سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ مفتی صاحب
ایک بھائی نے کہا ہے کہ جو بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے کان میں ہم ازان و اقامت پڑھتے ہیں یہ کہیں کسی حدیث سے ثابت نہیں بس علماء نے آپس میں مشورہ کر کے اس کو جاری کردیا ہے۔۔۔۔ اس بارے میں مفتیانِ کرام کیا فرماتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں جزاکم اللہ خیراً
سائل: محمد عبداللہ پاکستانی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
نومولود بچہ یا بچی کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مسنون ومستحب ہے، جمہور ائمہ اس کے قائل ہیں، اور نومولود کے کان میں اذان دینے کا عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس بارے میں قولی وفعلی دونوں طرح کی احادیثِ مبارکہ موجودہیں۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے: ’’حضرت عبیداللہ بن ابی رافع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن بن علی کی ولادت کے وقت ان کے کان میں اذان دیتے ہوئے دیکھا جس طرح نماز میں اذان دی جاتی ہے۔
جب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت پر ان کے کان میں اذان کہی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے اور فرمایا: سب کا اس پر عمل ہے، لہذا ان صاحب کا یہ کہنا کہ کہیں کسی حدیث سے ثابت نہیں بس علماء نے آپس میں مشورہ کر کے اس کو جاری کردیا ہے یہ درست نہیں ہے۔
نیز اس میں دیر بھی نہ ہو تاکہ دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلا کلمہ جو بچے کے کان میں پڑے وہ اللہ کا نام ہو، اور اذان و اقامت کی تخصیص اس لیے ہے کہ اذان سے شیطان بھاگتا ہے، اور حدیث میں ہے کہ شیطان ولادت کے وقت بچے کو ستاتا ہے، جس سے بچہ چلاتا ہے، پس ولادت کے فوراً بعد بچے کے کان میں اذان دینا اس لیے بھی ہے، تاکہ شیطان بھاگ جائے اور بچہ کو پریشان نہ کرسکے۔
ترمذی شریف میں ہے
عن عاصم بن عبید اللہ بن رافع عن أبیہ قال: رأیت رسول اللہ ﷺ أذن فی أذن الحسن بن علی حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ۔ (ترمذی، باب الأذان فی أذن المولود، النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۷۸ دار السلام)
سنن أبي داود میں ہے
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا نودي بالصلاة أدبر الشيطان وله ضراط حتى لا يسمع التأذين، الی آخرہ (سنن أبي داود كتاب الصلاة باب رفع الصوت بالأذان)
جامع الفتاوى میں ہے
هذا الحديث فيه دليل للتأذين في أذن المولود الجديد وأما أن يكون هذا التأذين بعد غسله فليس في الحديث ذكر لذلك؛ لكن الفقهاء استحبوه لأنه أقرب إلي توقير ذكر الله تعالىٰ فلا إشكال في ذلك.(جامع الفتاوىٰ ٣/٣٨٧)
تقریرات رافعی میں ہے
قال السندی: فیرفع المولود عند الولادۃ علی یدیہ مستقبل القبلۃ ویؤذن فی أذنہ الیمنی ویقیم فی الیسریٰ، ویلتفت فیہما بالصلاۃ لجہۃ الیمین وبالفلاح لجہۃ الیسار۔ (تقریرات رافعی علی الشامی زکریا ۲/٤۵) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں