سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اور علماء عظام مسألہ ذیل کے بارے میں،
مسئلہ یہ ہے کہ میرے ذمہ فی الحال نہ قرض ہے اور نہ میرے پاس زکوۃ کے نصاب کے بقدر مال ہے،
اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک جگہ گھر بیچا جارہا ہے جسکی قیمت مثال کے طور پر پانچ لاکھ روپے ہے اور مجھے وہ گھر خریدنا ہے اور گھر کے بارے میں یہ اسکیم ہے کہ دو لاکھ روپے ادا کۓ جاۓ باقی کے پیسے زکوۃ کی رقم سے ادا کر دۓ جائینگے
اب میرے پاس بیس ہزار کے آس پاس رقم ہیں، لھذا میں دو لاکھ روپے کسی کے پاس سے قرض لیکرادا کردوں اور ما بقیہ تین لاکھ روپے ایک ٹرسٹ اور تنظیم ذکوۃ کی رقم سے ادا کردے، تو کیا میرے لئے اس طریقے سے مکان کا خریدنا جائز ہے؟
سائل: محمد شاھد پالن پوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
زکوۃ کے سلسلہ میں دوباتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے
(١) زکوۃ کا وجوب کس پر ہے؟
تو جس کی ملکیت میں مال نامی ہو یعنی وہ مال یاتو سونا چاندی یا مروجہ کرنسی ہو یا مال تجارت ہو لہذا اس کے لئے نیچے دئیے گئے اموال میں سے جس مال کا وہ مالک ہو اس پر زکوۃ واجب ہے بشرطیکہ اس پر قرضہ نہ ہو اگر قرضہ ہے تو اس کو الگ کر کے نصاب کو دیکھا جائے گا، اور جس کے پاس اتنا مال نہیں ہے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔
(١) سونا جبکہ ساڑھے سات تولہ(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
(٢) چاندی جبکہ ساڑھے باون تولہ ہو(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
(٣) روپیہ، پیسہ، جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات
تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے بقدر ہو.
(٤) مالِ تجارت جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے برابر ہو)
(٢)زکوۃ لینے کا مستحق کون ہے؟
جس کی ملکیت میں مال بقدر نصاب نہ ہو اگر ہے تو چاہے وہ نامی ہو یا نہ ہو یعنی وہ تجارت کے لئے ہو یا تجارت کے لئے نہ ہو اس کے لئے زکوۃ لینا جائز نہیں ہے لہذا اس سلسلے میں اوپر کا جو نصاب بیان کیا گیا ہے اس کا وہ مالک نہ ہو اور اس کے علاوہ زمین جائداد بھی ضرورت سے زائد نہ ہو تو وہ زکوۃ لے سکتا ہے۔
مسؤلہ صورت میں اگر آپ کے پاس بنیادی ضرورت و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن، کپڑے وغیرہ)سے زائد، نصاب کے بقدر دوسری اتنی اشیاء ملکیت میں نہ ہو جو نصاب تک پہنچ جائے تو آپ کے لئے وہ رقم لینا جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے۔
لا بأس أن يعطى من الزكاة من له مسكين، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال: كانوا: يعني الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للانسان منها. وذكر في الفتاوى فيمن له حوانيت ودور للغلة لكن غلتها لا تكفيه وعياله أنه فقير ويحل له أخذ الصدقة عند محمد، وعند أبي يوسف: لا يحل، وكذا لو له كرم لا تكفيه غلته، ولو عنده طعام للقوت يساوي مائتي درهم، فإن كان كفاية شهر يحل أو كفاية سنة قيل لا يحل، وقيل يحل لأنه مستحق الصرف إلى الكفاية فيلحق بالعدم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفي التتارخانية عن التهذيب: أنه الصحيح وفيها عن الصغرى له دار يسكنها لكن تزيد على حاجته بأن لايسكن الكل يحل له أخذ الصدقة في الصحيح وفيها سئل محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولاتكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا وعليه الفتوى وعندهما لايحل اهـ ملخصًا۔ (فتاوی شامی ٣/٢٩٦)
الدر المختار میں ہے۔
ومدیون لا یملک نصاباً فاضلاً عن دینہ ، وفی الظھیریة: الدفع للمدیون أولی منہ للفقیر (الدر المختار کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳/۲۸۹)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں