ہفتہ، 17 ستمبر، 2022

بیمہ کمپنی سے انشورنس کی رقم لینا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٨١

سوال

السلام علیکم جناب مفتی صاحب ایک بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہی انتقال ہو گیا انتقال کے بعد ویماکمپنی والوں نے کچھ پیسا انکے گھر والوں کو دیا اور ان کے گھر والوں نے ان کی بہنو میں تقسیم کیا تو کیا وہ ویماکمپنی کے پیسالےسکتے ہے یا نہیں سائل عبداللطیف مہوا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


ڈرائیور کے چلانے سے ہی گاڑی چلتی اور حرکت کرتی ہے، اور ایکسیڈنٹ کی وجہ سے کوئی مرتا ہے تو اس کی نسبت گاڑی کی طرف نہیں بلکہ ڈارئیور کی طرف کی جاتی ہے اور اگر اس سے کوئی شخص حادثہ میں مرتا ہے تو شریعت نے ڈرائیور کو قتل خطاء کا ملزم قرار دیا ہے اور قتل خطاء کی صورت میں دیت لازم ہوتی ہے جو شرعی اعتبار سے پورے عاقلہ اور خاندان پر لازم ہوتی ہے اور شرعی اعتبار سے ملزم کے عاقلہ وہ لوگ ہوں گے جن کے ساتھ ان کے تعاون کا تعلق ہے


  انشورنس کمپنی کو ملزم کے عاقلہ (ہم پیشہ) کے قائم مقام سمجھا جائےگا، لہٰذا انشورنس سے میت کے ورثہ کو جو رقم مل رہی ہیں وہ درست ہیں ان کا لینا جائز ہے اور اس میں وراثت بھی جاری ہوگی اور تمام ورثہ اپنے شرعی حصے کے حق دار ہوں گے


فتاوی دارالعلوم دیوبند کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ہر گاڑی ڈرائیور کے چلانے سے چلتی اور حرکت کرتی ہے، لہٰذا جب ایکسیڈنٹ کی وجہ سے کوئی مرتا ہے تو اس کی نسبت گاڑی کی طرف نہیں بلکہ ڈارئیور کی طرف کی جاتی ہے، اسی وجہ سے اگر کوئی شخص کار حادثہ میں مرجاتا ہے تو شرعاً ڈرائیور کو خطاءً قتل کرنے کا ملزم قرار دیا جاتا ہے۔


تکملة فتح الملہم میں ہے

والظاہر أن سائق السیارة ضامن لما أتلفتہ في الطریق سواء أتلفتہ من القدام أو من الخلف، و وجہ الفرق بینہا وبین الدابة علی قول الحنفیة أن الدابة متحرکة بإرادتہا فلا تنسب نفحتہا إلی راکبہا بخلاف السیارة فإنہا لا تتحرک بإرادتہا فتنسب جمیع حرکاتہا إلی سائقہا، فیضمن جمیع ذالک (تکملة فتح الملہم: ۲/۳۱۰، ط: أشرفی دیوبند)


لیکن قتل خطا میں دیت کی ادائیگی شرعاً تنہا قاتل پر لازم نہیں ہوتی ہے بلکہ عاقلہ پر ہوتی ہے اور شرعی اعتبار سے ملزم کے عاقلہ وہ لوگ ہوں گے جن کے ساتھ ان کا تعاون کا تعلق ہے۔ 


ہدایہ میں ہے

والعاقلة أہل الدیون إن کان القاتل من أہل الدیوان یوٴخذ من عطایاہم في ثلاث سنین ․․․․ ومن لم یکن من أہل الدیوان فعاقلتہ قبیلتہ (ہدایة: ٤/٦٤۵-٦٤۷، ط: أشرفی دیوبند)


لیکن غیر اسلامی ممالک میں قوانین اسلامیہ نہ ہونے کی وجہ سے اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہے اس لئے اس طرح کے ممالک میں یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ انشورنس کمپنی کو ملزم کے عاقلہ (ہم پیشہ) کے قائم مقام سمجھا جائے، لہٰذا انشورنس سے میت کے ورثہ کو جو سات لاکھ روپئے مل رہے ہیں وہ درست ہیں ان کا لینا جائز ہے اور اس میں وراثت بھی جاری ہوگی۔ اور تمام ورثہ اپنے شرعی حصے کے حق دار ہوں گے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٦٨٦٣٦)


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

کوئی تبصرے نہیں: