پیر، 29 اگست، 2022

اسقاط حمل کا حکم اور اس کی صورتیں سوال نمبر ٣٧٧

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ

بعد سلام مسنون عرض یہ کہ حمل کب تک گرا سکتے ہیں ایک شخص کو دو لڑکیاں ہے اور وہ دونوں سیزر سے ہںوے ہے اب تیسرے سے اس کی بیوی کو حمل ٹھرا ہے اور اسکی دوسری بچی آٹھ ماہ کی ہے اگر یہ حمل باقی رکھتے ہیں تو اس کی بیوی اور بچی دونوں کو نقصان ہے بیوی کو تو جان کا خطرہ ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ حمل گرانے کی گنجائش ہے

سائل محمد صادق رشیدی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


بغیر کسی مجبوری کے حمل ضائع کرانا درست نہیں، چاہے وہ حمل کچھ ہی دنوں کا ہو اور اگر واقعی مجبوری ہو مثلاً عورت اتنی کمزور ہے کہ بار حمل کا تحمل نہیں کرسکتی یا پہلے سے موجود بچے کی صحت خراب ہونے کا شدید خطرہ ہے اور ماہر دین دار مسلمان طبیب یا ڈاکٹر کا یہی مشورہ ہے تو ایسی صورت سے چار مہینے سے پہلے پہلے حمل ساقط کرانے کی گنجائش ہے۔


البتہ فقہاء کی عبارات سے عورت کے پیٹ میں جو حمل ٹھہرتا ہے اس کی تین صورتیں معلوم ہوتی ہے۔


(١) حمل کی ابتداء ہو یعنی ابھی حمل کو ایک مہینے یا اس سے بھی کم مدت ہوئی ہے اور اسقاط کا مسئلہ ہے تو عذر کی صورت میں اس کی گنجائش ہے۔


(٢) حمل جم گیا ہے لیکن چار مہینے سے کم کا ہے یعنی ۱۲۰؍ دن کی مدت کے اندر اندر ہو تو اسقاط حمل بلا عذر شدیدہ کے جائز نہیں ہے، ہاں اگر حاذق اور ماہر فن ڈاکٹر اس کے اسقاط کا حکم کریں تو اسقاط حمل کی گنجائش ہے۔


(٣) حمل مکمل ہوچکا ہو یعنی اس پر ۱۲۰؍ دن پورے ہوجائے تو اب اس کے گرانے کی گنجائش نہیں ہوگی کیونکہ جب حمل چار ماہ یعنی ١٢٠ دن کا ہوجاتا ہے تو بچے کے اعضاء بننا شروع ہوجاتے ہیں اور اللہ رب العزت اس میں روح ڈال دیتا ہے، لہذا وہ نفس محترم کے حکم میں ہوجاتا ہے اور زندہ آدمی کی طرح اس کی بقاء و حفاظت کرنا واجب اور ضروری ہوجاتاہے، جس کی وجہ سے ایسے حمل کا اسقاط حرام ہے۔


صورت مسئولہ میں حمل باقی رکھنے سے دونوں کو نقصان ہے اور سوال میں تحریر کے مطابق بیوی کو جان کا بھی خطرہ ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ ڈاکٹروں نے اس کو کمزوری کی وجہ سے اسقاط کا حکم دیا ہے یا نہیں اگر دیا ہے تو اس کو گرانا جائز ہے اور اگر ڈاکٹروں نے اس کو گرانے کا حکم نہیں دیا ہے تو اس کو گرانا جائز نہیں ہے۔


شامی میں ہے۔

وقالوا : یباح إسقاط الولد قبل أربعۃ أشہر ولو بلا إذن الزوج۔۔۔۔ وہو محمولۃ علی حالۃ العذر۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب النکاح / مطلب في حکم سقاط الحمل  ٤/٣٣٥ زکریا)


فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔

العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقہ کالشعر والظفر ونحوہما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز وخلقہ لا یستبین إلا بعد مائۃ و عشرین یوما۔ (ہندیہ، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات زکریا جدید ۵/٤١٢)


شامی میں ہے۔

ویکرہ أن تسقی لإسقاط حملہا، وجاز لعذر حیث لایتصور، ۔۔۔ وقدروا تلک المدۃ بمائۃ و عشرین یوما و جاز لأنہ لیس بآدمی وفیہ صیانۃ الآدمی۔۔۔ فی القنیۃ: أن یظہر لہ شعر أو إصبع أو رجل أو نحو ذٰلک۔ (در مختار مع الشامی، کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، زکریا ۹/٤۱۵،)


الفتاویٰ الہندیۃ میں ہے۔

العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقہ کالشعر والظفر ونحوہما لا یجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز …، امرأۃ مرضعۃٌ ظہر بہا حبل وانقطع لبنہا وتخاف علی ولدہا الہلاک ولیس لأبي ہٰذا الولد سعۃ حتی یستأجر الظئر یباح لہا أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفۃ أو مضغۃ أو علقۃ لم یخلق لہ عضو وخلقہ لا یستبین إلا بعد مائۃ وعشرین یومًا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر ٥/٣٤٥ زکریا)


الموسوعة الفقهية الكوتية میں ہے:

وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل۔ (الموسوعة الفقهیة الکویتیة۳۰/ ۲۸۵)


 شامی میں ہے۔

قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة، وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب؛ لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح، وبه جزم القهستاني أيضاً حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء؛ لفساد الزمان، وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح: فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لا يبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان، فافهم۔ (فتاوی شامی٤/٣٣٥)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا




کوئی تبصرے نہیں: