سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب یہ معلوم کرنا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آنے پر درود شریف پڑھنا واجب ہے یا نہیں دار العلوم دیوبند کے فتویٰ پڑھا جس سے ایسا لگتا ہے کہ بس زندگی میں ایک ہی مرتبہ فرض ہے ۔جبکہ بنوری ٹاؤن کے فتوے میں اور زاد شفاعت مجالس حکیم الامت میں یہ مسئلہ پڑھا ہے کہ جس مجلس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہو تو درود شریف پڑھنا واجب ہے اگر بار بار ہو تو پہلی مرتبہ واجب ہے پھر مستحب ہے اور ایک مفتی صاحب نے بتایا ہے کہ اصح قول عدم وجوب کا ہے ،برائے مہربانی باحوالہ وضاحت فرمادیں کیا بات صحیح ہے؟ جزاک اللہ خیرا
سائل عبد السلام خالد روڑکی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
درود شریف کے پڑھنے کے سلسلہ میں جو اقوال و مذاھب وارد ہوئے ہے اس کے تین مواقع ہے۔
ایک انسان کی پیدائش سے لیکر موت تک درود شریف پڑھنے کا شرعی حکم
اس سلسلہ میں جمہور علماء کے نزدیک درود شریف کا کم سے کم عمر میں ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے، بعض علماء نے اس پر اجماع بھی نقل کیا ہے،
دوسرا نماز میں قعدہ اخیرہ میں درودشریف کے پڑھنے کا شرعی حکم
قعدہ اخیرہ میں درود شریف پڑھنا احناف کے یہاں سنت ہے، اور اگر کسی نے نماز میں درود نہیں پڑھا تو اس نے سنت کو چھوڑ دیا جس کی وجہ سے وہ قابل عتاب تو ہوگا لیکن سنت کے ترک سے نماز ہوجاتی ہے، البتہ نماز کا ثواب کم ہوجاتاہے۔ اور شوافع و حنابلہ کے یہاں فرض ہے ان کے یہاں نہ پڑھنے پر نماز کا اعادہ لازم ہوگا۔
فتاوی شامی میں اس کی اس طرح سے وضاحت ہے
والصلاة على النبي) في القعدة الأخيرة. وفرض الشافعي قول: اللهم صل على محمد ونسبوه إلى الشذوذ ومخالفة الإجماع۔ (فتاوی شامی ٢/١٧٤)
تیسرے نمبر پر جب بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہو تو درود شریف کے پڑھنے کا شرعی حکم
اس سلسلہ میں علماء احناف کی دو رائیں پیش کی جاتی ہے ایک رائے امام طحاوی کی پیش کی جاتی ہے کہ چاہے مجلس میں ہو یا غیر مجلس میں جب جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی لیا جائے گا تو درود پڑھنا واجب ہوگا۔
دوسری رائے امام کرخی کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی تکرار سے درودشریف میں تکرار لازم نہیں ہے بلکہ ایک مرتبہ بڑھ لینا کافی ہوگا علامہ شامی نے تصحیح قول کی طرح اشارہ کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اگر مجلس ایک ہو اور حضور کے نام میں تکرار ہو تو درود شریف میں تکرار واجب نہیں ہے ایک مرتبہ پڑھ لینا کافی ہے اور مختلف مجالس میں اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا جائے تو درود شریف میں تکرار واجب ہے۔
فتاوی شامی میں اس مسئلہ کی وضاحت اس طرح سے کی ہے
ثم قال: فتكون فرضا في العمر، وواجبا كلما ذكر على الصحيح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوله: في الأصح) صححه الزاهدي في المجتبى، لكن صحح في الكافي وجوب الصلاة مرة في كل مجلس كسجود التلاوة حيث قال في باب التلاوة: وهو كمن سمع اسمه عليه الصلاة والسلام مرارًا لم تلزمه الصلاة إلا مرة في الصحيح لأن تكرار اسمه صلى الله عليه وسلم لحفظ سنته التي بها قوام الشريعة، فلو وجبت الصلاة بكل مرة لأفضى إلى الحرج، (فتاوی شامی ٢/٢٢٧)
تفسیر معارف القرآن میں اس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ: اس پر بھی جمہور فقاء کا اتفاق ہے کہ جب کوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کرے یا سنے تو اس پردرود شریف واجب ہو جاتا ہے۔ کیونکہ حدیث میں آپ کے ذکر مبارک کے وقت درود شریف نہ پڑھنے پر وعید آئی ہے، جامع ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : رغم انف رجل ذکرت عندہ فلم یصل علیٰ، ”یعنی ذلیل ہو وہ آدمی جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے“ (قال الترمذی حدیث حسن و رواہ ابن السنی باسناد جید)
