ہفتہ، 9 جولائی، 2022

تجارت کے لئے جانور خریدا نہ بکنے کی صورت میں اپنے لئے قربانی کرنے کے لئے رکھ لینا اور قربانی کے جانور کو فروخت کرنا کیسا ہے ؟سوال نمبر ٣٥١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص چند جانور بیچنے اور فروخت کرنے کیلئے لایا اس نے سب جانور فروخت کر دیئے  لیکن ایک جانور فروخت نہیں کر سکا تو وہ شخص ایسا کرتا ہے کہ چند آدمی کو شریک کرتاہیں اور خود بھی اس میں حصہ لیتا ہے اور سات حصہ مکمل کرنے کے بعد  قربانی کرتا ہے تو کیا ایسا کرنا اور قربانی کرنا درست ہے؟ 

یا پھر ایسے ہی جانور قربانی کی نیت سے خرید کر لے آۓ لیکن اس کو فروخت کرنا چاہتا ہے تو کیا کر سکتا ہیں یا نہیں؟

سائل: رضوان جمالپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شریعت مطہرہ میں قربانی کے بڑے جانور میں سات حصے ہوتے ہیں، اور سات افراد شریک ہوکر اس میں قربانی کرسکتے ہیں لہذا اگر کوئی آدمی اپنے تجارتی جانوروں میں سے کسی ایک کو قربانی کی نیت سے رکھ کر چند آدمی کو شریک کرتاہیں اور خود بھی اس میں حصہ لیتا ہے اور سات حصہ مکمل کرنے کے بعد  قربانی کرتا ہے تو جائز ہے اس میں شرعی اعتبار سے کوئی حرج نہیں ہے۔


مال دار آدمی یعنی صاحبِ نصاب شخص نے قربانی کا جانور قربانی کی نیت سے لیا تو اس کے لیے اس کو فروخت کرنا مناسب نہیں ہے، لیکن اگر فروخت کرلیا تو بیع درست ہوجائے گی، پھر اس کے بعد دوسرا جانور اس سے کم قیمت کا نہ خریدے، اگر دوسرا جانور پہلے سے کم قیمت پر لیا تو پہلے اور دوسرے جانور کی قیمت میں جتنا فرق ہو وہ صدقہ کردینا ضروری ہے، لہذا پہلا جانور جتنی قیمت پر فروخت کیا ہو اس سے کم قیمت پر دوسرا جانور خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی، اگر شدید ضرورت نہ ہو تو مذکورہ جانور کو فروخت کرنے سے اجتناب کریں، تاہم اگر فروخت کردیاہے تو اتنی ہی رقم یا اس سے زیادہ قیمت کا جانور قربان کرنا ہوگا، اس سے کم قیمت والا جانور ذبح کرنے کی صورت میں دونوں کی قیمت میں جو فرق آئے گا اتنی رقم صدقہ کرنی ہوگی۔


فتاوی شامی میں ہے 

(وفقير) عطف عليه (شراها لها)؛ لوجوبها عليه بذلك حتى يمتنع عليه بيعها، (و) تصدق (بقيمتها غني شراها أولا)؛ لتعلقها بذمته بشرائها أولا، فالمراد بالقيمة قيمة شاة تجزي فيها. (قوله: لوجوبها عليه بذلك) أي بالشراء، وهذا ظاهر الرواية؛ لأن شراءه لها يجري مجرى الإيجاب، وهو النذر بالتضحية عرفاً، كما في البدائع۔ (تنوير الأبصار مع الدر المختار ٩/ ٤٦۵)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

ولو باع الأضحية جاز، خلافاً لأبي يوسف رحمه الله تعالى، ويشتري بقيمتها أخرى ويتصدق بفضل ما بين القيمتين۔ (فتاوی عالمگیری ۵/ ٣٠١)


فتاوی عالمگیری میں ہے

ولو اشترى بقرةً يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستة يكره ويجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكماً، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلا يكره، وإن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن، وهذا إذا كان موسراً، وإن كان فقيراً معسراً فقد أوجب بالشراء فلا يجوز أن يشرك فيها، وكذا لو أشرك فيها ستة بعد ما أوجبها لنفسه لم يسعه؛ لأنه أوجبها كلها لله تعالى، وإن أشرك جاز، ويضمن ستة أسباعها۔ (الفتاوى الهندية ۵/٣٠٤)


بدائع الصنائع میں ہے

والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله  صلى الله عليه وسلم: «البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة»، وعن جابر - رضي الله عنه - قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة من غير فصل بين أهل بيت وبيتين»؛ ولأن القياس يأبى جوازها عن أكثر من واحد؛ لما ذكرنا أن القربة في الذبح وأنه فعل واحد لايتجزأ؛ لكنا تركنا القياس بالخبر المقتضي للجواز عن سبعة مطلقًا فيعمل بالقياس فيما وراءه؛ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه، ثم جازت التضحية بسبع شياه عن سبعة سواء كانوا من أهل بيت أو بيتين فكذا البقرة. (۵/٧٠ کتاب التضحیۃ، ط: سعید) واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: