منگل، 27 ستمبر، 2022

سید کا سرکاری اسکیم سے فائدہ اٹھانا کیساہے؟ سوال نمبر ٣٨٨

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ 

صورت مسئلہ یہ ہےکہ کیا سید کا سرکاری اسکیم سے فائدہ اٹھانا کیساہے مثلا اسکول میں اسکالر شپ ۔ آئ عثمان ۔لاڈلی یوجنا وغیرہ ۔تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں ۔

سائل محمد ارشاد بھوپال


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جن لوگوں کا سلسلہِ نسب حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل، حضرت علی یا حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم تک تحقیقی طور پر پہنچتا ہے اور ان کے نسب نامہ میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے تو وہ سید کہلاتے ہیں، آل رسول کی نسبت سے ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔


اور آل رسول کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مبارک ارشاد ہے اس میں سادات کے لئے صرف ان اموال کے لینے سے منع فرمایاہے جو صدقات واجبہ کی قبیل سے ہو یا پھر وہ مال واجب التصدق ہو اگر وہ اموال زکوۃ اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ کوئی اور رقم ہو یا کسی اسکیم کی قبیل سے ہو اور سودی شائبے سے خالی ہو تو وہ بمنزلۂ تحفہ کے شمار ہوکر جائز ہوگا۔


حکومت کی طرف سے مذکورہ اسکیمیں اگر سودی نہیں ہے اور اسکیم سے فائدہ اٹھانے میں کسی محظور شرعی کا ارتکاب لازم نہیں آتا ہے تو سرکاری ضابطے کے مطابق مستحق لوگ اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں چاہے وہ سادات میں سے ہی کیوں نہ ہو۔


مشکوۃ شریف میں ہے 

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ان ھذہ الصدقات انما ھی اوساخ الناس، وانھا لاتحل لحمد ولا لآل محمد صلی اللہ علیہ وسلم (المشکاۃ المصابیح ١/١٦١)


ہدایہ میں ہے

ولا تدفع الی بنی ہاشم لقولہ علیہ السلام : یابنی ہاشم: ان اللہ تعالیٰ حرم علیکم غسالۃ الناس وأوساخھم۔ (الھدایۃ ١/٢٠٦)


البحر الرائق میں ہے 

ولا یدفع إلی بنی ہاشم وموالہیم أي لا یجوز الدفع لہم لحدیث البخاري نحن أہل بیت لا تحل لنا الصدقۃ ولحدیث أبي داؤد مولی القوم من أنفسہم وأنا لاتحل لنا الصدقۃ أطلق في بني ہاشم۔ (البحر الرائق ٢/٢٤٦ ط: سعید)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

اتوار، 25 ستمبر، 2022

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے کے وقت درود شریف پڑھنا واجب ہے یا مستحب؟ سوال نمبر ٣٨٧

سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب یہ معلوم کرنا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آنے پر درود شریف پڑھنا واجب ہے یا نہیں دار العلوم دیوبند کے فتویٰ پڑھا جس سے ایسا لگتا ہے کہ بس زندگی میں ایک ہی مرتبہ فرض ہے ۔جبکہ بنوری ٹاؤن کے فتوے میں اور زاد شفاعت مجالس حکیم الامت میں یہ مسئلہ پڑھا ہے کہ جس مجلس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہو تو درود شریف پڑھنا واجب ہے اگر بار بار ہو تو پہلی مرتبہ واجب ہے پھر مستحب ہے اور ایک مفتی صاحب نے بتایا ہے کہ اصح قول عدم وجوب کا ہے ،برائے مہربانی باحوالہ وضاحت  فرمادیں کیا بات صحیح ہے؟ جزاک اللہ خیرا

سائل عبد السلام خالد روڑکی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


درود شریف کے پڑھنے کے سلسلہ میں جو اقوال و مذاھب وارد ہوئے ہے اس کے  تین مواقع ہے۔

ایک انسان کی پیدائش سے لیکر موت تک درود شریف پڑھنے کا شرعی حکم 

اس سلسلہ میں جمہور علماء کے نزدیک درود شریف کا کم سے کم عمر میں ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے، بعض علماء نے اس پر اجماع بھی نقل کیا ہے،


دوسرا نماز میں قعدہ اخیرہ میں درودشریف کے پڑھنے کا شرعی حکم 

قعدہ اخیرہ میں درود شریف پڑھنا احناف کے یہاں سنت ہے، اور اگر کسی نے نماز میں درود نہیں پڑھا تو اس نے سنت کو چھوڑ دیا جس کی وجہ سے وہ قابل عتاب تو ہوگا لیکن سنت کے ترک سے نماز ہوجاتی ہے،  البتہ نماز کا ثواب کم ہوجاتاہے۔ اور شوافع و حنابلہ کے یہاں فرض ہے ان کے یہاں نہ پڑھنے پر نماز کا اعادہ لازم ہوگا۔


فتاوی شامی میں اس کی اس طرح سے وضاحت ہے

والصلاة على النبي) في القعدة الأخيرة. وفرض الشافعي قول: اللهم صل على محمد ونسبوه إلى الشذوذ ومخالفة الإجماع۔ (فتاوی شامی ٢/١٧٤)


تیسرے نمبر پر جب بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہو تو درود شریف کے پڑھنے کا شرعی حکم

اس سلسلہ میں علماء احناف کی  دو رائیں پیش کی جاتی ہے ایک رائے امام طحاوی کی پیش کی جاتی ہے کہ چاہے مجلس میں ہو یا غیر مجلس میں جب جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی لیا جائے گا تو درود پڑھنا واجب ہوگا۔

دوسری رائے امام کرخی کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی تکرار سے درودشریف میں تکرار لازم نہیں ہے بلکہ ایک مرتبہ بڑھ لینا کافی ہوگا علامہ شامی نے تصحیح قول کی طرح اشارہ کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اگر مجلس ایک ہو اور حضور کے نام میں تکرار ہو تو درود شریف میں تکرار واجب نہیں ہے ایک مرتبہ پڑھ لینا کافی ہے اور مختلف مجالس میں اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا جائے تو درود شریف میں تکرار واجب ہے۔


فتاوی شامی میں اس مسئلہ کی وضاحت اس طرح سے کی ہے

ثم قال: فتكون فرضا في العمر، وواجبا كلما ذكر على الصحيح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوله: في الأصح) صححه الزاهدي في المجتبى، لكن صحح في الكافي وجوب الصلاة مرة في كل مجلس كسجود التلاوة حيث قال في باب التلاوة: وهو كمن سمع اسمه عليه الصلاة والسلام مرارًا لم تلزمه الصلاة إلا مرة في الصحيح لأن تكرار اسمه صلى الله عليه وسلم لحفظ سنته التي بها قوام الشريعة، فلو وجبت الصلاة بكل مرة لأفضى إلى الحرج، (فتاوی شامی ٢/٢٢٧)


تفسیر معارف القرآن میں اس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ: اس پر بھی جمہور فقاء کا اتفاق ہے کہ جب کوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کرے یا سنے تو اس پردرود شریف واجب ہو جاتا ہے۔ کیونکہ حدیث میں آپ کے ذکر مبارک کے وقت درود شریف نہ پڑھنے پر وعید آئی ہے، جامع ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : رغم انف رجل ذکرت عندہ فلم یصل علیٰ، ”یعنی ذلیل ہو وہ آدمی جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے“ (قال الترمذی حدیث حسن و رواہ ابن السنی باسناد جید)

اور ایک حدیث میں ارشاد ہے البخیل من ذکرت عندہ فلم یصل علیٰ ”یعنی بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے“ (رواہ الترمذی و قال حدیث حسن صحیح)

مسئلہ : اگر ایک مجلس میں آپ کا ذکر مبارک بار بار آئے تو صرف ایک مرتبہ درود پڑھنے سے واجب ادا ہو جاتا ہے، لیکن مستحب یہ ہے کہ جتنی بار ذکر مبارک خود کرے یا کسی سے سنے ہر مرتبہ درود شریف پڑھے۔ حضرات محدثین سے زیادہ کون آپ کا ذکر کرسکتا ہے کہ ان کا ہر وقت کا مشغلہ ہی حدیث رسول ہے، جس میں ہر وقت بار بار آپ کا ذکر آتا ہے، تمام ائمہ حدیث کا دستور یہی رہا ہے کہ ہر مرتبہ درود سلام پڑھتے اور لکھتے ہیں ۔ تمام کتب حدیث اس پر شاہد ہیں ۔ انہوں نے اس کی بھی پروا نہیں کی کہ اس تکرار صلوٰة و سلام سے کتاب کی ضخامت کافی بڑھ جاتی ہے کیونکہ اکثر تو چھوٹی چھوٹی حدیثیں آتی ہیں جن میں ایک دو سطر کے بعد نام مبارک آتا ہے، اور بعض جگہ تو ایک سطر میں ایک سے زیادہ مرتبہ نام مبارک مذکور ہوتا ہے، حضرات محدثین کہیں صلوٰة و سلام ترک نہیں کرتے۔ (معارف القرآن سورۂ احزاب آیت ۵٦)


اسی طرح تفسیر ماجدی میں اس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ: درود کے واجب ہونے پر تو ہر مذہب کے فقہاء کا اتفاق ہے۔ لیکن فقہاء حنفیہ اور بعض دوسرے ائمہ کی رائے ہے کہ عمر میں ایک بار بھی اگر پڑھ دیا تو فرض ادا ہوگیا ۔ قد تضمن الامر بالصلوۃ علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وظاہرہ یقتضی الوجوب وھو فرض عندنا فمتی فعلھا الانسان مرۃ واحدۃ فی صلاح او غیر صلاۃ فقد ادی فرضہ وھو مثل کلمۃ التوحید والتصدیق بالنبی صلی اللہ علیہ والہ وسلممتی فعلہ الانسان مرۃ واحدۃ فی عمرہ فقد ادی فرضہ (جصاص) لاخلاف للعلماء فی ان ھذا الامر للوجوب وانما الخلاف فی اوقاتہ واعدادہ فعند مالک والطحاوی یجب فی العمر مرۃ والباقی مندوب (احمدی) ولاخلاف فی ان الصلاۃ علیہ فرض فی العمر مرۃ (قرطبی) (تفسیر ماجدی سورۂ احزاب آیت ۵٦)


اور تفسیر مظہری میں اس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ: جو لوگ کہتے ہیں کہ جب بھی رسول ﷲ کا نام آئے درود پڑھنا واجب ہے ‘ انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ کی رویت میں آیا ہے کہ رسول ﷲ نے فرمایا : اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس نے سامنے میرا تذکرہ آیا ہو اور اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا ہو اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو کہ اس پر رمضان آ کر گذر بھی جائے اور اس کی مغفرت نہ ہو اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو کہ اس کے ماں باپ یا دونوں میں سے ایک اس کی زندگی میں بوڑھے ہو جائیں اور اس شخص کی جنت میں داخلہ کا ذریعہ نہیں بنیں (یعنی بیٹا بوڑھے ماں باپ کی خدمت نہ کرے اس لئے وہ ناراض رہیں اور یہ شخص جنت سے محروم ہو جائے) رواہ الترمذی وابن حبان فی صحیحہ۔

حضرت جابر بن سمرہ کی روایت ہے کہ رسول ﷲ نے فرمایا : جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے اور دوزخ میں چلا جائے ‘ اللہ اس کو دور رکھے۔

حضرت ابن عباس کی مرفوع حدیث ہے کہ رسول ﷲ نے فرمایا : میرے پاس جبرئیل آئے (اور انہوں نے کہا) جس شخص کے سامنے آپ کا تذکرہ ہو اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے اور (اس وجہ سے) دوزخ میں داخل ہو جائے ‘ پس اللہ اس کو دور رکھے۔ یہ دونوں حدیثیں طبرانی نے نقل کی ہیں۔

ابن سنی نے حضرت جابر کی مرفوع حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کے سامنے میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود نہیں پڑھا ‘ وہ بدنصیب ہو گیا۔

حضرت علی راوی ہیں کہ رسول ﷲ نے فرمایا : جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے ‘ وہ بخیل ہے ‘ رواہ الترمذی۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح غریب کہا ہے۔ امام احمد نے یہ حدیث حضرت امام حسین کی روایت سے بیان کی ہے۔ (تفسیر مظہری سورۂ احزاب آیت ۵٦)


تفسیر انوار البیان میں اس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ: حضرت کعب بن عجرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ چنانچہ ہم حاضر ہوگئے (اور آپ منبر پر چڑھنے لگے) جب آپ نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا ’’ آمین ‘‘ پھر جب دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر فرمایا ’’ آمین ‘‘ جب تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر فرمایا ’’ آمین ‘‘ جب آپ منبر سے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے نہ سنتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ سبب اس کا یہ ہوا کہ جبریل میرے سامنے آئے اور جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو جبریل نے کہا کہ ہلاک ہو وہ شخص کہ جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا آمین، پھر جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو جبرائیل نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپ کا اسم گرامی لیا جائے اور وہ آپ پر درود نہ بھیجے، میں نے کہا آمین، پھر جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو جبرائیل نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے دونوں والدین یا ان میں سے ایک بوڑھا ہوجائے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کریں۔ (الترغیب و الترہیب)

ضروری مسئلہ : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر خود کرے یا کسی سے سنے تو درود شریف پڑھے، اسی طرح جب کوئی مضمون یا تحریر لکھنے لگے تو اس وقت بھی درود شریف کے الفاظ لکھنا واجب ہے، کم از کم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ضرور لکھ دے، بعض لوگ اختصار کے طور پر ’’ صلعم ‘‘ ’’ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘‘ لکھ دیتے ہیں، یہ صحیح نہیں پورا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھیں یا علیہ الصلوٰۃ والسلام لکھ دیں، صلوٰۃ کے ساتھ سلام بھی بھیجنا چاہیے دونوں کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ (تفسیر انوار البیان سورۂ احزاب آیت ۵٦ مولانا عاشق الہی بلند شہری)


تفسیر مدارک میں اس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ: قول کرخی ایک مرتبہ واجب ہے۔ قول طحاوی (رح) : جب بھی آپ کا نام لیا جائے اس وقت واجب ہے اور احتیاط اسی قول میں ہے اور جمہور کا یہ قول ہے۔ (تفسیر مدارک سورۂ احزاب آیت ۵٦)


آسان تفسیر القرآن میں اس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ: اس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ زندگی میں ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام پیش کرنا فرض ہے ؛ لیکن اگر ایک ہی مجلس میں کئی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ذکر آئے تو کیا ایک دفعہ صلاۃ و سلام بھیجنا کافی ہوجائے گا یا ہر بار کہنا ضروری ہے ؟ اس سلسلہ میں دو رائیں ہیں ، ایک یہ کہ ہر بار صلاۃ و سلام پڑھنا واجب ہوگا ، مشہور مفسر علامہ قرطبی نے اسی کو ترجیح دی ہے ؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے ، وہ دوزخ میں داخل ہوگا ، اللہ اس کو محروم ہی رکھے ، (صحیح ابن حبان ، کتاب الرقائق ، باب الأدعیۃ ، حدیث نمبر : ۹۰۷) دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایک مجلس میں ایک بار صلاۃ و سلام پڑھ دینا کافی ہے ، ( تفسیر قرطبی : ۱۴؍۲۳۲ - ۲۳۳) آسان تفسیر سورۂ احزاب آیت ۵٦ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)


خلاصۂ کلام

یہ ہوا کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ درود شریف پڑھنا فرض ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے کے وقت اگر مجلس ایک ہو تو اختتام مجلس تک ایک مرتبہ درودشریف پڑھنا واجب ہے اور ہر مرتبہ پڑھنا مستحب ہے اور اگر مختلف مجالس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہو تو ہر مرتبہ درود شریف پڑھنا واجب ہے نہ پڑھنے پر گنہگار ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

جمعرات، 22 ستمبر، 2022

کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والے امام سے آگے نکل جائے تو کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٨٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت مقتدی کے پاؤں جو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ رہاہے امام سے آگے نکل گئے کیا اس کی نماز ہوگی اور دوسری بات یہ معلوم کرنی ہے اگر پاؤں تو پیچھے ہو لیکن سجدہ کرتے ہوئے سر امام کے سر سے آگے ہوجائے تو کیا حکم ہے؟ مدلل جواب دیں مہربانی ہوگی

سائل عبد السلام خالد اتراکھنڈ روڑکی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


باجماعت نماز میں اقتدا  صحیح ہونے کے لیے یہ لازم ہے کہ مقتدی امام سے آگے نہ بڑھے اس لئے کہ نماز میں امام سے آگے بڑھ جانا مفسدِ صلاة ہے اور آگے بڑھ جانے کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی کی ایڑی امام کی ایڑی سے آگے بڑھ جائے  اگر مقتدی کی ایڑی امام کی ایڑی سے آگے نہیں بڑھتی ہے تو اگر چہ سجدے میں مقتدی کا سر آگے چلا جائے نماز فاسد نہ ہوگی۔


ویقف الواحد أي محاذیا مساویاً لیمین امامہ علی المذہب ،ولا عبرة بالرأس بل بالقدم ۔۔۔۔۔ فلو حاذاہ بالقدم ووقع سجودہ مقدماً علیہ لکون المقتدي أطول من امامہ لایضر، ومعنی المحاذاة بالقدم المحاذاة بعقبہ․(شامی ۲/ ۳۰۷۔ ۳۰۸ط: زکریا دیوبند) 


کرسی پر نماز کے استفسار پر فتاوی بنوریہ میں اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ: لوگ شرعی  عذر  کی بنیاد  پر کرسی پر  بیٹھ کر نماز  پڑھتے ہیں  ان کے لیے جماعت میں شرکت کے وقت صف میں  کرسی رکھنے کا صحیح طریقہ  یہ ہے کہ کرسی اس طرح رکھی جائے کہ اس  کے پچھلے  پائے صف میں کھڑے   مقتدیوں کی ایڑیوں  کے برابر ہوں یا صف کی لکیر پر ہوں، تاکہ بیٹھنے کی صورت میں ان   کا کندھا  دیگرنمازیوں کے کندھے   کے برابر اور سیدھ میں ہو۔


اوراگر مقتدی ایک ہو اور معذور ہو، کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو، تو اس کی کرسی اس طرح رکھی جائے کہ کرسی کے اگلے پائے امام کے پاؤں سے پیچھے ہوں، اور ایسی صورت میں (یعنی جو مریض زمین پر سجدے کی قدرت نہ ہونے کی وجہ سے کرسی پر نماز پڑھتا ہو، کے لیے) شروع سے پوری نماز بیٹھ کر پڑھنا افضل ہے،البتہ اگر وہ کھڑے ہوکر نماز شروع کرتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس شخص کے قدم امام کے قدم سے پیچھے ہوں۔


منحةالخالق میں ہے

(قوله: بعد أن يكون محاذيًا بقدمه أو متأخرا قليلا) أقول: أفرد القدم فأفاد أن المحاذاة تعتبر بواحدة ولم أره صريحا، والظاهر أنه لو كان معتمدًا على قدم واحدة فالعبرة لها، ولو اعتمد على القدمين، فإن كانت إحداهما محاذية والأخرى متأخرة فلا كلام في الصحة۔ (منحة الخالق على هامش البحر الرائق: كتاب الصلاة، وقوف المأمومين في الصلاة خلف الإمام (١/٣٧٤ ط. دار الكتاب الإسلامي، الطبعة الثانية)


 الموسوعة الفقہیة الکویتیة میں ہے

يشترط لصحة الاقتداء ألا يتقدم المقتدي إمامه في الموقف عند جمهور الفقهاء (الحنفية والشافعية والحنابلة ) لحديث إنما جعل الإمام ليؤتم به والائتمام الاتباع والمتقدم غير تابع ولأنه إذا تقدم الإمام يشتبه عليه حال الإمام ومحتاج إلى النظر وراءه في كل وقت ليتابعه فلا يمكنه المتابعة والاعتبار في التقدم وعدمه للقائم بالعقب ...... والعبرة في التقدم بالألية للقاعدين وبالجنب للمضطجعين۔ (الموسوعة الفقهية الكويتية: حرف الألف، مادةإقتداء، شروط الإقتداء (٦/٢١ ،ط. الطبعة الثانية ، دارالسلاسل–الكويت) 


البحر الرائق میں ہے

( ويقف الواحد عن يمينه ) أي عن يمين الإمام مساويا له وعن محمد رحمه الله أنه يضع إصبعه عند عقب الإمام وهو الذي وقع عند العوام۔ (تبيين الحقائق: كتاب الصلاة، باب الإمامة ١/١٣٦ ط. دار الكتب الإسلامي۔ سنة النشر ١٣١٣هـ مكان النشر القاهرة)۔ فقط والله أعلم۔ (دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : ١٤٤٢٠۵٢٠١۵٣٤)


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

رضاعی بہن سے نکاح کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٨۵

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت امید ہے کہ آپ بخیریت وعافیت ہونگے ایک مسئلہ ہے ۔ رضاعت کے متعلق ۔

دوبہن ہیں دونوں کے دولڑکے ہیں تو بڑی بہن فاطمہ کا دودھ اسکا اپنا لڑکا بکر نے پیا اور اسکی بہن کا لڑکا زید نے بھی اپنی خالہ فاطمہ کا دودھ پیا تو اب بکر اور زید رضاعی بھائی ہوگئے ۔

پھر فاطمہ کو ایک لڑکی ہوئی جسکا نام زینب ہے اب زید زینب سے نکاح کرنا چاہتاہے تو کیا یہ دونو نکاح کر سکتے ہیں؟ یا دونو رضاعی بھائی بہن ہوۓ ۔

سائل محمد طارق زاہد بہار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


اگر کوئی بچہ مدت ِرضاعت میں کسی عورت کا دودھ پی لے تو دودھ پینے والے بچے پر  دودھ پلانے والی عورت اور اس کے تما م اصول اور فروع حرام ہو جاتے ہیں  اس لیے کہ یہ خاتون  اس بچے کی رضاعی ماں جبکہ اس کی تمام  اولاد  اس بچے  کے رضاعی  بھائی بہن بن جاتے ہیں۔


لہذا رضیع  یعنی وہ بچہ جس نے دودھ پیا ہے وہ اس عورت کی کسی بھی اولاد سے جس کا اس نے دودھ پیا ہے شادی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ سب اس کے رضاعی بھائی بہن شمار ہوں گے، جس طرح حقیقی بھائی بہن سے نکاح حرام ہے،  ایسے ہی رضاعی بھائی بہن سے بھی نکاح حرام ہے۔


صورت مسئولہ میں زید اپنی خالہ زاد رضاعی بھائی کی چھوٹی بہن زینب سے نکاح نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اس کی رضاعی بہن ہے اور رشتۂ رضاعت کی وجہ سے رضاعی بہن حرام  ہوجاتی ہے۔


فتاوی شامی میں ہے 

ولاحل بین رضیعی امرأة لکونہما أخوین، وإن اختلف الزمن (الدر المختار) حتی لو کان أحدہما أنثی لایحل النکاح بینہما، کما ذکرہ مسکین۔ (فتاوی شامی ٤/٤١٠)


فتاوی عالمگیری میں ہے

يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع وأخواته ۔(الفتاوى الهندية، ١/٣٤٣ كتاب الرضاع)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

منگل، 20 ستمبر، 2022

کرسی پہ بیٹھ کر امامت کروانے والے کی اقتداء کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٨٤

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کرسی پہ بیٹھ کر کوئی شخص امامت  کر سکتا ہے اور اگر کسی نے امامت کی ہے نماز کا کیا مسئلہ ہے نماز ہوجائے گی یا دوبارہ لوٹانی پڑے گی؟

سائل محمد صادق رشیدی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


امام بار گاہ خدواندی میں مسلمانوں کی درخواست پیش کرنے کے لئے ایک نمائندہ کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے شریعت کی طرف سے اس کے کچھ مخصوص اوصاف مقرر کئے گئے ہیں ، تا کہ یہ نمائندہ مسلمانوں کے شایان شان ان کی نمائندگی کرسکے ان میں جو لازمی اوصاف شمار کئے گئے ہے اس میں سے رکوع سجدہ پر قدرت کا ہونا بھی ہے اگر سجدہ پر قدرت نہیں رکھتا اشارے سے سجدہ کرتاہے تو اس کی اقتداء درست نہیں ہے۔ 


لہذا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھانے والا امام اگر سجدہ اشارہ سے کرتا ہے تو چونکہ اشارہ کرنے والے کے پیچھے رکوع سجدہ کرنے والوں کی نماز درست نہیں ہوتی اس لیے کرسی پر بیٹھ کر سجدہ کے لیے اشارہ کے ساتھ نماز پڑھنے والا ان لوگوں کی امامت نہیں کرسکتا جو حقیقت میں رکوع و سجده پر قادر ہوں اور جب اقتداء درست نہیں ہوئی تو ان کی نماز بھی ان کی اقتداء میں درست نہیں ہوئی لہذا پڑھی ہوئی نمازیں لوٹائی جائے گی۔


البتہ ان میں سے جو لوگ رکوع اور سجدہ پر قادر نہ ہوں اور وہ بھی اشارے سے رکوع اور سجدہ کرتے ہوں تو ایسے مقتدیوں کا مذکورہ امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا درست ہوگا اور ان کو پڑھی ہوئی نماز بھی نہیں لوٹائی جائے گی۔


البحرالرائق میں ہے

لايفسد اقتداء قائم بقاعد وبأحدب، وأما الأول فهو قولهما، وحكم محمد بالفساد نظراً إلى أنه بناء القوي على الضعيف، ولهما اقتداء الناس بالنبي في مرض موته وهو قاعد وهم قيام وهو آخر أحواله؛ فتعين العمل به بناءً على أنه عليه الصلاة والسلام كان إماماً وأبو بكر مبلغاً للناس تكبيره۔ (البحرالرائق ١/٣٨٦)


فتاوی شامی میں ہے

(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) ولو مع متوضئ بسؤر حمار مجتبى (وغاسل بماسح) ولو على جبيرة (وقائم بقاعد) يركع ويسجد لأنه صلى الله عليه وسلم  صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم  تكبيره۔ (قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقاً"  (فتاوی شامی ٢/٣٣٦ باب الإمامة)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

پیر، 19 ستمبر، 2022

بچہ پیشاب والے بدن سے قرآن پکڑے تو اس کا کیا حکم ہے سوال نمبر٣٨٣

 سوال 

السلام علیکم مفتی صاحب

ایک لڑکا وہے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتاہے رات بستر میں اس نے پیشاب کی کپڑے تبدیل کئے مگر غسل نھی کیا اس کا کیا حکم ہے

سائل محمد محسن آنند


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت اس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ کپڑے اور بدن پاک ہوں کیوں کہ قرآن کریم کی عظمت و جلال کا تقاضہ یہ ہے کہ مکمل آداب واحترام کی رعایت کے ساتھ اس کی تلاوت کی جائے اگر قرآن پاک کی تلاوت  ایسی حالت میں کی جائے  کہ کپڑوں پر کچھ نجاست لگی ہو تو ایسا کرنا تلاوتِ کلامِ پاک کے آداب کے خلاف ہے۔

فقہاء کرام نے نجاست کے قریب تلاوت کرنے کو مکروہ لکھا ہے، اس لئے اگرنجس کپڑے پہنے ہوں تو قرآن کریم کی  تلاوت نہیں کرنی چاہئے تلاوت کرتے وقت لباس نجاست وغیرہ سے پاک ہو، لہذا بغیر کسی مجبوری کے ناپاک کپڑوں کے ساتھ تلاوت کرنا خلاف ادب ہے۔

البتہ نابالغ بچے چونکہ احکام کے مخاطب نہیں ہے اس لئے ان کا حکم الگ ہے صرف تعلیم کے خاطر ان کو غسل کروالیں ورنہ وہ اس حالت میں بھی قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو وہ ماخوذ نہیں ہوں گے فقہاء نے تو اس پر وضو تک کو ضروری قرار نہیں دیا ہے، لہذا ان کے لئے بغیر وضو کے بھی قرآن مجید کو ہاتھ لگانے کی گنجائش ہے۔


فتاویٰ شامی میں ہے:

الحاصل أن الموت إن كان حدثا فلا كراهة في القراءة عنده ، وإن كان نجسا كرهت ، وعلى الأول يحمل ما في النتف وعلى الثاني ما في الزيلعي وغيره وذكر أن محل الكراهة إذا كان قريبا منه أما إذا بعد عنه بالقراءة فلا كراهة .(فتاویٰ شامی ٣/٨۵ باب صلاۃ الجنازۃ)


فتاوی شامی میں ہے 

(ولا یکرہ مس صبي لمصحف ولوح) ۔۔۔۔۔۔۔۔ (ولا یکرہ مس صبي) فیہ أن الصبي غیر مکلف ، والظاہر أن المراد لا یکرہ لولیہ أن یترکہ یمس ۔ (للضرورۃ) لأن في تکلیف الصبیان وأمرہم بالوضوء حرجاً بہم ، وفي تاخیرہ إلی البلوغ تقلیل حفظ القرآن ۔ (الدر المختار مع رد المحتار کتاب الطہارة مطلب یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء،۱/۳۱٦ )


فتاوی عالمگیری میں ہے 

رجل أراد أن يقرأ القرآن فينبغي أن يكون على أحسن أحواله يلبس صالح ثيابه ويتعمم ويستقبل القبلة؛ لأن تعظيم القرآن والفقه واجب، كذا في فتاوى قاضي خان ... یکره أن یقرأ القرآن في الحمام؛ لأنه موضع النجاسات، و لایقرأ في بیت الخلاء، کذا في فتاوی قاضي خان۔ (الفتاوی الهندیة الباب الرابع في الصلاة و التسبیح، ۵/٣١٧ ط: رشیدیة)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

عیدگاہ کے موقع پر چندہ کرکے امام خادم اور پولیس کو ہدیہ اور نذرانہ پیش کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٨٢

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمإ کرام ومفتیان کرام  مسٸلہ ذیل کے بارے میں عیدین کے موقعہ پر عید گاہ میں چندہ جمع کیا جاتا ھے عید گاہ کے نام سے ۔پھر عید کی نماز کے بعد اس رقم سے امام کو بھی دیا جاتاھے اور دوسرے خادم کو بھی دیاجاتاھے اور پولس کے آدمی بھی بطور نگرانی کے آتے ھیں ۔انکو بھی دیا جاتاھے ۔کیا اسطرح سے جاٸز ھے یا نہیں؟ اسکا جواب مفصل مرحمت فرماۓ۔

سائل شھاب الدین  سھارنپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اگر کمیٹی کے طرف سے پہلے سے ضابطہ کے مطابق یہ طے ہو کہ عید کے موقع پر جو چندہ ہوگا اس سے  امام اور خادمین کو دیا جائے گا اور چنده دہندگان کو بھی اس کا علم ہے یا چنده دہندگان نے ازخود اس کی اجازت دی تھی یا مستقل طور  پر اس کے لیے ہی چندہ کیا گیا تو ان صورتوں میں مذکوره رقم سے ان لوگوں کو دینا جائز ہوگا۔


لیکن اگر پہلے سے طے نہ ہو اور نہ ہی چندہ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا گیا تھا نہ ہی اس غرض سے چندہ کیا گیا بلکہ عید الفطر کے حوالہ سے عمومی چندہ کیا گیا تھا تو اب اس چندہ سے امام و خادم اور پولیس وغیرہ کو ہدیہ دینا جائز نہیں ہوگا۔


فتاوی شامی  میں ہے

(ويبدأ من غلته بعمارته) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح، وتمامه في البحر ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح ۔۔۔۔ وقوله إلى آخر المصالح : أي ،صالح المسجد يدخل فيه المؤذن والناظر ، ويدخل تحت الإمام الخطيب لأنه إمام الجامع۔ (فتاوی شامی ٦/۵٦٠ کتاب الوقف ،مطلب في وقف المنقول قصدا)


الأشباہ و النظائر میں ہے 

شرط الواقف کنص الشارع أي في وجوب العمل بہ وفي المفہوم والدلالۃ (الأشباہ و النظائر کتاب الوقف من الفن الثاني، ٢/١٠٦ ط إدارۃ القرآن)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

ہفتہ، 17 ستمبر، 2022

بیمہ کمپنی سے انشورنس کی رقم لینا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٨١

سوال

السلام علیکم جناب مفتی صاحب ایک بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہی انتقال ہو گیا انتقال کے بعد ویماکمپنی والوں نے کچھ پیسا انکے گھر والوں کو دیا اور ان کے گھر والوں نے ان کی بہنو میں تقسیم کیا تو کیا وہ ویماکمپنی کے پیسالےسکتے ہے یا نہیں سائل عبداللطیف مہوا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


ڈرائیور کے چلانے سے ہی گاڑی چلتی اور حرکت کرتی ہے، اور ایکسیڈنٹ کی وجہ سے کوئی مرتا ہے تو اس کی نسبت گاڑی کی طرف نہیں بلکہ ڈارئیور کی طرف کی جاتی ہے اور اگر اس سے کوئی شخص حادثہ میں مرتا ہے تو شریعت نے ڈرائیور کو قتل خطاء کا ملزم قرار دیا ہے اور قتل خطاء کی صورت میں دیت لازم ہوتی ہے جو شرعی اعتبار سے پورے عاقلہ اور خاندان پر لازم ہوتی ہے اور شرعی اعتبار سے ملزم کے عاقلہ وہ لوگ ہوں گے جن کے ساتھ ان کے تعاون کا تعلق ہے


  انشورنس کمپنی کو ملزم کے عاقلہ (ہم پیشہ) کے قائم مقام سمجھا جائےگا، لہٰذا انشورنس سے میت کے ورثہ کو جو رقم مل رہی ہیں وہ درست ہیں ان کا لینا جائز ہے اور اس میں وراثت بھی جاری ہوگی اور تمام ورثہ اپنے شرعی حصے کے حق دار ہوں گے


فتاوی دارالعلوم دیوبند کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ہر گاڑی ڈرائیور کے چلانے سے چلتی اور حرکت کرتی ہے، لہٰذا جب ایکسیڈنٹ کی وجہ سے کوئی مرتا ہے تو اس کی نسبت گاڑی کی طرف نہیں بلکہ ڈارئیور کی طرف کی جاتی ہے، اسی وجہ سے اگر کوئی شخص کار حادثہ میں مرجاتا ہے تو شرعاً ڈرائیور کو خطاءً قتل کرنے کا ملزم قرار دیا جاتا ہے۔


تکملة فتح الملہم میں ہے

والظاہر أن سائق السیارة ضامن لما أتلفتہ في الطریق سواء أتلفتہ من القدام أو من الخلف، و وجہ الفرق بینہا وبین الدابة علی قول الحنفیة أن الدابة متحرکة بإرادتہا فلا تنسب نفحتہا إلی راکبہا بخلاف السیارة فإنہا لا تتحرک بإرادتہا فتنسب جمیع حرکاتہا إلی سائقہا، فیضمن جمیع ذالک (تکملة فتح الملہم: ۲/۳۱۰، ط: أشرفی دیوبند)


لیکن قتل خطا میں دیت کی ادائیگی شرعاً تنہا قاتل پر لازم نہیں ہوتی ہے بلکہ عاقلہ پر ہوتی ہے اور شرعی اعتبار سے ملزم کے عاقلہ وہ لوگ ہوں گے جن کے ساتھ ان کا تعاون کا تعلق ہے۔ 


ہدایہ میں ہے

والعاقلة أہل الدیون إن کان القاتل من أہل الدیوان یوٴخذ من عطایاہم في ثلاث سنین ․․․․ ومن لم یکن من أہل الدیوان فعاقلتہ قبیلتہ (ہدایة: ٤/٦٤۵-٦٤۷، ط: أشرفی دیوبند)


لیکن غیر اسلامی ممالک میں قوانین اسلامیہ نہ ہونے کی وجہ سے اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہے اس لئے اس طرح کے ممالک میں یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ انشورنس کمپنی کو ملزم کے عاقلہ (ہم پیشہ) کے قائم مقام سمجھا جائے، لہٰذا انشورنس سے میت کے ورثہ کو جو سات لاکھ روپئے مل رہے ہیں وہ درست ہیں ان کا لینا جائز ہے اور اس میں وراثت بھی جاری ہوگی۔ اور تمام ورثہ اپنے شرعی حصے کے حق دار ہوں گے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٦٨٦٣٦)


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

دیہاتی کے لئے جمعہ کی سنتوں کے پڑھنے میں جگہ کی تعیین کا حکم سوال نمبر ٣٨٠

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 زید کے گاؤں میں جمعہ نہیں ہوتا تو زید جمعہ پڑھنے کے لئے قصبہ یا کسی ایسے گاؤں میں جاتا ہے جہاں جمعہ کی ادائیگی ہوتی ہے تو کیا زید کے لئے جمعہ کی سنتیں گھر پر ادا کرنا درست ہے یا زید جمعہ کی سنتیں اسی جگہ جاکر ادا کرے گا جہاں وہ جمعہ پڑھنے جاتا ہے 

سائل صابر سھارنپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


صحت صلاة جمعہ کے لیے شہر یا قریہ کبیرہ جسے قصبہ کہتے ہیں ہونا ضروری ہے، شہر یا قریہ کبیرہ جو مثل قصبہ کے ہو اس کی تعریف یہ ہے کہ آبادی اور بازار ہو جس میں دوکانیں ہوں جو ہمیشہ کھلتی ہوں اور ضروریات کی چیزیں ہمہ وقت مل جاتی ہوں ایسی آبادی میں جمعہ جائز ہے اور وہاں کے رہنے والوں پر جمعہ واجب ہے لیکن کسی وجہ سے وہاں جمعہ نہ پڑھ سکے اور دوسری جگہ جانے کی نوبت آئے تو چونکہ اس پر پہلے سے جمعہ کے شرائط پائے جانے کی وجہ سے جمعہ واجب ہے اس لئے سنتیں مسجد میں پڑھنے سے گھر میں پڑھنا افضل ہے اس لئے کہ اس کی فضیلت زیادہ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنن و نوافل کو گھروں میں پڑھنے کی ترغیب فرمائی ہے اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عام طور پر سنن ونوافل گھر ہی میں ادا فرماتے تھے اس بناء پر گھڑسے سنتیں پڑھ کر نکلنا افضل ہے 


اور جہاں پر جمعہ کے یہ شرائط نہ پائے جانے کی وجہ سے جمعہ نہ ہوتی ہو اور کوئی دیہاتی شخص جمعہ کے وقت شہر میں آئے تو اس پر اس وقت جمعہ واجب ہوگی جب وہ جمعہ کے وقت شہر میں داخل ہوجائے اور اسی وقت اس کا حکم شہری شخص کی طرح ہوگا لہذا گاؤں میں جمعہ کی سنتیں نہ پڑھیں بلکہ شہر میں پہنچ کر پڑھیں کیونکہ اس پر جمعہ کا وجوب شہر میں داخل ہونے کے بعد متحقق ہوگا اور اسی وقت وہ جمعہ کے احکام کا مخاطب ہوگا


بدائع الصنائع میں ہے 

ولنا ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع» ، وعن علي - رضي الله تعالى عنه - «لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع» ، وكذا النبي صلى الله عليه وسلم «كان يقيم الجمعة بالمدينة» ، وما روي الإقامة حولها، وكذا الصحابة - رضي الله تعالى عنهم - فتحوا البلاد وما نصبوا المنابر إلا في الأمصار فكان ذلك إجماعًا منهم على أن المصر شرط؛ ولأن الظهر فريضة فلا يترك إلا بنص قاطع والنص ورد بتركها إلا الجمعة في الأمصار ولهذا لا تؤدى الجمعة في البراري؛ ولأن الجمعة من أعظم الشعائر فتختص بمكان إظهار الشعائر وهو المصر۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ١/٢۵٩)


فتاوی عالمگیر ی میں ہے

الأفضل في السنن والنوافل المنزل لقوله عليه السلام صلاة الرجل في المنزل أفضل إلا المكتوبة۔ (کتاب الصلوۃ ، الباب التاسع فی النوافل ١/١١٣ ط دارالفکر)


فتاوی عالمگیر ی میں ہے

القروي إذا دخل المصر ونوى أن يمكث يوم الجمعة لزمته الجمعة؛ لأنه صار كواحد من أهل المصر في حق هذا اليوم وإن نوى أن يخرج في يومه ذلك قبل دخول الوقت أو بعد الدخول لا جمعة عليه، ولو صلى مع ذلك كان مأجورًا، كذا في فتاوى قاضي خان والتجنيس والمحيط۔ (الفتاوى الهندية ١/١٤۵)۔ واللہ اعلم بالصواب۔

العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

بدھ، 7 ستمبر، 2022

بیٹیوں کو جہیز میں وراثت کا حصہ شمار کرکے دینا کیسا ہے؟ اور وہ وراثت شمار ہوگی یا نہیں سوال نمبر ٣٧٩

سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

حضرت اگر کوٸی آدمی اپنی زندگی میں ہی اپنی اولاد کا حصہ نکالنا چاہے مثلاً اپنی لڑکی کی شادی میں جو سامان دے رہے ہیں وہ اس نیّت سے دے کی یہ اسکی میراث کا حصہ جو اسکا بیٹھتا ہے تو ایسا کرنے سے وہ سامان جہیز نہیں کہلائے گا اور مرنے کے بعد بھی اس لڑکی کو کوئی حصہ ملیگا یا نہیں

سائل شعبان انصاری سھارنپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اور تمام مَملوکہ اموال کا خود مالک ومختار ہوتا ہے، چاہے اپنا سارا مال خرچ کر ڈالے یا کسی کو دے دے، اس کی حیاتی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں بطورِ وراثت کوئی حق و حصہ نہیں ہوتا، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، اسی طرح اگر اپنی زندگی میں اولاد کو  کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے البتہ اولاد کو اپنی حیاتیاتی میں دیا ہوا مال عطیہ اور گفٹ شمار ہوگا میراث نہیں، وراثت کے اعتبار سے تقسیم تو مرنے کے بعد ہوتی ہے قبل الموت وراثت شمار نہیں ہوگی۔


لہذا زندگی میں اپنی اولاد میں سے کسی کو اپنے مال میں سے جو کچھ دیا جائے وہ ہبہ شمار ہوگا، اس کی وجہ سے اس وارث کا میراث میں سے حصہ نہیں ختم ہوتا لہذا والد کے انتقال کے بعد میراث کی تقسیم کے وقت بقیہ بیٹوں کی طرح اس بیٹی کو بھی حصہ ملے گا۔


صورت مسئولہ میں بیٹیوں کو دیا ہوا مال وہ باپ کی طرف سے عطیہ شمار ہوگا اور باپ کے انتقال کے بعد تقسم وراثت میں ان کا بھی حصہ ہوگا اگر بالفرض وہ معاف بھی کردے تو وہ معاف نہیں ہوگا کیوں کہ مال میراث ایک جبری ملک ہے اس میں سے لینا ضروری ہے۔


مشکوۃ المصابیح میں ہے

وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة رواه ابن ماجه (مشکوۃ المصابیح ١/٢٦٦ باب الوصایا، الفصل الثالث،  ط: قدیمی)


العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے

سئل: في أحد الورثة إذا أشهد عليه قبل قسمة التركة المشتملة على أعيان معلومة أنه ترك حقه من الإرث وأسقطه وأبرأ ذمة بقية الورثة منها ويريد الآن مطالبة حقه من الإرث فهل له ذلك؟

الجواب: الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط وقد أفتى به العلامة الرملي كما هو محرر في فتاواه من الإقرار نقلا عن الفصولين وغيره فراجعه إن شئت (العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية ٢/٢٦)


فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے

و علی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطی من أولاده من کان متأدبا ( ۳/٤٦۲ مکتبہ زکریا)


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

ہفتہ، 3 ستمبر، 2022

قاضی کے سامنے بغیر گواہ کے نکاح کے اقرار سے نکاح کا حکم ٣٧٨

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 اگر قاضی کی مجلس میں زوجین نکاح کا اقرار کر لیں جب کہ ان کے پاس اپنے نکاح پر کوئی گواہ موجود نہیں ہے تو کیا صرف ان کے اقرار کے بنیاد پر قاضی ان کے نکاح کا فیصلہ کردے گا؟ یا پھر قاضی گواہوں کو طلب کرے گا ؟ 


فتاوی عالمگیری کی درج ذیل عبارت سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ زوجین کا صرف اقرار کر لینا کافی ہوگا ؟


 *امْرَأةٌ قالَتْ: تَزَوَّجْتُ زَيْدًا بَعْدَ ما تَزَوَّجْت عَمْرًا والزَّوْجانِ يَدَّعِيانِ النِّكاحَ فَهِيَ امْرَأةُ زَيْدٍ* عِنْدَ أبِي يُوسُفَ - تَعالى - وعَلَيْهِ الفَتْوى هَكَذا فِي الفُصُولِ العِمادِيَّةِ وهُوَ الصَّحِيحُ لِأنَّ قَوْلَها تَزَوَّجْت زَيْدًا إقْرارٌ مِنها بِالنِّكاحِ فَصَحَّ الإقْرارُ مِنها فَهِيَ تُرِيدُ بِقَوْلِها بَعْدَ ما تَزَوَّجْت عَمْرًا إبْطالَ إقْرارِها الأوَّلِ ولا تَمْلِكُ هَكَذا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ۔ (الفتاوى الهندية ج ٤ ص ٧٦ كتاب الدعوي ، باب دعوي الرجلين)

لہذا اس صورت میں صحیح حکم کیا ہوگا مدلل بیان فرمائیں۔ 

سائل عبد اللہ مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شریعتِ  مطہرہ نے مسلمانوں کے نکاح منعقد ہونے کے  لئے ایجاب و قبول کے وقت دو مسلمان مرد  یا ایک مرد اور دو عورتوں کو بطور گواہ موجود ہونے کو شرط قرار دیا ہے کہ گواہ نکاح کرنے والے لڑکے اور لڑکی یا ان کے وکیل کے ایجاب و قبول کو عین نکاح کے وقت سن بھی رہے ہوں اور سمجھ بھی رہے ہوں اب چاہے وہ قاضی کے سامنے عقد نکاح ہورہاہو یا کسی اور کے سامنے عقد نکاح ہورہاہو بغیر گواہ کے نکاح درست نہیں ہوگا۔


مسؤلہ عبارت میں بندے کی نظر میں بلا گواہ نکاح کرنے کے بارے میں مسئلہ کی وضاحت مقصود نہیں ہے بلکہ یہاں جو مسئلہ بیان ہورہا ہے وہ رجوع عن الاقرار کا ہے کہ عورت نے زید سے نکاح کا اقرار کیا ہے پھر وہ ما قبل عمرو سے نکاح کا تذکرہ کرکے اپنے اقرار کو باطل قرار کررہی ہے اور کسی چیز کا اقرار کرنے کے بعد اس کا انکار کرنا رجوع کے حکم میں ہوتا ہے اور بعد الاقرار رجوع کرنا درست نہیں ہے اس عبارت میں صرف اسی مسئلہ کی وضاحت مقصود ہے۔ 


فتاوی دارالعلوم دیوبند کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ: کسی چیز کا اقرار کرنے کے بعد اس کا انکار کرنا رجوع کے حکم میں ہوتا ہے؛ البتہ ہر رجوع معتبر اور قابل قبول نہیں ہوتا؛ بلکہ اس میں تفصیل ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر رجوع اُن حقوق اللہ میں ہو، جو شبہ سے ساقط ہوجاتے ہیں تو وہ معتبر اور قابل قبول ہوتا ہے۔ اور اگر حقوق العباد میں ہو یا ان حقوق اللہ میں ہو، جو محض شبہ کی بنیاد پر ساقط نہیں ہوتے تو وہ رجوع معتبر وقابل قبول نہیں ہوتا (موسوعہ فقہیہ، ۶: ۷۲،۷۳، ۷: ۶۰)۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ٦٠١٨٠٨)


اسی طرح میں نے اپنے استاد محترم حضرت مولانا مفتی نثار احمد صاحب سے اس مسئلہ کے بارے میں رجوع کیا تو حضرت نے اس میں ایک بات کا اور اضافہ فرمایا کہ یہاں پر دو دعوؤں میں نتاقض بھی پایا جاتا ہیں  اور جب تناقض عن الدعویین لازم آئے تو اس کا اعتبار نہیں ہوتا لہذا یہاں پر بھی اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔


فتاوی شامی میں ہے

(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب ۔۔۔۔۔۔۔۔ (وشرط حضور شاہدین) أي یشہدان علی العاقدین۔ (شامی: ۴/۸۷، ط: زکریا)


فتاوی عالمگیری میں ہے

(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام ... ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولا ينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل و كذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل، هكذا في فتاوى قاضي خان ۔۔۔۔۔۔ (ومنها) سماع الشاهدين كلامهما معا هكذا في فتح القدير فلا ينعقد بشهادة نائمين إذا لم يسمعا كلام العاقدين، كذا في فتاوى قاضي خان۔ (الفتاوى الهندية ١/٢٦٧)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا