سوال
السلام علیکم مفتی صاحب
ایک لڑکا وہے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتاہے رات بستر میں اس نے پیشاب کی کپڑے تبدیل کئے مگر غسل نھی کیا اس کا کیا حکم ہے
سائل محمد محسن آنند
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت اس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ کپڑے اور بدن پاک ہوں کیوں کہ قرآن کریم کی عظمت و جلال کا تقاضہ یہ ہے کہ مکمل آداب واحترام کی رعایت کے ساتھ اس کی تلاوت کی جائے اگر قرآن پاک کی تلاوت ایسی حالت میں کی جائے کہ کپڑوں پر کچھ نجاست لگی ہو تو ایسا کرنا تلاوتِ کلامِ پاک کے آداب کے خلاف ہے۔
فقہاء کرام نے نجاست کے قریب تلاوت کرنے کو مکروہ لکھا ہے، اس لئے اگرنجس کپڑے پہنے ہوں تو قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرنی چاہئے تلاوت کرتے وقت لباس نجاست وغیرہ سے پاک ہو، لہذا بغیر کسی مجبوری کے ناپاک کپڑوں کے ساتھ تلاوت کرنا خلاف ادب ہے۔
البتہ نابالغ بچے چونکہ احکام کے مخاطب نہیں ہے اس لئے ان کا حکم الگ ہے صرف تعلیم کے خاطر ان کو غسل کروالیں ورنہ وہ اس حالت میں بھی قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو وہ ماخوذ نہیں ہوں گے فقہاء نے تو اس پر وضو تک کو ضروری قرار نہیں دیا ہے، لہذا ان کے لئے بغیر وضو کے بھی قرآن مجید کو ہاتھ لگانے کی گنجائش ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
الحاصل أن الموت إن كان حدثا فلا كراهة في القراءة عنده ، وإن كان نجسا كرهت ، وعلى الأول يحمل ما في النتف وعلى الثاني ما في الزيلعي وغيره وذكر أن محل الكراهة إذا كان قريبا منه أما إذا بعد عنه بالقراءة فلا كراهة .(فتاویٰ شامی ٣/٨۵ باب صلاۃ الجنازۃ)
فتاوی شامی میں ہے
(ولا یکرہ مس صبي لمصحف ولوح) ۔۔۔۔۔۔۔۔ (ولا یکرہ مس صبي) فیہ أن الصبي غیر مکلف ، والظاہر أن المراد لا یکرہ لولیہ أن یترکہ یمس ۔ (للضرورۃ) لأن في تکلیف الصبیان وأمرہم بالوضوء حرجاً بہم ، وفي تاخیرہ إلی البلوغ تقلیل حفظ القرآن ۔ (الدر المختار مع رد المحتار کتاب الطہارة مطلب یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء،۱/۳۱٦ )
فتاوی عالمگیری میں ہے
رجل أراد أن يقرأ القرآن فينبغي أن يكون على أحسن أحواله يلبس صالح ثيابه ويتعمم ويستقبل القبلة؛ لأن تعظيم القرآن والفقه واجب، كذا في فتاوى قاضي خان ... یکره أن یقرأ القرآن في الحمام؛ لأنه موضع النجاسات، و لایقرأ في بیت الخلاء، کذا في فتاوی قاضي خان۔ (الفتاوی الهندیة الباب الرابع في الصلاة و التسبیح، ۵/٣١٧ ط: رشیدیة)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں