سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرت اگر کوٸی آدمی اپنی زندگی میں ہی اپنی اولاد کا حصہ نکالنا چاہے مثلاً اپنی لڑکی کی شادی میں جو سامان دے رہے ہیں وہ اس نیّت سے دے کی یہ اسکی میراث کا حصہ جو اسکا بیٹھتا ہے تو ایسا کرنے سے وہ سامان جہیز نہیں کہلائے گا اور مرنے کے بعد بھی اس لڑکی کو کوئی حصہ ملیگا یا نہیں
سائل شعبان انصاری سھارنپور
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اور تمام مَملوکہ اموال کا خود مالک ومختار ہوتا ہے، چاہے اپنا سارا مال خرچ کر ڈالے یا کسی کو دے دے، اس کی حیاتی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں بطورِ وراثت کوئی حق و حصہ نہیں ہوتا، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، اسی طرح اگر اپنی زندگی میں اولاد کو کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے البتہ اولاد کو اپنی حیاتیاتی میں دیا ہوا مال عطیہ اور گفٹ شمار ہوگا میراث نہیں، وراثت کے اعتبار سے تقسیم تو مرنے کے بعد ہوتی ہے قبل الموت وراثت شمار نہیں ہوگی۔
لہذا زندگی میں اپنی اولاد میں سے کسی کو اپنے مال میں سے جو کچھ دیا جائے وہ ہبہ شمار ہوگا، اس کی وجہ سے اس وارث کا میراث میں سے حصہ نہیں ختم ہوتا لہذا والد کے انتقال کے بعد میراث کی تقسیم کے وقت بقیہ بیٹوں کی طرح اس بیٹی کو بھی حصہ ملے گا۔
صورت مسئولہ میں بیٹیوں کو دیا ہوا مال وہ باپ کی طرف سے عطیہ شمار ہوگا اور باپ کے انتقال کے بعد تقسم وراثت میں ان کا بھی حصہ ہوگا اگر بالفرض وہ معاف بھی کردے تو وہ معاف نہیں ہوگا کیوں کہ مال میراث ایک جبری ملک ہے اس میں سے لینا ضروری ہے۔
مشکوۃ المصابیح میں ہے
وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة رواه ابن ماجه (مشکوۃ المصابیح ١/٢٦٦ باب الوصایا، الفصل الثالث، ط: قدیمی)
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے
سئل: في أحد الورثة إذا أشهد عليه قبل قسمة التركة المشتملة على أعيان معلومة أنه ترك حقه من الإرث وأسقطه وأبرأ ذمة بقية الورثة منها ويريد الآن مطالبة حقه من الإرث فهل له ذلك؟
الجواب: الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط وقد أفتى به العلامة الرملي كما هو محرر في فتاواه من الإقرار نقلا عن الفصولين وغيره فراجعه إن شئت (العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية ٢/٢٦)
فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے
و علی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطی من أولاده من کان متأدبا ( ۳/٤٦۲ مکتبہ زکریا)
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں