پیر، 19 ستمبر، 2022

بچہ پیشاب والے بدن سے قرآن پکڑے تو اس کا کیا حکم ہے سوال نمبر٣٨٣

 سوال 

السلام علیکم مفتی صاحب

ایک لڑکا وہے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتاہے رات بستر میں اس نے پیشاب کی کپڑے تبدیل کئے مگر غسل نھی کیا اس کا کیا حکم ہے

سائل محمد محسن آنند


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت اس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ کپڑے اور بدن پاک ہوں کیوں کہ قرآن کریم کی عظمت و جلال کا تقاضہ یہ ہے کہ مکمل آداب واحترام کی رعایت کے ساتھ اس کی تلاوت کی جائے اگر قرآن پاک کی تلاوت  ایسی حالت میں کی جائے  کہ کپڑوں پر کچھ نجاست لگی ہو تو ایسا کرنا تلاوتِ کلامِ پاک کے آداب کے خلاف ہے۔

فقہاء کرام نے نجاست کے قریب تلاوت کرنے کو مکروہ لکھا ہے، اس لئے اگرنجس کپڑے پہنے ہوں تو قرآن کریم کی  تلاوت نہیں کرنی چاہئے تلاوت کرتے وقت لباس نجاست وغیرہ سے پاک ہو، لہذا بغیر کسی مجبوری کے ناپاک کپڑوں کے ساتھ تلاوت کرنا خلاف ادب ہے۔

البتہ نابالغ بچے چونکہ احکام کے مخاطب نہیں ہے اس لئے ان کا حکم الگ ہے صرف تعلیم کے خاطر ان کو غسل کروالیں ورنہ وہ اس حالت میں بھی قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو وہ ماخوذ نہیں ہوں گے فقہاء نے تو اس پر وضو تک کو ضروری قرار نہیں دیا ہے، لہذا ان کے لئے بغیر وضو کے بھی قرآن مجید کو ہاتھ لگانے کی گنجائش ہے۔


فتاویٰ شامی میں ہے:

الحاصل أن الموت إن كان حدثا فلا كراهة في القراءة عنده ، وإن كان نجسا كرهت ، وعلى الأول يحمل ما في النتف وعلى الثاني ما في الزيلعي وغيره وذكر أن محل الكراهة إذا كان قريبا منه أما إذا بعد عنه بالقراءة فلا كراهة .(فتاویٰ شامی ٣/٨۵ باب صلاۃ الجنازۃ)


فتاوی شامی میں ہے 

(ولا یکرہ مس صبي لمصحف ولوح) ۔۔۔۔۔۔۔۔ (ولا یکرہ مس صبي) فیہ أن الصبي غیر مکلف ، والظاہر أن المراد لا یکرہ لولیہ أن یترکہ یمس ۔ (للضرورۃ) لأن في تکلیف الصبیان وأمرہم بالوضوء حرجاً بہم ، وفي تاخیرہ إلی البلوغ تقلیل حفظ القرآن ۔ (الدر المختار مع رد المحتار کتاب الطہارة مطلب یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء،۱/۳۱٦ )


فتاوی عالمگیری میں ہے 

رجل أراد أن يقرأ القرآن فينبغي أن يكون على أحسن أحواله يلبس صالح ثيابه ويتعمم ويستقبل القبلة؛ لأن تعظيم القرآن والفقه واجب، كذا في فتاوى قاضي خان ... یکره أن یقرأ القرآن في الحمام؛ لأنه موضع النجاسات، و لایقرأ في بیت الخلاء، کذا في فتاوی قاضي خان۔ (الفتاوی الهندیة الباب الرابع في الصلاة و التسبیح، ۵/٣١٧ ط: رشیدیة)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: