمجھ لیں کہ کوئی ایسی چیز جو غیروں کے تہوار اور ان کے شعائر کے ساتھ خاص ہو اسے فروخت کرنا گناہ کے کام میں مدد کرنا ہے جس کی قرآن میں ممانعت آئی ہے ”وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ“ اِس لیے اس کی تجارت کی اجازت نہیں ہوسکتی۔


لہذا تہواروں میں فروخت ہونے والی چیزیں دوقسم کی ہوتی ہے۔


(١) وہ چیزیں جو صرف غیر مسلموں کے تہوار ہی کے لیے خاص ہوں ، اور ان کا کوئی دوسرا جائز مصرف نہ ہو، ایسی چیزوں کی خریدوفروخت ممنوع ہوگی جیسے ہولی، دیوالی اور رکشا بندھن، ہندؤں کے خالص مذہبی تہوار ہے ان تہواروں میں ہولی کے رنگ بیچنا دیوالی میں فٹاکے بیچنا اور رکشابندھن میں راکھی فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔


فتاوی دارالعلوم دیوبند کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ہولی، دیوالی اور رکشا بندھن، ہندؤں کے خالص مذہبی تہوار ہیں اس لیے ان تہواروں کے موقعہ پر بہ طور خاص مذہبی امور کی انجام دہی میں جو چیزیں استعمال ہوتی ہیں، یعنی راکھی، رنگ، پچکاری اور دیوالی کی موم بتیاں وغیرہ، ان کا کاروبار مسلمان کے لیے مکروہ وناجائز ہے؛ کیوں کہ ان چیزوں کا کاروبار کرنے میں غیروں کا ان کے مذہبی امور میں تعاون لازم آتا ہے اس لیے آپ اپنے جنرل اسٹور پر ہولی،دیوالی وغیرہ کے موقعہ پر اس طرح کی چیزیں ہرگز فروخت نہ کیا کریں۔


قال اللہ تعالی ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان (سورة المائدة، رقم الآیة: ۲)، وقال العلامة المفتي محمد شفیع رحمہ اللہ تعالی في ”تفصیل الکلام في مسئلة الإعانة علی الحرام“:وإن لم یکن -السبب- محرکا وداعیا بل موصلا محضا وھو مع ذلک سبب قریب بحیث لایحتاج في إقامة المعصیة بہ إلی إحداث صنعة من الفاعل کبیع السلاح من أھل الفتنة وبیع العصیر ممن یتخذہ خمراً وبیع الأمرد ممن یعصي بہ وإجارة البیت ممن یبیع فیہ الخمر أو یتخذھا کنیسة أو بیت نار وأمثالھا فکلہ مکروہ تحریما بشرط أن یعلم بہ البائع والآجر من دون تصریح بہ باللسان فإنہ إن لم یعلم کان معذوراً وإن علم وصرح کان داخلاً فی الإعانة المحرمة (جواہر الفقہ، ۲: ۴۴۷، وص: ۴۵۵، ۴۵۶أیضاً، ط: قدیم)۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٦٤١٣٣)


(٢) وہ چیزیں جو صرف غیر مسلموں کے تہوار کے لئے خاص نہ ہوں ، بلکہ ان کا کوئی دوسرا جائز استعمال بھی ہو  تو ایسی چیزوں کی خریدو فروخت جائز ہے، 

جیسے ان ایام میں مٹھائی کپڑے یا اور کوئی ایسی چیز فروخت کرنا جس کا دوسرا جائز مصرف ہو ان کے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فتاوی شامی میں ہے

وما كان سببا لمحظور فهو محظور (فتاوی شامی ١١/٢٠۵)


البحر الرائق میں ہے 

قال (والاعطاء باسم النیروز والمھرجان لایجوز) ای الھدایا باسم ھذین الیومین حرام بل کفر

وقال ابو حفص الکبیر رحمہ اللہ لو ان رجلا عبد اللہ تعالی خمسین سنۃ ثم جاء النیروز واھدی الی بعض المشرکین بیضۃ یرید تعظیم ذلک الیوم فقد کفر وحبط عملہ وقال صاحب جامع الاصغر اذا اھدی یوم النیروز الی مسلم آخر ولم یرد بہ  تعظیم الیوم ولکن علی ما اعتادہ بعض الناس  لا یکفر ولکن ینبغی لہ ان لا یفعل ذلک  الیوم خاصہ ویفعلہ قبلہ او  بعدہ لکیلا یکون تشبیھا  باؤلئک القوم وقد قال من تشبہ بقوم فھو منھم ۔۔۔۔۔۔۔ الجامع الاصغر رجل اشتری یوم النیروز وشیئا یشتریہ الکفرۃ منہ وھو لم یکن یشتریہ قبل ذلک ان اراد بہ تعظیم ذلک الیوم کما تعظمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کفر وان اراد الاکل والشرب والتنعم لایکفر۔ (البحر الرائق ٨/۵۵٨)


تبيين الحقائق میں ہے

لايـكـره بـيـع الـجـاريـة المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة لأنه ليس عيـنـهـا مـنـكـراً وإنـمـا الـمنكر في استعماله المحظور۔ (تبيين الحقائق ۱۹۹/٤ کتاب السیر باب البغاة دارالكتب العلمية بيروت )


المبسوط للسرخسی میں ہے

ولا بأس بـأن يـواجـر الـمـسـلـم داراً من الذمي ليسكنها فإن شرب فيها الخمر أوعبد فيها الـصـلـيـب أو دخـل فيهـا الخنازير ، لم يلحق المسلم إثم في شئ من ذلك لأنه لم يواجرها لذلك والـمـعـصيـة فـي فـعـل الـمـسـتـأجـر۔ (المبسوط للسرخسی ٤٣/۱۲ کتاب البيوع باب الإجارة الفاسدة غفارية)


(مزید تفصیل کے لیے فتاوی محمودیہ ج ١٦/ ص١٢٧ تا ١٤٠ ط: مکتبہ فاروقیہ کا مطالعہ مفید رہے گا ان شاءاللہ)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا