ہفتہ، 3 ستمبر، 2022

قاضی کے سامنے بغیر گواہ کے نکاح کے اقرار سے نکاح کا حکم ٣٧٨

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 اگر قاضی کی مجلس میں زوجین نکاح کا اقرار کر لیں جب کہ ان کے پاس اپنے نکاح پر کوئی گواہ موجود نہیں ہے تو کیا صرف ان کے اقرار کے بنیاد پر قاضی ان کے نکاح کا فیصلہ کردے گا؟ یا پھر قاضی گواہوں کو طلب کرے گا ؟ 


فتاوی عالمگیری کی درج ذیل عبارت سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ زوجین کا صرف اقرار کر لینا کافی ہوگا ؟


 *امْرَأةٌ قالَتْ: تَزَوَّجْتُ زَيْدًا بَعْدَ ما تَزَوَّجْت عَمْرًا والزَّوْجانِ يَدَّعِيانِ النِّكاحَ فَهِيَ امْرَأةُ زَيْدٍ* عِنْدَ أبِي يُوسُفَ - تَعالى - وعَلَيْهِ الفَتْوى هَكَذا فِي الفُصُولِ العِمادِيَّةِ وهُوَ الصَّحِيحُ لِأنَّ قَوْلَها تَزَوَّجْت زَيْدًا إقْرارٌ مِنها بِالنِّكاحِ فَصَحَّ الإقْرارُ مِنها فَهِيَ تُرِيدُ بِقَوْلِها بَعْدَ ما تَزَوَّجْت عَمْرًا إبْطالَ إقْرارِها الأوَّلِ ولا تَمْلِكُ هَكَذا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ۔ (الفتاوى الهندية ج ٤ ص ٧٦ كتاب الدعوي ، باب دعوي الرجلين)

لہذا اس صورت میں صحیح حکم کیا ہوگا مدلل بیان فرمائیں۔ 

سائل عبد اللہ مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شریعتِ  مطہرہ نے مسلمانوں کے نکاح منعقد ہونے کے  لئے ایجاب و قبول کے وقت دو مسلمان مرد  یا ایک مرد اور دو عورتوں کو بطور گواہ موجود ہونے کو شرط قرار دیا ہے کہ گواہ نکاح کرنے والے لڑکے اور لڑکی یا ان کے وکیل کے ایجاب و قبول کو عین نکاح کے وقت سن بھی رہے ہوں اور سمجھ بھی رہے ہوں اب چاہے وہ قاضی کے سامنے عقد نکاح ہورہاہو یا کسی اور کے سامنے عقد نکاح ہورہاہو بغیر گواہ کے نکاح درست نہیں ہوگا۔


مسؤلہ عبارت میں بندے کی نظر میں بلا گواہ نکاح کرنے کے بارے میں مسئلہ کی وضاحت مقصود نہیں ہے بلکہ یہاں جو مسئلہ بیان ہورہا ہے وہ رجوع عن الاقرار کا ہے کہ عورت نے زید سے نکاح کا اقرار کیا ہے پھر وہ ما قبل عمرو سے نکاح کا تذکرہ کرکے اپنے اقرار کو باطل قرار کررہی ہے اور کسی چیز کا اقرار کرنے کے بعد اس کا انکار کرنا رجوع کے حکم میں ہوتا ہے اور بعد الاقرار رجوع کرنا درست نہیں ہے اس عبارت میں صرف اسی مسئلہ کی وضاحت مقصود ہے۔ 


فتاوی دارالعلوم دیوبند کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ: کسی چیز کا اقرار کرنے کے بعد اس کا انکار کرنا رجوع کے حکم میں ہوتا ہے؛ البتہ ہر رجوع معتبر اور قابل قبول نہیں ہوتا؛ بلکہ اس میں تفصیل ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر رجوع اُن حقوق اللہ میں ہو، جو شبہ سے ساقط ہوجاتے ہیں تو وہ معتبر اور قابل قبول ہوتا ہے۔ اور اگر حقوق العباد میں ہو یا ان حقوق اللہ میں ہو، جو محض شبہ کی بنیاد پر ساقط نہیں ہوتے تو وہ رجوع معتبر وقابل قبول نہیں ہوتا (موسوعہ فقہیہ، ۶: ۷۲،۷۳، ۷: ۶۰)۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ٦٠١٨٠٨)


اسی طرح میں نے اپنے استاد محترم حضرت مولانا مفتی نثار احمد صاحب سے اس مسئلہ کے بارے میں رجوع کیا تو حضرت نے اس میں ایک بات کا اور اضافہ فرمایا کہ یہاں پر دو دعوؤں میں نتاقض بھی پایا جاتا ہیں  اور جب تناقض عن الدعویین لازم آئے تو اس کا اعتبار نہیں ہوتا لہذا یہاں پر بھی اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔


فتاوی شامی میں ہے

(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب ۔۔۔۔۔۔۔۔ (وشرط حضور شاہدین) أي یشہدان علی العاقدین۔ (شامی: ۴/۸۷، ط: زکریا)


فتاوی عالمگیری میں ہے

(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام ... ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولا ينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل و كذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل، هكذا في فتاوى قاضي خان ۔۔۔۔۔۔ (ومنها) سماع الشاهدين كلامهما معا هكذا في فتح القدير فلا ينعقد بشهادة نائمين إذا لم يسمعا كلام العاقدين، كذا في فتاوى قاضي خان۔ (الفتاوى الهندية ١/٢٦٧)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 

کوئی تبصرے نہیں: