سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
جناب مفتی صاحب کیا قربانی کے جانور میں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی قربانی کرنا ضروری ہے؟
سائل: عبداللطیف مہوا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنا شرعا لازم یا ضروری نہیں ہے البتہ جائز اور درست ہے، بلکہ حصول سعادت کا ذریعہ ہے، اگر کوئی شخص اپنی طرف سے واجب قربانی کرنے کے بعد محسن انسانیت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرتا ہے٬ تو یہ بہت بڑی فضیلت اور ثواب کی بات ہے٬ لیکن اگر کوئی شخص ایسا نہ کرے٬ تو اس میں کوئی گناہ بھی نہیں ہے٬
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے قربانی کرنا بلاشبہ جائز اور درست ہے، بلکہ حصول سعادت کا ذریعہ ہے، شامی میں ہے۔
وختم ابن السراج عنہ صلی اللہ علیہ وسلم أکثر من عشرة آلاف ختمہ، وضحی عنہ مثل ذلک، وقول علمائنا لہ أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ یدخل فیہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم فإنہ أحق بذلک۔
مرحومین کے نام سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے، یہ سلسلہ امت میں بلا کسی اختلاف کے جاری ہے، اور اس کا ثواب ان تک پہنچتا ہے، زندہ لوگوں کے نام سے بھی کوئی دوسرا شخص عمرہ کرسکتا ہے، ایصالِ ثواب زندہ اور مردہ ہرایک کے لیے درست ہے۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند فتوی نمبر ٤٩٢٩١)
اسی طرح فتاوی بنوریہ میں ہے کہ: حضور اقدس ﷺ نے نام سے مستقل قربانی کا جانور ذبح کرنا نہ صرف جائز، بلکہ مستحب اور اجرو ثواب کا باعث ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے نام سے کی گئی قربانی کا حکم ”نفلی قربانی“ والا ہے، اس کا گوشت خود کھانا، مال داروں یا غریبوں کو دینا سب جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کی طرف سے بھی قربانی فرماتے تھے، نیز آپ ﷺ کے امت پر بے انتہا احسانات ہیں، لہٰذا بصورتِ گنجائش امتی کو بھی رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قربانی کرنی چاہیے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 326):
" قال في البدائع: لأن الموت لا يمنع التقرب عن الميت، بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين: أحدهما عن نفسه، والآخر عمن لم يذبح من أمته»، وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح" اهـ
وفيه أيضًا (2/ 595) :
"الأصل أن كل من أتى بعبادة ما، له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه؛ لظاهر الأدلة. وأما قوله تعالى: ﴿ وَاَن لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى﴾ [النجم: 39] أي إلا إذا وهبه له، كما حققه الكمال، أو اللام بمعنى على كما في ﴿وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ﴾ [غافر: 52] ولقد أفصح الزاهدي عن اعتزاله هنا والله الموفق.
(قوله: بعبادة ما) أي سواء كانت صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءةً أو ذكراً أو طوافاً أو حجاً أو عمرةً، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة و السلام، و الشهداء و الأولياء و الصالحين، و تكفين الموتى، و جميع أنواع البر، كما في الهندية. ط. و قدمنا في الزكاة عن التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلاً أن ينوي لجميع المؤمنين و المؤمنات؛ لأنها تصل إليهم و لاينقص من أجره شيء. اهـ (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر ١٤٤٢١١٢٠١١٥٢)۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں