سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
لوگ قبرستان جاتے ہیں اور خوشبو والی اگر بتیاں قبروں پرلگاتے ہیں۔یہ عمل جائز ہے ؟
سائل محمد عبداللہ پاکستانی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
احادیثِ مبارکہ میں قبرستان میں آگ لے جانے یا قبروں پر چراغ جلانے کی ممانعت آئی ہے رسول کریم نے قبروں پر چراغ جلانے سے سخت ممانعت اور ایسے فعل کے مرتکب پر لعنت فرمائی ہے مشکوۃ شریف میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو مسجد بنا لینے (یعنی قبروں پر سجدہ کرنے والوں) اور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔
اس حدیث کی توضیح کرتے ہوئے صاحب مرعات فرماتے ہیں کہ: یعنی اس حدیث میں صریح ردّ ہے ان قبوریوں کا جو قبروں پر قبے تعمیر کرتے، انھیں سجدہ کرتے ان پر چراغاں کرتے، اور اصحابِ قبور کی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے ان پر پھول چڑھاتے ہیں
اگربتی بھی آگ ہی ہے، اس لیے قبر پر اسے جلانے کی اجازت نہیں ہے اسی طرح قبروں پر اگربتی جلانا احادیث اور شریعت مبارکہ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے نیز اگر بتی جلانے کا عمل اسراف بھی ہے، کیونکہ اس کا مقصد اگر میت کو خوشبو پہنچانا ہے تو اگر وہ مقبول بندہ ہے تو اس کے لیے اپنے اعمال کی خوشبو اور جنت کے جھونکے کافی ہیں اور اگر وہ گناہگار ہے تو اگر بتی سے اس کی قبر کی ظلمت یا بداعمالیوں کی بد بو ختم نہیں کی جاسکتی لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے
مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے
عن ابن عباس، قال: ’’لعن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم زائرات القبور والمتخذین علیها المساجد والسرج رواه أبوداؤد و الترمذي والنسائي (باب ما جاء في كراهية أن يتخذ على القبر مسجدا۔ ٢/١٣٦ رقم الحدیث ٣٢٠ ط شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)
مرعاۃ المفاتیح میں ہے:
و فیه رَد صریح علی القبوریین الذین یبنون القباب علی القبور و یسجدون الیها و یسرجون و یضعون الزهور و الریا حین علیها تکریما و تعظیما لاصحابها۔ (مرعاۃ المفاتیح ٤۹۸/۱)
فتاوی عالمگیری میں ہے
وإخراج الشموع إلی رأس القبور فی اللیالی بدعة (ہندیة: ۵/۳۵۱، کتاب الکراہیة)۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں