جمعہ، 29 جولائی، 2022

عقیقہ کے کیا احکام ہیں؟ وضاحت فرمائیں سوال نمبر ٣٦٠

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

جناب مفتی صاحب عقیقہ کی شرعی حیثیت کیا ہے کب سے کب تک کرسکتے ہیں؟ اور کتنے جانور ذبح کرنا ہے؟ عقیقہ میں لڑکوں کے نام کتنے ہونے چاہئیں اور ایک نام کا ایک بکرا کرلیا تو عقیقہ ہو جایگا؟ عقیقہ لڑکے کاہے۔

سائل عبدالطیف مہوا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


بچے کی پیدائش پر بطورِ شکرانہ جو قربانی کی جاتی ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں، اور اس کا مستحب  وقت پیدائش کا ساتواں دن ہے، اگر ساتویں روز عقیقہ نہ کرسکے تو چودہویں روز کرلے، اور چودہویں روز نہ کیا تو اکیسویں روز کرلے، اور کسی مجبوری کے بغیر اس سے زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ سنن ترمذی میں ہے


صاحب استطاعت افراد کے لیے  اپنے نومولود بچہ کا عقیقہ اس کی زندگی میں پیدائش کے ساتویں دن کرنا، اس کے بال اتروانا، اور اس کے بقدر چاندی یا سونا صدقہ کرنا مستحب ہے، ساتویں دن نہ کرسکیں تو چودہویں دن، پھر اکیسویں دن۔ اس کے بعد اگر کرنا ہے تو پیدائش سے ساتویں دن کی رعایت کرلی جائے، ساتویں دن کے بعد عقیقے کے لیے بال اتروانا ثابت نہیں، اگر عقیقے کے لیے جانور خریدا اور پھر بچہ مرگیا تو اس جانور کا جو چاہے کرے، خوداپنے استعمال میں بھی لاسکتا ہے۔


البتہ شریعت مطہرہ میں عقیہ کے بارے میں کچھ فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ لڑکے کے عقیقہ کے لئے دو چھوٹے جانور ذبح کرنا افضل ہے، جبکہ لڑکی کے لئے ایک چھوٹا جانور ذبح کرنا کافی ہے، لہذا لڑکے کی طرف سے چھوٹا جانور ہے تو دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنا مستحب ہے، تاہم اگر لڑکے کے عقیقہ میں دو چھوٹے جانور کی وسعت نہ ہو تو ایک چھوٹا جانور کرنے سے بھی عقیقہ ہوجائے گا۔


اسی طرح سے اگر بڑا جانور ہے تو لڑکے کی طرف سے دوحصے اور لڑکی کی طرف سے ایک حصہ ذبح کرنے سے بھی عقیقہ ہوجائے گا، اور اگر کئی بچوں کا عقیقہ ایک ساتھ کرنے کا ارادہ ہو تو بڑے جانور میں سات تک حصہ کیے جا سکتے ہیں، اور ہر حصہ ایک چھوٹے جانور کی طرف سے کافی ہوگا، یعنی بچی کے لئے ایک حصہ اور بچے کی طرف سے دو حصے کرنے سے عقیقہ ادا ہوجائے گا۔


سنن ترمذی میں ہے

عن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: الغلام مرتهن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع، و يسمي و يحلق رأسه. قال الإمام الترمذي: و العمل علي هذا عند أهل العلم، يستحبون أن يذبح عن الغلام يوم السابع، فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم إحدي و عشرين (أبواب الأضاحي، باب ما جاء في العقيقة، ١/ ٢٧٨، ط: سعيد) 


مشکاۃ المصابیح میں ہے

عن أم كرز رضی الله عنها ، قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: اقروا الطير على مكناتها، قالت وسمعته يقول: عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة ولايضرکم ذكرانا كن أو إناثا. رواه أبو داود والترمذي والنسائي۔ (مشکاۃ المصابیح ص ٣٦٢ ط قدیمی)


اعلاء السنن میں ہے

أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع (١٧/١١٧ باب العقیقہ، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة)

ایضاً 

عن الربيع بن صبيح عن الحسن البصري إذا لم يعق عنک، فعق عن نفسك وإن كنت رجلا۔ ( ١٧/١٢١ ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة)


فتاوی شامی میں ہے:

يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً۔ (فتاوی شامی ٩/٤٨۵ کتاب الأضحیة، ط: سعید)


العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:

ووقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ، فلا يجزئ قبلها، وذبحها في اليوم السابع يسن، والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة ؛ للتبرك بالبكور۔ (العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية كتاب الشرب، ٢/ ٢١٣، دار المعرفة)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: