سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرت مقتدی کے پاؤں جو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ رہاہے امام سے آگے نکل گئے کیا اس کی نماز ہوگی اور دوسری بات یہ معلوم کرنی ہے اگر پاؤں تو پیچھے ہو لیکن سجدہ کرتے ہوئے سر امام کے سر سے آگے ہوجائے تو کیا حکم ہے؟ مدلل جواب دیں مہربانی ہوگی
سائل عبد السلام خالد اتراکھنڈ روڑکی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
باجماعت نماز میں اقتدا صحیح ہونے کے لیے یہ لازم ہے کہ مقتدی امام سے آگے نہ بڑھے اس لئے کہ نماز میں امام سے آگے بڑھ جانا مفسدِ صلاة ہے اور آگے بڑھ جانے کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی کی ایڑی امام کی ایڑی سے آگے بڑھ جائے اگر مقتدی کی ایڑی امام کی ایڑی سے آگے نہیں بڑھتی ہے تو اگر چہ سجدے میں مقتدی کا سر آگے چلا جائے نماز فاسد نہ ہوگی۔
ویقف الواحد أي محاذیا مساویاً لیمین امامہ علی المذہب ،ولا عبرة بالرأس بل بالقدم ۔۔۔۔۔ فلو حاذاہ بالقدم ووقع سجودہ مقدماً علیہ لکون المقتدي أطول من امامہ لایضر، ومعنی المحاذاة بالقدم المحاذاة بعقبہ․(شامی ۲/ ۳۰۷۔ ۳۰۸ط: زکریا دیوبند)
کرسی پر نماز کے استفسار پر فتاوی بنوریہ میں اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ: لوگ شرعی عذر کی بنیاد پر کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں ان کے لیے جماعت میں شرکت کے وقت صف میں کرسی رکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ کرسی اس طرح رکھی جائے کہ اس کے پچھلے پائے صف میں کھڑے مقتدیوں کی ایڑیوں کے برابر ہوں یا صف کی لکیر پر ہوں، تاکہ بیٹھنے کی صورت میں ان کا کندھا دیگرنمازیوں کے کندھے کے برابر اور سیدھ میں ہو۔
اوراگر مقتدی ایک ہو اور معذور ہو، کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو، تو اس کی کرسی اس طرح رکھی جائے کہ کرسی کے اگلے پائے امام کے پاؤں سے پیچھے ہوں، اور ایسی صورت میں (یعنی جو مریض زمین پر سجدے کی قدرت نہ ہونے کی وجہ سے کرسی پر نماز پڑھتا ہو، کے لیے) شروع سے پوری نماز بیٹھ کر پڑھنا افضل ہے،البتہ اگر وہ کھڑے ہوکر نماز شروع کرتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس شخص کے قدم امام کے قدم سے پیچھے ہوں۔
منحةالخالق میں ہے
(قوله: بعد أن يكون محاذيًا بقدمه أو متأخرا قليلا) أقول: أفرد القدم فأفاد أن المحاذاة تعتبر بواحدة ولم أره صريحا، والظاهر أنه لو كان معتمدًا على قدم واحدة فالعبرة لها، ولو اعتمد على القدمين، فإن كانت إحداهما محاذية والأخرى متأخرة فلا كلام في الصحة۔ (منحة الخالق على هامش البحر الرائق: كتاب الصلاة، وقوف المأمومين في الصلاة خلف الإمام (١/٣٧٤ ط. دار الكتاب الإسلامي، الطبعة الثانية)
الموسوعة الفقہیة الکویتیة میں ہے
يشترط لصحة الاقتداء ألا يتقدم المقتدي إمامه في الموقف عند جمهور الفقهاء (الحنفية والشافعية والحنابلة ) لحديث إنما جعل الإمام ليؤتم به والائتمام الاتباع والمتقدم غير تابع ولأنه إذا تقدم الإمام يشتبه عليه حال الإمام ومحتاج إلى النظر وراءه في كل وقت ليتابعه فلا يمكنه المتابعة والاعتبار في التقدم وعدمه للقائم بالعقب ...... والعبرة في التقدم بالألية للقاعدين وبالجنب للمضطجعين۔ (الموسوعة الفقهية الكويتية: حرف الألف، مادةإقتداء، شروط الإقتداء (٦/٢١ ،ط. الطبعة الثانية ، دارالسلاسل–الكويت)
البحر الرائق میں ہے
( ويقف الواحد عن يمينه ) أي عن يمين الإمام مساويا له وعن محمد رحمه الله أنه يضع إصبعه عند عقب الإمام وهو الذي وقع عند العوام۔ (تبيين الحقائق: كتاب الصلاة، باب الإمامة ١/١٣٦ ط. دار الكتب الإسلامي۔ سنة النشر ١٣١٣هـ مكان النشر القاهرة)۔ فقط والله أعلم۔ (دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : ١٤٤٢٠۵٢٠١۵٣٤)
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں