یارسول اللہ یا نبی اللہ یا نبی سلام علیک کہنا کیساہے مفتی آصف گودھروی
سوال
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
حضرت ایک سوال ہے کہ اکثر نعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جسمیں یا رسول اللہ یا حبیب اللہ یاحبیبی وغیرہ الفاظ بولے جاتیں ہے۔ تو کیا یا رسول اللہ یا حبیب اللہ یاحبیبی اور اس جیسے الفاظ نعتوں میں پڑھنا جائز ہے؟ نیز یا نبی سلام علیک، یا رسول سلام علیک پڑھنا کیسا ہے؟اسی طرح نیچے مذکور اشعار شرکیہ ہیں؟ یا رسول کبریا فریاد ہے، یا محمد مصطفیٰ فریاد ہے، سخت مشکل میں پھنساہوں، نکل آئے میرے مشکل کشا فریاد ہے۔
طالب دعاء: عبدالحسیب اسلامپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
اس جواب کو سمجھنے کے لئے چار باتوں کا جاننا ضروری ہے
(١) اللہ کے رسول ﷺ کو عالم الغیب سمجھکر پکارنا
اہل السنۃ و الجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ کسی مخلوق کو اس عقیدے کے ساتھ غائبانہ طور پر پکارنا کہ وہ اس کی پکار کو عادۃً سنتی ہے اور مافوق الاسباب امور غیر عادیۃ میں اس پکار کو سن کر پکارنے والی کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتی ہے یا بالفاظ دیگر جس کو پکارا جا رہا ہے وہ عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہے لہذا ہماری پکار سن کر فوراً ہماری مدد کو آپہنچیں گے شرک و کفر ہے۔
لہذا اگر اس عقیدہ سے پڑھا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر وناظر ہیں فریاد رسی کرتے ہیں تو پھر کھلا شرک ہے، کیونکہ استعانت بالاموات یعنی مصیبت کے وقت انھیں پکارنا ناجائز ہے، اس لیے کہ استعانت استغاثہ اور ندا وغیرہ ایسی ذات سے ہوتا ہے جو نہ صرف یہ کہ مسائل اور مستعین کو جانتی ہو بلکہ اس کی مدد پر قادر بھی ہو، اسی کی طرف آیت میں اشارہ ہے ”إِنْ تَدْعُوہُمْ لَا یَسْمَعُوا دُعَائَکُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَکُمْ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یَکْفُرُونَ بِشِرْکِکُمْ وَلَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیرٍ“ ترجمہ: اگر تم ان کو پکارو بھی تو وہ تمھاری سنیں گے نہیں اور اگر سن بھی لیں تو تمارا کہنا نہ کریں گے اور قیامت کے روز وہ تمھارے شرک کرنے کی مخالفت کریں گے اور تجھ کو خبر رکھنے والے کے برابر کوئی نہیں بتلائے گا۔
(٢) شوقیہ طور پر اور عشق ومحبت میں پکارنا
اگر کوئی اس نیت سے یا رسول اللہ یا الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ یا سوال میں مذکورہ اشعار سے اللہ کے رسول کو پکارتا ہے کہ نہ تو رسول اللہ ﷺ عالم الغیب ہیں نہ حاضر و ناظر نہ ہی مافوق الاسباب میں مشکل کشا حاجت روا ہے، اس عقیدے سے پکارتا ہے، یعنی ان الفاظ کو بطور اخبار کے پڑھتا ہے یا کوئی محض شوقیہ طور پر عشق و محبت میں یا بطور توسل ان الفاظ کو پڑھتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
امداد الفتاوی میں مذکور ہے۔ بارادہ استعانت واستغاثہ یا باعتقاد حاضر وناظر منہی عنہ ہے ،اور بدون اس اعتقاد کے محض شوقا استلذاذا ماذون فیہ ہے ، چونکہ اشعار پڑھنے کی غرض محض اظہار شوق واستلذاذ ہوتا ہے ،اس لئے توسع کیاگیا، لیکن اگر کسی جگہ اس کے خلاف دیکھا جائے گا منع کردیا جائےگا۔امدادلفتاوی ج۵/ص ۳۸۵
اسی طرح فتاوی رحیمیہ میں لکھا ہے کہ ”یا نبی سلام علیک“ اسی طرح ”یارسول اللہ“ کہنا مطلقا ممنوع نہیں ہے، بلکہ غائبانہ اس عقیدے سے کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرح ہرجگہ حاضر وناظر ہیں، ہماری ہرپکار اور فریاد کو سننے والے ہیں، حاجت روا ہیں؛ ناجائز اور شرک ہے۔(فتاوی رحیمیہ: ۲/۱۰۸، کتاب السنة والبدعة، ط: دار الاشاعت، پاکستان)
اسی طرح دوسری جگہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتیں ہے ”یا رسول اللہ“ کہنا مطلقا ممنوع نہیں ہے، ”یا رسول اللہ“ اس عقیدے سے کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرح ہرجگہ حاضر وناظر ہیں، ہماری ہرپکار اور فریاد کو سننے والے ہیں، حاجت روا ہے؛ ناجائز ہے اور اشعار میں جو ”یا رسول اللہ“ یا ”یا محمد“ کے الفاظ آتے ہیں، وہ صرف تخیل کے طور پر شاعرانہ اور عاشقانہ خطاب ہوتا ہے، اشعار میں حاضر وناظر کا عقیدہ نہیں ہوتا، شعراء حاضر وناظر کے تصور کے بغیر غائب کے لیے لفظ ندا استعمال کرلیتے ہیں، لہٰذا حاضر وناظر کے عقیدے کے بغیر ایسے اشعار کا پڑھنا جن میں ”یا رسول اللہ“ یا ”یا محمد“ کے الفاظ آئے ہیں؛ فی نفسہ جائز ہے، البتہ اگر دوسروں کا عقیدہ بگڑنے کا اندیشہ ہو، تو نہ پڑھنے ہی میں احتیاط ہے۔ (فتاوی رحیمیہ: ۲/۱۰۸، کتاب السنة والبدعة، ط: دار الاشاعت، پاکستان)
نیز فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ ایسے الفاظ پڑھنا محبت میں اور خلوت میں بایں خیال کہ حق تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو مطلع فرمادیوے، یامحض محبت سے بلاکسی خیال کے جائز ہیں اور بعقیدہ عالم الغیب اور فریاد رس ہونے کے شرک ہیں اور مجامع میں منع ہیں کہ عوام کے عقیدہ کو فاسد کرتے ہیں ، لہذا مکروہ ہونگے۔فتاوی رشیدیہ ص٢٤٤
روضہ اطہر کے سامنے کھڑے ہوکریہ الفاظ پکارنا
روضہ اطہر کے سامنے کھڑے ہوکر ’’السلام علیکم یا رسول الله‘‘یا ’’السلام علیك یا رسول الله‘‘یا ’’الصلاة والسلام علیك یا رسول الله‘‘ کہنا جائز ہے، اس لیے کہ لفظ ”یا“ کے ذریعے اسی کو مخاطب کیا جاتا ہے، جو سامنے حاضر ہو، اور روضہ اطہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف حیات ہیں، بلکہ سلام کا جواب بھی دیتے ہیں، لہٰذا سامنے موجود ہونے کی صورت میں خطاب درست ہے۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا أبْلغته»رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ: فِي شُعَبِ الْإِيمَان۔(مشكاة، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ)
صحیح عقیدہ کے ساتھ پکارنا
صحیح عقیدہ ( کہ میرا سلام فرشتے پہنچا دیں گے) کے ساتھ دور سے "الصلاة والسلام علیك یا رسول الله" پڑھنا کہ میرا یہ درود یا یہ الفاظ بھی حضور ﷺ تک پہنچ جائیں گے، جائز ہے چونکہ اللہ نے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو امت کا درود شریف نبی اکرم ﷺ تک پہنچاتے ہیں
وَعَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِيَ السَّلَامَ»رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَالدَّارِمِيُّ۔ (مشكاة، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثاني)
فقط والسلام: واللہ اعلم بالصواب
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
3 تبصرے:
معتدل فتویٰ
زبان اور آسان ہو
بہت خوب اللہ اور ترقی عطا فرمائے آمین
ایک تبصرہ شائع کریں