اور ایک حدیث میں ارشاد ہے البخیل من ذکرت عندہ فلم یصل علیٰ ”یعنی بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے“ (رواہ الترمذی و قال حدیث حسن صحیح)
مسئلہ : اگر ایک مجلس میں آپ کا ذکر مبارک بار بار آئے تو صرف ایک مرتبہ درود پڑھنے سے واجب ادا ہو جاتا ہے، لیکن مستحب یہ ہے کہ جتنی بار ذکر مبارک خود کرے یا کسی سے سنے ہر مرتبہ درود شریف پڑھے۔ حضرات محدثین سے زیادہ کون آپ کا ذکر کرسکتا ہے کہ ان کا ہر وقت کا مشغلہ ہی حدیث رسول ہے، جس میں ہر وقت بار بار آپ کا ذکر آتا ہے، تمام ائمہ حدیث کا دستور یہی رہا ہے کہ ہر مرتبہ درود سلام پڑھتے اور لکھتے ہیں ۔ تمام کتب حدیث اس پر شاہد ہیں ۔ انہوں نے اس کی بھی پروا نہیں کی کہ اس تکرار صلوٰة و سلام سے کتاب کی ضخامت کافی بڑھ جاتی ہے کیونکہ اکثر تو چھوٹی چھوٹی حدیثیں آتی ہیں جن میں ایک دو سطر کے بعد نام مبارک آتا ہے، اور بعض جگہ تو ایک سطر میں ایک سے زیادہ مرتبہ نام مبارک مذکور ہوتا ہے، حضرات محدثین کہیں صلوٰة و سلام ترک نہیں کرتے۔ (معارف القرآن سورۂ احزاب آیت ۵٦)
اسی طرح تفسیر ماجدی میں اس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ: درود کے واجب ہونے پر تو ہر مذہب کے فقہاء کا اتفاق ہے۔ لیکن فقہاء حنفیہ اور بعض دوسرے ائمہ کی رائے ہے کہ عمر میں ایک بار بھی اگر پڑھ دیا تو فرض ادا ہوگیا ۔ قد تضمن الامر بالصلوۃ علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وظاہرہ یقتضی الوجوب وھو فرض عندنا فمتی فعلھا الانسان مرۃ واحدۃ فی صلاح او غیر صلاۃ فقد ادی فرضہ وھو مثل کلمۃ التوحید والتصدیق بالنبی صلی اللہ علیہ والہ وسلممتی فعلہ الانسان مرۃ واحدۃ فی عمرہ فقد ادی فرضہ (جصاص) لاخلاف للعلماء فی ان ھذا الامر للوجوب وانما الخلاف فی اوقاتہ واعدادہ فعند مالک والطحاوی یجب فی العمر مرۃ والباقی مندوب (احمدی) ولاخلاف فی ان الصلاۃ علیہ فرض فی العمر مرۃ (قرطبی) (تفسیر ماجدی سورۂ احزاب آیت ۵٦)
اور تفسیر مظہری میں اس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ: جو لوگ کہتے ہیں کہ جب بھی رسول ﷲ کا نام آئے درود پڑھنا واجب ہے ‘ انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ کی رویت میں آیا ہے کہ رسول ﷲ نے فرمایا : اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس نے سامنے میرا تذکرہ آیا ہو اور اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا ہو اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو کہ اس پر رمضان آ کر گذر بھی جائے اور اس کی مغفرت نہ ہو اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو کہ اس کے ماں باپ یا دونوں میں سے ایک اس کی زندگی میں بوڑھے ہو جائیں اور اس شخص کی جنت میں داخلہ کا ذریعہ نہیں بنیں (یعنی بیٹا بوڑھے ماں باپ کی خدمت نہ کرے اس لئے وہ ناراض رہیں اور یہ شخص جنت سے محروم ہو جائے) رواہ الترمذی وابن حبان فی صحیحہ۔
حضرت جابر بن سمرہ کی روایت ہے کہ رسول ﷲ نے فرمایا : جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے اور دوزخ میں چلا جائے ‘ اللہ اس کو دور رکھے۔
حضرت ابن عباس کی مرفوع حدیث ہے کہ رسول ﷲ نے فرمایا : میرے پاس جبرئیل آئے (اور انہوں نے کہا) جس شخص کے سامنے آپ کا تذکرہ ہو اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے اور (اس وجہ سے) دوزخ میں داخل ہو جائے ‘ پس اللہ اس کو دور رکھے۔ یہ دونوں حدیثیں طبرانی نے نقل کی ہیں۔
ابن سنی نے حضرت جابر کی مرفوع حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کے سامنے میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود نہیں پڑھا ‘ وہ بدنصیب ہو گیا۔
حضرت علی راوی ہیں کہ رسول ﷲ نے فرمایا : جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے ‘ وہ بخیل ہے ‘ رواہ الترمذی۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح غریب کہا ہے۔ امام احمد نے یہ حدیث حضرت امام حسین کی روایت سے بیان کی ہے۔ (تفسیر مظہری سورۂ احزاب آیت ۵٦)
تفسیر انوار البیان میں اس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ: حضرت کعب بن عجرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ چنانچہ ہم حاضر ہوگئے (اور آپ منبر پر چڑھنے لگے) جب آپ نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا ’’ آمین ‘‘ پھر جب دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر فرمایا ’’ آمین ‘‘ جب تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر فرمایا ’’ آمین ‘‘ جب آپ منبر سے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے نہ سنتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ سبب اس کا یہ ہوا کہ جبریل میرے سامنے آئے اور جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو جبریل نے کہا کہ ہلاک ہو وہ شخص کہ جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا آمین، پھر جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو جبرائیل نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپ کا اسم گرامی لیا جائے اور وہ آپ پر درود نہ بھیجے، میں نے کہا آمین، پھر جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو جبرائیل نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے دونوں والدین یا ان میں سے ایک بوڑھا ہوجائے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کریں۔ (الترغیب و الترہیب)
ضروری مسئلہ : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر خود کرے یا کسی سے سنے تو درود شریف پڑھے، اسی طرح جب کوئی مضمون یا تحریر لکھنے لگے تو اس وقت بھی درود شریف کے الفاظ لکھنا واجب ہے، کم از کم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ضرور لکھ دے، بعض لوگ اختصار کے طور پر ’’ صلعم ‘‘ ’’ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘‘ لکھ دیتے ہیں، یہ صحیح نہیں پورا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھیں یا علیہ الصلوٰۃ والسلام لکھ دیں، صلوٰۃ کے ساتھ سلام بھی بھیجنا چاہیے دونوں کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ (تفسیر انوار البیان سورۂ احزاب آیت ۵٦ مولانا عاشق الہی بلند شہری)
تفسیر مدارک میں اس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ: قول کرخی ایک مرتبہ واجب ہے۔ قول طحاوی (رح) : جب بھی آپ کا نام لیا جائے اس وقت واجب ہے اور احتیاط اسی قول میں ہے اور جمہور کا یہ قول ہے۔ (تفسیر مدارک سورۂ احزاب آیت ۵٦)
آسان تفسیر القرآن میں اس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ: اس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ زندگی میں ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام پیش کرنا فرض ہے ؛ لیکن اگر ایک ہی مجلس میں کئی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ذکر آئے تو کیا ایک دفعہ صلاۃ و سلام بھیجنا کافی ہوجائے گا یا ہر بار کہنا ضروری ہے ؟ اس سلسلہ میں دو رائیں ہیں ، ایک یہ کہ ہر بار صلاۃ و سلام پڑھنا واجب ہوگا ، مشہور مفسر علامہ قرطبی نے اسی کو ترجیح دی ہے ؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے ، وہ دوزخ میں داخل ہوگا ، اللہ اس کو محروم ہی رکھے ، (صحیح ابن حبان ، کتاب الرقائق ، باب الأدعیۃ ، حدیث نمبر : ۹۰۷) دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایک مجلس میں ایک بار صلاۃ و سلام پڑھ دینا کافی ہے ، ( تفسیر قرطبی : ۱۴؍۲۳۲ - ۲۳۳) آسان تفسیر سورۂ احزاب آیت ۵٦ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)
خلاصۂ کلام
یہ ہوا کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ درود شریف پڑھنا فرض ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے کے وقت اگر مجلس ایک ہو تو اختتام مجلس تک ایک مرتبہ درودشریف پڑھنا واجب ہے اور ہر مرتبہ پڑھنا مستحب ہے اور اگر مختلف مجالس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہو تو ہر مرتبہ درود شریف پڑھنا واجب ہے نہ پڑھنے پر گنہگار ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں