سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کوئی مسلمان ہندو کے تیوہار کی کوئی چیز خرید وفروخت کر سکتا ہے جیسا کہ دیوالی کے فٹاکے اور اوترایڑ کی پتنگے وغیرہ
سائل: مصعب شہرا گجرات
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اصولی اعتبار سے اتنی بات سمجھ لیں کہ کوئی ایسی چیز جو غیروں کے تہوار اور ان کے شعائر کے ساتھ خاص ہو اسے فروخت کرنا گناہ کے کام میں مدد کرنا ہے جس کی قرآن میں ممانعت آئی ہے ”وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ“ اِس لیے اس کی تجارت کی اجازت نہیں ہوسکتی۔
لہذا تہواروں میں فروخت ہونے والی چیزیں دوقسم کی ہوتی ہے۔
(١) وہ چیزیں جو صرف غیر مسلموں کے تہوار ہی کے لیے خاص ہوں ، اور ان کا کوئی دوسرا جائز مصرف نہ ہو، ایسی چیزوں کی خریدوفروخت ممنوع ہوگی جیسے ہولی، دیوالی اور رکشا بندھن، ہندؤں کے خالص مذہبی تہوار ہے ان تہواروں میں ہولی کے رنگ بیچنا دیوالی میں فٹاکے بیچنا اور رکشابندھن میں راکھی فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
فتاوی دارالعلوم دیوبند کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ہولی، دیوالی اور رکشا بندھن، ہندؤں کے خالص مذہبی تہوار ہیں اس لیے ان تہواروں کے موقعہ پر بہ طور خاص مذہبی امور کی انجام دہی میں جو چیزیں استعمال ہوتی ہیں، یعنی راکھی، رنگ، پچکاری اور دیوالی کی موم بتیاں وغیرہ، ان کا کاروبار مسلمان کے لیے مکروہ وناجائز ہے؛ کیوں کہ ان چیزوں کا کاروبار کرنے میں غیروں کا ان کے مذہبی امور میں تعاون لازم آتا ہے اس لیے آپ اپنے جنرل اسٹور پر ہولی،دیوالی وغیرہ کے موقعہ پر اس طرح کی چیزیں ہرگز فروخت نہ کیا کریں۔
قال اللہ تعالی ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان (سورة المائدة، رقم الآیة: ۲)، وقال العلامة المفتي محمد شفیع رحمہ اللہ تعالی في ”تفصیل الکلام في مسئلة الإعانة علی الحرام“:وإن لم یکن -السبب- محرکا وداعیا بل موصلا محضا وھو مع ذلک سبب قریب بحیث لایحتاج في إقامة المعصیة بہ إلی إحداث صنعة من الفاعل کبیع السلاح من أھل الفتنة وبیع العصیر ممن یتخذہ خمراً وبیع الأمرد ممن یعصي بہ وإجارة البیت ممن یبیع فیہ الخمر أو یتخذھا کنیسة أو بیت نار وأمثالھا فکلہ مکروہ تحریما بشرط أن یعلم بہ البائع والآجر من دون تصریح بہ باللسان فإنہ إن لم یعلم کان معذوراً وإن علم وصرح کان داخلاً فی الإعانة المحرمة (جواہر الفقہ، ۲: ۴۴۷، وص: ۴۵۵، ۴۵۶أیضاً، ط: قدیم)۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٦٤١٣٣)
(٢) وہ چیزیں جو صرف غیر مسلموں کے تہوار کے لئے خاص نہ ہوں ، بلکہ ان کا کوئی دوسرا جائز استعمال بھی ہو تو ایسی چیزوں کی خریدو فروخت جائز ہے،
جیسے ان ایام میں مٹھائی کپڑے یا اور کوئی ایسی چیز فروخت کرنا جس کا دوسرا جائز مصرف ہو ان کے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتاوی شامی میں ہے
وما كان سببا لمحظور فهو محظور (فتاوی شامی ١١/٢٠۵)
البحر الرائق میں ہے
قال (والاعطاء باسم النیروز والمھرجان لایجوز) ای الھدایا باسم ھذین الیومین حرام بل کفر
وقال ابو حفص الکبیر رحمہ اللہ لو ان رجلا عبد اللہ تعالی خمسین سنۃ ثم جاء النیروز واھدی الی بعض المشرکین بیضۃ یرید تعظیم ذلک الیوم فقد کفر وحبط عملہ وقال صاحب جامع الاصغر اذا اھدی یوم النیروز الی مسلم آخر ولم یرد بہ تعظیم الیوم ولکن علی ما اعتادہ بعض الناس لا یکفر ولکن ینبغی لہ ان لا یفعل ذلک الیوم خاصہ ویفعلہ قبلہ او بعدہ لکیلا یکون تشبیھا باؤلئک القوم وقد قال من تشبہ بقوم فھو منھم ۔۔۔۔۔۔۔ الجامع الاصغر رجل اشتری یوم النیروز وشیئا یشتریہ الکفرۃ منہ وھو لم یکن یشتریہ قبل ذلک ان اراد بہ تعظیم ذلک الیوم کما تعظمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کفر وان اراد الاکل والشرب والتنعم لایکفر۔ (البحر الرائق ٨/۵۵٨)
تبيين الحقائق میں ہے
لايـكـره بـيـع الـجـاريـة المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة لأنه ليس عيـنـهـا مـنـكـراً وإنـمـا الـمنكر في استعماله المحظور۔ (تبيين الحقائق ۱۹۹/٤ کتاب السیر باب البغاة دارالكتب العلمية بيروت )
المبسوط للسرخسی میں ہے
ولا بأس بـأن يـواجـر الـمـسـلـم داراً من الذمي ليسكنها فإن شرب فيها الخمر أوعبد فيها الـصـلـيـب أو دخـل فيهـا الخنازير ، لم يلحق المسلم إثم في شئ من ذلك لأنه لم يواجرها لذلك والـمـعـصيـة فـي فـعـل الـمـسـتـأجـر۔ (المبسوط للسرخسی ٤٣/۱۲ کتاب البيوع باب الإجارة الفاسدة غفارية)
(مزید تفصیل کے لیے فتاوی محمودیہ ج ١٦/ ص١٢٧ تا ١٤٠ ط: مکتبہ فاروقیہ کا مطالعہ مفید رہے گا ان شاءاللہ)۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں