سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مسئلہ یہ معلوم کرنا ہیکہ ۔زید ایک ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں غیرمسلم کی تعداد 95 فیصد ہے اور مسلمان صرف 5 فیصد ہے ۔زید کا وہی پر کاروبار بہی ہے۔اوردوکان پر سرکاری لوگ سامان خریدنے بھی آتے ہیں ۔جب وہ سامان خریدتے ہیں تو بل ڈبل بنواتے ہیں ۔مثلا 50 ہزار کا سامان اور بل70 ہزار کا ۔یہ سب لوگ دلالی کرتے ہیں ۔بہرحال معلوم یہ کرنا ہے کہ زید کے لئے اسطرح تجارت کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں ۔زید کا اس میں کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا ۔اور اگر اسطرح تجارت نہ کرے تو کاروبار کے ظاہری اسباب ختم ہو سکتیں ہیں کیونکہ 95 فیصد غیر مسلم کی آبادی ہے براۓکرم تشفی بخش مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
سائل عبد الصمد سھارنپور
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
گاہک کی خریدی ہوئی رقم کی مقدار کے برابر بل بنانا لازم اور ضروری ہے اس رقم سے زیادہ کا بل بنانا جائز نہیں، اور گاہگ نہ ٹوٹے اس خیال سے خود گناہ کرنا اور دوسرے کے ساتھ گناہ میں تعاون کرنا درست نہیں اسی طرح زیادہ رقم کا بل لوگ اس وقت بنواتے ہیں جب ان کو بل میں درج رقم کسی اور سے وصول کرنی ہو اور دکاندار کو معلوم ہے کہ اس کا بل کسی غلط مقصد کے لئے استعمال ہونے والا ہے تو یہ بات جانتے ہوئے بھی بل بنا کر دینا گناہ کے کام میں کسی دوسرے کی مدد کرنابھی ہے، اور قرآن کریم میں تعاون علی الاثم کی ممانعت وارد ہے، اسی طرح اس میں جھوٹ اور دھوکہ کا ارتکاب بھی ہے تجارت میں جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا حرام ہے احادیث مبارکہ میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ دہی پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
جہاں تک رزق کا مسئلہ ہے تو وہ اللہ نے اپنے ذمہ میں لے رکھا ہے جو رزق مقدر میں ہے وہ تو ہرحال میں ملنے والا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ زمین میں جو بھی چلنے پھرنے والا جاندار ہے اس کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے
اور ایک جگہ ارشاد ہے کہ کتنے ہی جاندار ہیں جو اپنی روزی ( اپنے ساتھ نہیں اٹھائے پھرتے اللہ انہیں بھی رزق عطا کرتا ہے اور تمہیں بھی ، اور وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے
ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ اے لوگو اپنے اوپر اللہ کے انعام کو یاد کرو کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزی دے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، پس تم کہاں بہکے پھرتے ہوں
لہذا جب رزق کی ذمہ داری اللہ نے لے رکھی ہے تو ہم اپنے اعتبار سے شریعت کے بتلائے ہوئے اصولوں کے مطابق محنت کریں باقی گاہگ کو متوجہ کرنا اللہ کا کام ہے اس خوف سے کہ اگر اس طرح سے نہیں کیا تو تجارت کے ظاہری اسباب ختم ہوجائیں گے یہ خیال ایک ایمان والے کے لئے مناسب نہیں ہے۔
قرآن کریم میں ہے
ولا تعاونوا على الْإثْم والعدوان واتقوا الله إن الله شديد العقاب
قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر رزق کے بارے میں ارشاد ربانی ہے
وما من دابة في الأرض إلا على الله رزقها ويعلم مستقرها ومستودعها كل في كتب مبين ( هود ، ٦/١١ )
وكاين من دابة لا تحمل رزقها الله يرزقها وإياكم وهو السميع العليم ( العنكبوت ، ٦٠/٢٩ )
يايها الناس اذكروا نعمت الله عليكم هل من خالق غير الله يرزقكم من السماء والأرض لا إله إلا هو فانى تؤفكون ( فاطر ، ٣/٣٥ )
مسلم شریف اور ترمذی کی روایت ہے
عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: … إیاکم والکذب؛ فإن الکذب یہدي إلی الفجور، وإن الفجور یہدي إلی النار، وما یزال الرجل یکذِبُ ویتحریَّ الکذب حتی یُکتَب عند اللّٰہ کَذَّابًا۔ (الصحیح لمسلم، کتاب البر والصلة، باب قُبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، ٢/٣٣٦ ط: بیت الأفکار الدولیة) (سنن الترمذي، أبواب البر والصلة، باب ما جاء في الصدق والکذب)
سنن الترمذي میں ہے
عن أبي ہریرة رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرَّ علی صبرةٍ من طعام فأدخل یدہ فیہا فنالت أصابعہ بللاً فقال: یا صاحب الطعام ما ہٰذا؟ قال: أصابتہ الماء یا رسول اللّٰہ! قال: أفلا جعلتہ فوق الطعام حتی یراہ الناس، ثم قال: من غش فلیس منا (سنن الترمذي، أبواب البیوع،باب ما جاء في کراہیة الغش في البیوع ) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں