سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
زید کے گاؤں میں جمعہ نہیں ہوتا تو زید جمعہ پڑھنے کے لئے قصبہ یا کسی ایسے گاؤں میں جاتا ہے جہاں جمعہ کی ادائیگی ہوتی ہے تو کیا زید کے لئے جمعہ کی سنتیں گھر پر ادا کرنا درست ہے یا زید جمعہ کی سنتیں اسی جگہ جاکر ادا کرے گا جہاں وہ جمعہ پڑھنے جاتا ہے
سائل صابر سھارنپور
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
صحت صلاة جمعہ کے لیے شہر یا قریہ کبیرہ جسے قصبہ کہتے ہیں ہونا ضروری ہے، شہر یا قریہ کبیرہ جو مثل قصبہ کے ہو اس کی تعریف یہ ہے کہ آبادی اور بازار ہو جس میں دوکانیں ہوں جو ہمیشہ کھلتی ہوں اور ضروریات کی چیزیں ہمہ وقت مل جاتی ہوں ایسی آبادی میں جمعہ جائز ہے اور وہاں کے رہنے والوں پر جمعہ واجب ہے لیکن کسی وجہ سے وہاں جمعہ نہ پڑھ سکے اور دوسری جگہ جانے کی نوبت آئے تو چونکہ اس پر پہلے سے جمعہ کے شرائط پائے جانے کی وجہ سے جمعہ واجب ہے اس لئے سنتیں مسجد میں پڑھنے سے گھر میں پڑھنا افضل ہے اس لئے کہ اس کی فضیلت زیادہ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنن و نوافل کو گھروں میں پڑھنے کی ترغیب فرمائی ہے اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عام طور پر سنن ونوافل گھر ہی میں ادا فرماتے تھے اس بناء پر گھڑسے سنتیں پڑھ کر نکلنا افضل ہے
اور جہاں پر جمعہ کے یہ شرائط نہ پائے جانے کی وجہ سے جمعہ نہ ہوتی ہو اور کوئی دیہاتی شخص جمعہ کے وقت شہر میں آئے تو اس پر اس وقت جمعہ واجب ہوگی جب وہ جمعہ کے وقت شہر میں داخل ہوجائے اور اسی وقت اس کا حکم شہری شخص کی طرح ہوگا لہذا گاؤں میں جمعہ کی سنتیں نہ پڑھیں بلکہ شہر میں پہنچ کر پڑھیں کیونکہ اس پر جمعہ کا وجوب شہر میں داخل ہونے کے بعد متحقق ہوگا اور اسی وقت وہ جمعہ کے احکام کا مخاطب ہوگا
بدائع الصنائع میں ہے
ولنا ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع» ، وعن علي - رضي الله تعالى عنه - «لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع» ، وكذا النبي صلى الله عليه وسلم «كان يقيم الجمعة بالمدينة» ، وما روي الإقامة حولها، وكذا الصحابة - رضي الله تعالى عنهم - فتحوا البلاد وما نصبوا المنابر إلا في الأمصار فكان ذلك إجماعًا منهم على أن المصر شرط؛ ولأن الظهر فريضة فلا يترك إلا بنص قاطع والنص ورد بتركها إلا الجمعة في الأمصار ولهذا لا تؤدى الجمعة في البراري؛ ولأن الجمعة من أعظم الشعائر فتختص بمكان إظهار الشعائر وهو المصر۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ١/٢۵٩)
فتاوی عالمگیر ی میں ہے
الأفضل في السنن والنوافل المنزل لقوله عليه السلام صلاة الرجل في المنزل أفضل إلا المكتوبة۔ (کتاب الصلوۃ ، الباب التاسع فی النوافل ١/١١٣ ط دارالفکر)
فتاوی عالمگیر ی میں ہے
القروي إذا دخل المصر ونوى أن يمكث يوم الجمعة لزمته الجمعة؛ لأنه صار كواحد من أهل المصر في حق هذا اليوم وإن نوى أن يخرج في يومه ذلك قبل دخول الوقت أو بعد الدخول لا جمعة عليه، ولو صلى مع ذلك كان مأجورًا، كذا في فتاوى قاضي خان والتجنيس والمحيط۔ (الفتاوى الهندية ١/١٤۵)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں