سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمإ کرام ومفتیان کرام مسٸلہ ذیل کے بارے میں عیدین کے موقعہ پر عید گاہ میں چندہ جمع کیا جاتا ھے عید گاہ کے نام سے ۔پھر عید کی نماز کے بعد اس رقم سے امام کو بھی دیا جاتاھے اور دوسرے خادم کو بھی دیاجاتاھے اور پولس کے آدمی بھی بطور نگرانی کے آتے ھیں ۔انکو بھی دیا جاتاھے ۔کیا اسطرح سے جاٸز ھے یا نہیں؟ اسکا جواب مفصل مرحمت فرماۓ۔
سائل شھاب الدین سھارنپور
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اگر کمیٹی کے طرف سے پہلے سے ضابطہ کے مطابق یہ طے ہو کہ عید کے موقع پر جو چندہ ہوگا اس سے امام اور خادمین کو دیا جائے گا اور چنده دہندگان کو بھی اس کا علم ہے یا چنده دہندگان نے ازخود اس کی اجازت دی تھی یا مستقل طور پر اس کے لیے ہی چندہ کیا گیا تو ان صورتوں میں مذکوره رقم سے ان لوگوں کو دینا جائز ہوگا۔
لیکن اگر پہلے سے طے نہ ہو اور نہ ہی چندہ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا گیا تھا نہ ہی اس غرض سے چندہ کیا گیا بلکہ عید الفطر کے حوالہ سے عمومی چندہ کیا گیا تھا تو اب اس چندہ سے امام و خادم اور پولیس وغیرہ کو ہدیہ دینا جائز نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے
(ويبدأ من غلته بعمارته) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح، وتمامه في البحر ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح ۔۔۔۔ وقوله إلى آخر المصالح : أي ،صالح المسجد يدخل فيه المؤذن والناظر ، ويدخل تحت الإمام الخطيب لأنه إمام الجامع۔ (فتاوی شامی ٦/۵٦٠ کتاب الوقف ،مطلب في وقف المنقول قصدا)
الأشباہ و النظائر میں ہے
شرط الواقف کنص الشارع أي في وجوب العمل بہ وفي المفہوم والدلالۃ (الأشباہ و النظائر کتاب الوقف من الفن الثاني، ٢/١٠٦ ط إدارۃ القرآن)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں