سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ
امام ابو یوسف جب مرض الموت میں تھے تب ایک شاگرد ان کے پاس آئے تو دیکھا کے امام ابو یوسف کچھ پریشان ہے تو پوچھا کیا بات ہے تو امام صاحب نے کہا کہ ایک مسئلہ ہے کہ رمئ جمار پیدل افضل ہے یا سوار ہوکر تو شاگرد نے کہا کہ سوار ہوکر تو امام ابو یوسف نے کیا نہی تو شاگرد نے کہا کہ پھر تو پیدل افضل ہے تو کہا نہی تو امام ابو یوسف نے کیا جواب دیا تھا؟ برائے کرم تسلی بخش جواب ارسال فرمائیں
سائل: محمد بن سعید پالنپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
امام ابو یوسف جب مرض الموت میں تھے تب ایک شاگرد ان کے پاس آئے تو امام صاحب نے آنکھیں کھولی اور کہا کہ رمئ جمار پیدل افضل ہے یا سوار ہوکر تو شاگرد نے کہا کہ سوار ہوکر تو امام ابو یوسف نے فرمایا آپ نے جواب صحیح نہیں دیا تو شاگرد نے کہا کہ پھر تو پیدل افضل ہے تو کہا آپ نے جواب صحیح نہیں دیا۔
اس وقت حضرت امام ابویوسف نے یہ جواب دیا تھاکہ جس رمی کے بعد رمی ہو وہ پیدل افضل ہے اور جس رمی کے بعد رمی اور وقوف نہ ہو وہ سوار ہوکر افضل ہے۔
ابتہ سوال میں مذکور یہ جملہ (تو دیکھا کے امام ابو یوسف کچھ پریشان ہے تو پوچھا کیا بات ہے) یہ تلاش بسیار کے بعد بھی مجھے نہیں ملا واللہ اعلم ۔
ہدایہ کے حاشیہ میں علامہ لکھنوی سے منقول ہے
مروی عن ابی یوسف حکی عن ابراہیم بن الجراح قال دخلت على ابن ابی يوسف في مرضه الذي مات فيه فتح عینیہ وقال الرمی راکبا افضل ام ماشیا فقلت راکبا قال اخطأت فقلت ماشیا قال اخطأت ثم قال کل رمي بعده رمی فہو ماشیا افضل و مالیس بعده وقوف ورمی فالرکوب افضل فقمت من عنده فلما انتهت الى باب الدار سمعت صراخ موتہ فتعجبت من حرمه على المسلم كذا في الشرح فان قلت ما وجه اشتغالہ بهذه المسالة قلت شرح الرمي في الأصل لدفع الشيطان وابويوسف كان محتضرا في ذلك الوقت فلذا ذكره بذه المسالة فاعرف فهذا ما سمح به خاطری بفضل اللہ تعالی۔(نقلہ شیخ عبدالحی لکھنوی فی حاشیۃ الھدایہ ١/٢٧۵ مکتبہ رحمانیہ) واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں