منگل، 20 ستمبر، 2022

کرسی پہ بیٹھ کر امامت کروانے والے کی اقتداء کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٨٤

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کرسی پہ بیٹھ کر کوئی شخص امامت  کر سکتا ہے اور اگر کسی نے امامت کی ہے نماز کا کیا مسئلہ ہے نماز ہوجائے گی یا دوبارہ لوٹانی پڑے گی؟

سائل محمد صادق رشیدی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


امام بار گاہ خدواندی میں مسلمانوں کی درخواست پیش کرنے کے لئے ایک نمائندہ کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے شریعت کی طرف سے اس کے کچھ مخصوص اوصاف مقرر کئے گئے ہیں ، تا کہ یہ نمائندہ مسلمانوں کے شایان شان ان کی نمائندگی کرسکے ان میں جو لازمی اوصاف شمار کئے گئے ہے اس میں سے رکوع سجدہ پر قدرت کا ہونا بھی ہے اگر سجدہ پر قدرت نہیں رکھتا اشارے سے سجدہ کرتاہے تو اس کی اقتداء درست نہیں ہے۔ 


لہذا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھانے والا امام اگر سجدہ اشارہ سے کرتا ہے تو چونکہ اشارہ کرنے والے کے پیچھے رکوع سجدہ کرنے والوں کی نماز درست نہیں ہوتی اس لیے کرسی پر بیٹھ کر سجدہ کے لیے اشارہ کے ساتھ نماز پڑھنے والا ان لوگوں کی امامت نہیں کرسکتا جو حقیقت میں رکوع و سجده پر قادر ہوں اور جب اقتداء درست نہیں ہوئی تو ان کی نماز بھی ان کی اقتداء میں درست نہیں ہوئی لہذا پڑھی ہوئی نمازیں لوٹائی جائے گی۔


البتہ ان میں سے جو لوگ رکوع اور سجدہ پر قادر نہ ہوں اور وہ بھی اشارے سے رکوع اور سجدہ کرتے ہوں تو ایسے مقتدیوں کا مذکورہ امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا درست ہوگا اور ان کو پڑھی ہوئی نماز بھی نہیں لوٹائی جائے گی۔


البحرالرائق میں ہے

لايفسد اقتداء قائم بقاعد وبأحدب، وأما الأول فهو قولهما، وحكم محمد بالفساد نظراً إلى أنه بناء القوي على الضعيف، ولهما اقتداء الناس بالنبي في مرض موته وهو قاعد وهم قيام وهو آخر أحواله؛ فتعين العمل به بناءً على أنه عليه الصلاة والسلام كان إماماً وأبو بكر مبلغاً للناس تكبيره۔ (البحرالرائق ١/٣٨٦)


فتاوی شامی میں ہے

(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) ولو مع متوضئ بسؤر حمار مجتبى (وغاسل بماسح) ولو على جبيرة (وقائم بقاعد) يركع ويسجد لأنه صلى الله عليه وسلم  صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم  تكبيره۔ (قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقاً"  (فتاوی شامی ٢/٣٣٦ باب الإمامة)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: