ہفتہ، 30 ستمبر، 2023

نماز میں دو سورتوں کے درمیان ایک چھوٹی سورت کو چھوڑنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٢٩

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

قران کے اخری 10 سورتوں کا کیا حکم ہے؟ جیسے سورہ فیل کے بعد دوسری رکعت میں سورہ قریش پڑھنا  یا سورہ فلق کے بعد سورہ ناس پڑھنا اس کا کیا حکم ہے؟

اور فرض نماز میں سورہ فیل سے سورہ ناس تک کے سورۃ کے درمیان دو سورہ کا فاصلہ رکھنا اسکا کیا حکم ہے؟

سائل امتیاز اندمان


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نماز کی قرأت کے سلسلے میں قرآن کریم کی آخری دس سورتوں کے بارے میں کتب احادیث اور کتب فقہ فتاوی میں کوئی خاص حکم نظر سے نہیں گزرا ہے البتہ کتب فقہ میں مسنون قرأت کا ذکر موجود ہے۔


اور مسنون قرأت یہ ہے: فجر اور ظہر میں طوال مفصل ، یعنی سورہ حجرات سے لیکر والسماء ذات البروج تک کی سورتوں میں سے پڑھا جائے اور عصر اور عشاء میں اوساط مفصل، یعنی : سورہ والسماء والطارق سے لے کر لم یکن الذین کفروا تک کی سورتوں میں سے پڑھا جائے اور مغرب میں قصار مفصل ، یعنی :سورہ اذازلزلت سے لیکر والناس تک کی سورتوں میں سے پڑھا جائے۔


البتہ سورتوں کے درمیان ترتیب کی رعایت کے سلسلے میں کتب فقہ میں  یہ صراحت موجود ہے کہ دو سورتوں کے درمیان قصداً ایک چھوٹی سورت کا فصل کرنا مکروہ ہے، مثلاً پہلی رکعت میں سورۂ فیل یعنی (الم تر) پڑھی ہے اور دوسری رکعت میں سورہ ماعون یعنی (ارءیت الذی) پڑھے تو مکروہ ہے۔


اسی طرح جو سورت چھوڑی گئی ہے وہ اس قدر طویل ہے کہ دوسری رکعت میں اس کی تلاوت کرنے سے پہلی رکعت سے زیادہ طویل ہوجائے تو اس سورت کو بیچ میں چھوڑکر اگلی سورت پڑھنا بھی مکروہ نہیں ہے۔


اور اگر دو سورت یا اس سے زائد کا فاصلہ ہو تو حرج نہیں ہے مثلاً پہلی رکعت میں سورۂ فیل یعنی (الم تر) پڑھی ہے اور دوسری رکعت میں سورہ کوثر(انا اعطینٰک) پڑھے تو مکروہ نہیں ہے 

  

فتاوى الهنديہ میں ہے

واستحسنوا في الحضر طوال المفصل في الفجر والظهر وأوساطه في العصر والعشاء وقصاره في المغرب. كذا في الوقاية. وطوال المفصل من الحجرات إلى البروج والأوساط من سورة البروج إلى لم يكن والقصار من سورة لم يكن إلى الآخر. هكذا في المحيط والوقاية ومنية المصلي.

ایضاً 

وأما فى ركعتين إن كان بينهما سور لا يكره وإن كان بينهما سورة واحدة قال بعضهم يكره، وقال بعضهم: إن كانت السورة طويلة لا يكره بكذا في المحيط... وإذا قرأ فى ركعة سورة وفى الركعة الأخرى أو فى تلك الركعة سورة فوق تلک السورة يكره... هذا كله فى الفرائض وأما فى السنن فلا يكره. (الفتاوى الهندية ۱/ ۸۸۔۷۸ الفصل الرابع في القرائة ط: دار الفكر)


مراقی الفلاح میں ہے

یکرہ فصلہ بسورة بین سورتین قرأہما في رکعتین لما فیہ من شبہة التفصیل والہجر وقال بعضہم لایکرہ الخ (مراقی الفلاح ۳۵۲)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعرات، 28 ستمبر، 2023

سرکار کی طرف سے دیا ہوا راشن تقسیم کے بعد باقی ماندہ کسی اور کو دینا کیسا ہے؟ سوال نمبر۔ ٤٢٨

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ایک سوال یہ ہے کہ آگن باڑی میں سرکار کی طرف سے مفت میں انسے جو لوگ جڑے ہیں انکے لیےغلہ آتا ہے اور جتنا لوگوں کے لیے آڈر ہے سرکار کی طرف سے اتنا ان لوگوں کو دیدیا جاتا ہے۔

تو اب سوال یہ ہے کہ سب کو دینے کے بعد کچھ غلہ بچ جاتا ہے تو کیا بچا ہوا غلہ  آگن باڑی کے ذمیداران کسی کو اگر دیدیں تو کیا یہ جائز ہے اسکو لینا اور استعمال کرنا؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں آپ کی عین نوازش ہوگی

سائل: عبداللہ یوپی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


راشن ڈیلر حکومت کی طرف سے راشن تقسیم کرنے والا معتمد اور ان کا وکیل ہوتا ہے، اور راشن ڈیلر کو سرکار کی طرف سے انسے جو لوگ جڑے ہیں انکے لیے جوغلہ کا ایک متعین کوٹہ  تقسیم کرنے کے لئے دیا گیا ہے اس میں اُن کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ راشن کے ہر حق دار کو راشن فراہم کرے

لہذا اگر راشن ڈیلر کو سرکار کی طرف سے اختیار ہے کہ اِس باقی ماندہ راشن کو کسی بھی شخص کو عطاء کردے یا خود استعمال کرلیں یا صراحت تو نہیں ہے لیکن سرکار کی طرف اوروں کو باقی ماندہ راشن تقسیم کردینے کا علم ہے اور سرکا اس پر راضی ہے تو اس کے لیے باقی ماندہ راشن کو اپنے اختیار سے کسی کو بھی دینا یا خود استعمال کرناجائز ہوگا اور اگر حکومت کی طرف سے اس کی اجازت نہ ہو تو درست نہیں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر حکومت کی طرف سے ان کو اس کا اختیار ہے کہ بچے ہوئے راشن کو جسے چاہے دے دیں تو ان کے لیے بچے ہوئے راشن کو کسی بھی آدمی کو دینا جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔


فتاوی شامی میں ہے

وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل، وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره. (فتاوی شامي، كتاب الزكوة، ٣/۱۸۹ مكتبه زكريا ديوبند)

بدائع الصنائع میں ہے 

لأن الوكيل يتصرف بتفويض المؤكل فيملك قدر ما فُوّض إليه (بدائع الصنائع ٢٤/٥ المكتبة النعيمية ديوبند) 


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


ہفتہ، 23 ستمبر، 2023

گنپتی وسرجن کے موقع پر اور ان کے دوسرے تہواروں میں غیر مسلموں کو مبارکباد دینا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٢٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

حضرت مفتی صاحب: کیا گنپتی وسرجن کے موقع پر اور دیوالی ہولی دسہرا وغیرہ تہواروں کے موقع پر غیر مسلموں کو مبارک باد دینا درست ہے یا نہیں؟ چونکہ وہ لوگ بھی عید کی مبارک بادی دیتے ہیں، اسی طرح غیر مسلموں کو ان کے تہواروں میں مٹھائیاں دے سکتے ہیں یا نہیں؟

سائل: محمد ساجد ایم پی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


غیر مسلم لوگ عید کی مبارکباد دیتے ہیں تو دینے دیں، کیوں کہ ہندوؤں کے یہاں وحدتِ ادیان کا نظریہ پایا جاتا ہے اس لیے وہ لوگ اسلامی تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کو خوب دل کھول کر مبارک بادی دیتے ہیں، البتہ مسلمانوں کو غیر مسلم کے مذہبی تہواروں پر مبارکباد دینے سے احتراز کرنا ضروری ہے۔ اس لئے کہ مذہبِ اسلام میں صرف اسلام ہی حق اور صحیح مذہب ہے، باقی سب مذاہب باطل ہیں اس لیے مسلمان کے لیے کوئی ایسا کام جائز نہیں، جس سے غیروں کی کسی مذہبی چیز کی تعظیم وتکریم یا اس کی تعریف وغیرہ لازم آتی ہو دوسرے نمبر پر غیر مسلموں کے تہوار چونکہ بت پرستی، پوجا پاٹ اور کفر و شرک پر مبنی ہوتے ہیں اس لئے ان کے تہواروں پر خوشی کا اظہار کرنا اور ان کو مبارکباد دینا جائز نہیں ہے۔


اور اس لئے بھی کہ اس میں کافروں سے مشابہت اور ان کے کفر و شرک سے رضامندی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ واقعی وہ اچھا کام کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے مشرکانہ معاملات میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا کیسے جائز اور درست ہوسکتا ہے؟ اس لئے غیر مسلموں کے مذہبی تہوار پر انہیں مبارکباد دینے سے بچنا واجب ہے۔


لیکن جہاں سخت مجبوری کی صورت ہو مثلاً مسلمان اقلیت میں ہوں اور ملک میں مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلانے والوں کو مزید منافرت پھیلانے کا موقع ملے گا وہاں اگر محض کسی جائز مصلحت کی بناپر توریۃً مبارکباد دی جائے ،جب کہ دل میں اس تہوارکی عظمت نہ ہو اور مجمل الفاظ بولے جائے تو ضرورت کی بنا پر اس کی گنجائش ہوگی مثلاً یوں کہہ دے کہ میری نیک تمنائیں تمھارے ساتھ ہیں اور نیت یہ ہو کہ اللہ تعالی تم کو ایمان نصیب فرمائیں، تہوار وغیرہ کی تعظیم یا تعریف وغیرہ ہرگز مقصود نہ ہو توشرعاً اس کی گنجائش ہوگی۔


مسؤلہ صورت میں غیر مسلموں کے تہواروں  کے موقع پر ان کو مبارکباد دینا  ان سے مودت و محبت کی علامت ہے جس کی وجہ سے علماء نے ایسے مواقع پر ان کو اس تہوار کی تعظیم کی خاطر مبارکباد دینا یا ان کو ہدایا دینا ممنوع قرار دیا ہے۔ بلکہ اگر اس سے ان کے دین کی تعظیم  مقصود ہو تو اس میں کفر کا قوی  اندیشہ ہے


فتاوی عالمگیری میں ہے 

اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم: خوب سیرت نہاوند یکفر ۔۔۔۔۔۔۔ وما یھدی المجوس یوم النیروز من أطعمتھم إلی الأشراف ومن کان لھم معرفة لا یحل أخذ ذلک علی وجہ الموافقة معھم وإن أخذہ لا علی ذلک الوجہ لا بأس بہ والاحتراز عنہ أسلم (الفتاوی البزازیة علی ھامش الھندیة، ٦/۳۳۳ ط: مکتبة زکریا دیوبند)


فتاوی تاتارخانیہ میں ہے 

اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم خوب رسمے نہادہ اند أو قال نیک آئیں نہادہ اند یخاف علیه الکفر (الفتاوی التاتارخانیة،٧/٣٤٨)


البحر الرائق میں ہے 

(والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لايجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام، بل كفر، وقال أبو حفص الكبير - رحمه الله -: لو أن رجلًا عبد الله تعالى خمسين سنةً، ثم جاء يوم النيروز وأهدى إلى بعض المشركين بيضةً يريد تعظيم ذلك اليوم فقد كفر وحبط عمله ( البحر الرائق  ٨/٥٥٥


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

جمعہ، 22 ستمبر، 2023

متعینہ خریداری پر کمپنیوں کی طرف سے کچھ اضافی انعام کا وعدہ کرنا سوال نمبر ٤٢٦

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ایک کمپنی دکاندارسےکہتی ہےکہ آپ ہرماہ ہم سے 30ہزار کاسامان لیں آپکا 3ہزارکرایہ ہم دیں گے کیا یہ صورت جائزہے؟ حضرت اس کا جواب عنایت فرمائیں جزاک اللہ خیرا۔

سائل: عبدالخالق صاحب


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کمپنیاں اپنی اپنی مصنوعات کی فروخت بڑھانے  کے لیے مختلف اوقات میں مختلف قسم کی خریداری پر کچھ زائد اشیاء یا الگ سے رقم وغیرہ بطور انعامات ظاہر کیا کرتی ہے یہ خاص کمپنی کی طرف سے عطیہ ہوتاہے لہذا صورت مسئولہ میں کمپنی کی طرف سے دکاندار کو بطور انعام ۳۰۰۰ کرایا دینے کی پیش کش کرنا شریعت کی رو سے جائز ہے یہ سامان کی خریداری پر ابھارنے اور رغبت دلانے کے لیے کمپنی کی طرف سے ایک طرح کا عطیہ ہے،

حضرت مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں: ”بندے کے خیال میں یہ انعام ”زیادة في المبیع“ نہیں ہے؛ بلکہ ایک ہبہٴ مبتدئہ کا ایک طرف وعدہ ہے، بائع اور مشتری میں سے کوئی بھی اسے ”زیادة فی المبیع“ نہیں سمجھتا، نہ عرفِ عام میں اسے ”زیادة فی المبیع“ سمجھا جاتا ہے اور شرعاً بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ بیع تام ہونے کے بعد جب بھی بائع مشتری کو کوئی چیز بلا قیمت دے، تو اسے ”زیادة فی المبیع“ قرار دیا جائے۔ (فتاوی عثمانی: ۳/۲۵۷، کتاب البیوع، ط: زکریا دیوبند)

وقال العثماني: إن مثل ہذہ الجوائز التي تمنح علی أساس عمل عملہ أحد لا تخرج عن کونہ تبرعاً وہبةً؛ لأنہا لیس لہا مقابل، وأن العمل الذي عملہ الموہوبُ لہ لم یکن علی أساس الإجارة أو الجہالة، حتی یقال: إن الجائزة أجرة لعملہ، وإنما کان علی أساس الہبة للتشجیع، وجاء في الموسوعة الکویتیة: الأصل إباحة الجائزة علی عمل مشروع سواء کان دینیًا أو دنیویًا لأنہ من باب الحث علی الخیر والإعانة علیہ بالمال، وہو من قبیل الہبة (ہامش الفتاوی للعثماني نقلاً عن بحوث في قضایا فقہیة المعاصرة: ۳/ ۲۵۹، کتاب البیوع، ط: زکریا، دیوبند)

واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

بدھ، 20 ستمبر، 2023

پندرہ دن کی اقامت کی نیت کرکے پھر سفر کا ارادہ کرے تو سفر شرعی کا اعتبار کہا سے ہوگا؟ وطن اقامت سے یا وطن اصلی سے سوال نمبر ٤٢٥

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔

سوالاً عرض ہے کہ ایک صاحب نے اپنے وطن اصلی سے سفر شرعی شروع کیا ، درمیان میں کسی مقام پر پندرہ دن سے زیادہ اقامت کی نیت کر لی ، لیکن چند ہی ایام گذرے تھے کہ درمیان میں اپنی نیت بدل دی ، اور اس نے آگے سفر شروع کیا تو کیا ٤٨ میل یہاں (وطن اقامت) سے شمار کرےگا، یا وطن اصلی سے ؟؟؟ والسلام

سائل: مولانا بلال صاحب نولپوری

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی

کسی جگہ صرف ١٥ دن ٹھہرنے کی نیت کرلے تو وہ جگہ وطن اقامت ہوجاتی ہے اور وطنِ اقامت یہ باطل ہوتا ہے، صرف ان تین صورتوں میں ہی (١) وطنِ اصلی، (٢) دوسری جگہ وطنِ اقامت (٣) انشائے سفر شرعی۔ 

لہذا جب تک اس جگہ سے سفر شرعی کی نیت سے روانہ نہ ہوجائیں وہ مقیم ہی شمار ہوگا صرف نیت کرلینے سے اقامت ختم نہیں ہوگی بلکہ وہاں سے روانہ ہونے پر اقامت کا حکم ختم ہوگا۔

اور جب فقہاء نے سفر شرعی کی قید لگائی ہے تو ٤٨ میل کا اعتبار بھی وطن اقامت سے ہی ہوگا

سفر کا مسئلہ بھی زکوۃ کی طرح ہے کہ ابتداء میں تجارت کی نیت تھی پھر اس کو اپنے لئے خاص کرلے تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوتی جیسے زمین تجارت کی نیت سے خریدلی پھر وہ اپنے لئے خاص کرلی اور تجارت کی نیت ختم کردی اب پھر سے وہ تجارت کی نیت کرلے تو بھی اس پر زکوۃ کے وجوب کا حکم نہیں ہوگا جب تک کہ وہ اس کو فروخت نہ کردے

اسی طرح ایک بار صرف اقامت کی نیت کرلے تو وہ مقیم ہوجائے گا اب صرف نیت سے وہ اقامت ختم نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اس وطن اقامت سے سفر شرعی یعنی ٤٨ میل کی مسافت شروع نہ کریں، سفر شرعی یعنی ٤٨ میل کی مسافت کے شروع کرنے سے ہی اس کی اقامت باطل ہوگی۔

 فتاوی شامی میں ہے

ويبطل وطن الإقامة بمثله و بالوطن الأصلي و بإنشاء السفر والأصل أن الشيئ  يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه. (الدر المختار مع ردالمحتار كتاب الصلوة باب صلوة المسافر ٢/ ٦١٢۔٦١٥)

فتاوی عالمگیری میں ہے

ووطن الإقامة يبطل بوطن الإقامة، بإنشاء السفر، و بالوطن الأصلي.(الفتاوى الهندية، كتاب الصلوة، ١/٢٠٢ دارالفكر)

ہدایہ میں ہے

ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة " لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر

ولهذا يصير المسافر مقيما بمجرد النية ولا يصير المقيم مسافرا إلا بالسفر (كتاب الزكاة، ١/٢٠٣ رحمانية)


واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی 


منگل، 19 ستمبر، 2023

قرآن کریم مجہول پڑھنے والے کی امامت کا حکم سوال نمبر ٤٢٤

 سوال 

السلام عليكم و رحمۃاللہ و برکاتہ

حضرت ! قرآن کریم مجہول خواں کے پیچھے عالم و غیر عالم کے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟

سائل: سہیل جے پوری 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


امامت کا حق دار وہ شخص ہے جو متقی اور پرہیز گار ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو صحیح مخارج اور اعراب کی رعایت کے ساتھ پڑھنا جانتا ہو قرآن کریم کو مجہول پڑھنا جائز نہیں ہے۔


لیکن اس بات کا فیصلہ کرنا کہ امام کی قرأت مجہول ہے یا نہیں؟ اور اگر مجہول ہے تو کس درجہ کی مجہول ہے؟ یہ عوام اور ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے بلکہ یہ فیصلہ کرنا ماہرِ فن یعنی ماہر قاری ہی کر سکتا ہے اس  لیے مسجد میں امام کے خلاف فتنہ کھڑا کرنا اور انتشار پھیلانا درست نہیں ہے اگر واقعۃً ایسا کوئی امام ہو جو مجہول قراءت کرے اور حروف میں ایسی تبدیلی ہورہی ہے کہ جس سے معنی بالکل تبدیل ہوجائیں تو نماز فاسد ہوجائے گی۔


اسی طرح اعراب میں اس طرح کی غلطی کرے کہ لحنِ جلی ہو جائے  جیسے الحمدللہ رب العالمین کی جگہ  الحمدو (دال کو زیادہ کھینچ دیا) لِلّٰھی(ھا کے زیر کو لمبا کردیا) تو یہ سب فحش غلطیاں ہیں ان سے نماز فاسد ہوجاتی ہے ایسی مجہول قراءت کرنے والے امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا درست نہیں۔


البتہ یہ دونوں باتیں نہ ہو یعنی معنی میں فرق بھی نہ پڑے اور حروف جان بوجھ کر تبدیل نہ کرے تو پھر نماز فاسد نہیں ہوگی تاہم ایسی مجہول قراءت کرنا قرآن پاک کے آداب کے خلاف ہے لهذا کسی اچھے قاری کو امام بنایا جائے


فتاوی عالمگیری میں ہے 

وصل حرف من کلمة بحرف من کلمة اخری: ان وصل حرفا من کلمة بحرف من کلمة اخری نحو ان قرأ ایاک نعبد ووصل الکاف بالنون او غیر المغضوب علیہم ووصل الیاء بالعین…..الخ

إن ذکر حرفا مکان حرف ولم یغیر المعنی بان قرأ إن المسلمون اِن الظالمون وما أشبه ذلك ذلک لم تفسد صلاته، وإن غیر المعنی فان أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقة کالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مکان الصالحات تفسد صلاته عند الکل۔ (فتاوی ہند یہ: ج۱، ص۷۸)

ایضاً 

وإن زاد کلمة في آیة إن کانت في القرآن و لا  یتغیر  المعنی … لا تفسد صلاته في قولهم. (البزازیة علی هامش الفتاویٰ الهندیة  ١/١٥٤ الفتاویٰ الهندیة: ١/٩٧).


فتاوی تاتارخانیہ میں ہے 

إن کان لما ذکر من الشطر وجه صحیح في اللغة، ولا یکون لغوا، ولا یتغیر به المعنی، ینبغي أن لا یوجب فساد الصلوة (الفتاویٰ التاتارخانیة: ٢/١١٣  زکریا).


فتاوی شامی میں ہے 

ومنها القراءة بالألحان إن غير المعنى وإلا لا إلا في حرف مد ولين إذا فحش وإلا لا ،بزازية

(قوله بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلها كما في الفتح إشباع الحركات لمراعاة النغم (قوله إن غير المعنى) كما لو قرأ - {الحمد لله رب العالمين} وأشبع الحركات حتى أتى بواو بعد الدال وبياء بعد اللام والهاء وبألف بعد الراء، ومثله قول المبلغ رابنا لك الحامد بألف بعد الراء لأن الراب هو زوج الأم كما في الصحاح والقاموس وابن الزوجة يسمى ربيبا۔

(قوله وإلا لا إلخ) أي وإن لم يغير المعنى فلا فساد إلا في حرف مد ولين إن فحش فإنه يفسد، وإن لم يغير المعنى، وحروف المد واللين وهي حروف العلة الثلاثة الألف والواو والياء إذا كانت ساكنة وقبلها حركة تجانسها، فلو لم تجانسها فهي حروف علة ولين لا مد. 

[تتمة] فهم مما ذكره أن القراءة بالألحان إذا لم تغير الكلمة عن وضعها ولم يحصل بها تطويل الحروف حتى لا يصير الحرف حرفين، بل مجرد تحسين الصوت وتزيين القراءة لا يضر، بل يستحب عندنا في الصلاة وخارجها كذا في التتارخانية. مطلب مسائل زلة القارئ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ولو زاد کلمة أو نقص کلمة أو نقص حرفا لم تفسد ما لم یتغیر المعنی. (الدر المختاروحاشية ابن عابدين ۲ / ٣٩٢-٣٩٣-۳۹۵-۳٩٦ زکریا خلاصة الفتاویٰ ١/١١٧)


واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

پیر، 18 ستمبر، 2023

نماز جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دیکھنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٢٣

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

مفتی صاحب، نماز جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دیکھا سکتے یا نہیں؟

سائل: ساجد شیخ اورنگ آباد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


احادیث مبارکہ میں میت کی تجہیز وتکفین اور تدفین کے سلسلے میں تاخیر کی ممانعت وارد ہوئی ہے اس لئے بلاکسی خاص وجہ کہ تاخیر کرنا درست نہیں ہے 

البتہ میت کا چہرہ دیکھنا چاہے نماز جنازہ سے پہلے ہو یا اس کے بعد ہو کہ جس کی بنا پر تدفین میں تاخیر لازم نہ آئے تو جائز ہے لیکن یہ کوئی حکم شرعی نہیں کہ جس کو سنت یا مستحب قرار دیا جائے البتہ نماز جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دیکھنا بہتر نہیں ہے، بسا اوقات میت میں کچھ تغیر آجاتا ہے جس میں ایک مسلمان کے عیب کے ظاہر ہونے کا خطرہ ہے لہذا اس سے احتراز ہی بہتر ہے اور اگر عورت کا جنازہ ہو تو پردے کا خیال رکھنا ضروری ہے غیر محرم مردوں کو نہ دکھایا جائے۔

اسی طرح اس کے ساتھ رسومات و بدعات شامل ہوجائیں یا کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی ہورہی ہو  یا اس کو باعث ثواب سمجھا جائےتو پھر شرعا ممنوع ہے۔


صحيح البخاري میں ہے

عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أسرعوا بالجنازة، فإن تك صالحة فخير تقدمونها، وإن يك سوى ذلك، فشر تضعونه عن رقابكم (صحيح البخاري، باب السرعة بالجنازة ۱/۳۵۲)

سنن ابن ماجة میں ہے

عن أنس بن مالک رضي اللہ عنہ قال: قبض إبراہیم بن النبي صلی اللہ علیہ وسلم، قال لہم النبي صلی اللہ علیہ وسلم: لا تدرجوہ في أکفانہ حتی أنظر إلیہ فأتاه فانكب عليه وبكى (سنن ابن ماجة، كتاب الجنائز، باب ما جاء في النظرإلى الميت إذا أدرج في أكفانه ١/٤٧٣)

سنن ابی داوٴد میں ہے 

قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: أسرعوا الجنازة فإن تک صالحةً فخیر تقدمونہا إلیہ، وإن تک سوی ذلک فشر تضعونہ عن عن رقابکم (سنن ابی داوٴد: ۱/۱۵۷)

فتاوى تاتارخانيہ میں ہے 

وفي اليتيمة:سألت يوسف بن محمد عمن يرفع الستر عن وجه الميت ليراه؟قال لا بأس به۔ (الفتاوى التاتارخانية، باب الجنائز، فصل في الكافر يموت وله ولي مسلم،١/٦١٦ دار کتاب العلم)

فتاوی عالمگیری میں ہے 

وقال في الہندیة: ویبادر إلی تجہیزہ ولا یوٴخر (الفتاوی الہندیة: ۱/۱۵۷)

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

ہفتہ، 16 ستمبر، 2023

نماز جنازہ بغیر کچھ پڑھے جلدی جلدی صرف تکبیرات کہکر ختم کردینا صحیح ہے؟ سوال نمبر ٤٢٢

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

مسئلہ یہ ہے کہ ایک جگہ امام صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنازے کی نماز کی  تکبیریں ایسی   پڑھی کہ نماز ختم کر دی  کہ کسی کو کچھ پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا  نہ ثناء نہ درود شریف نہ دعا تو کیا نماز ہوگی یا نہیں؟ اس کا جواب مرحمت فرمائیں فقط والسلام۔

سائل: عبد الحی سالک مہا راشٹر اورنگ آباد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


نماز جنازہ میں صرف دوچیزیں فرض ہے (۱) چار مرتبہ اللہ اکبر کہنا، ہر تکبیر یہاں قائم مقام ایک رکعت کے سمجھی جائے گی۔ (۲) قیام یعنی کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھنا، جس طرح فرض واجب نمازوں میں قیام فرض ہے اور بغیر عذر کے اس کا ترک جائز نہیں اسی طرح نماز جنازہ میں بھی بلاعذر قیام کا ترک کرنا جائز نہیں ہے۔

اور نمازِ جنازہ میں صحیح قول کے اعتبار سے کوئی واجب نہیں ہیں، البتہ تین چیزیں سنت ہیں:

(۲) اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا۔

(۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا۔

(۳) میت کے لیے دعا کرنا اس کو بعض علماء نے اس کو واجب قرار دیا ہے جیسا کہ علامہ شامی نے صراحت کی ہے

مذکورہ صورت میں امام کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اس لئے کہ نماز جنازہ یہ میت کی دعاء کے لئے ہی مشروع ہے البتہ اگر کسی امام نے مسؤلہ صورت کی طرح نماز جنازہ پڑھادی تو چونکہ ارکان مکمل ہو چکے ہے اس لئے نفس نماز ادا ہوجائے گی۔ اور جنہوں نے دعاء کو واجب قرار دیا ہے ان کے نزدیک بھی ہوجائے گی اس وجہ سے کہ نماز جنازہ میں سجدہ نہیں ہے اس لئے سہو کی تلافی ممکن نہیں ہے لہذا نفس نماز تو ادا ہوجائے گی البتہ مقصد فوت ہوجاۓ گا۔

  

فتاوی شامی میں ہے 

(وركنها) شيئان (التكبيرات) الأربع، فالأولى ركن أيضاً لا شرط، فلذا لم يجز بناء أخرى عليها (والقيام) فلم تجز قاعدا بلا عذر.

(وسنتها) ثلاثة (التحميد والثناء والدعاء فيها) ذكره الزاهدي، وما فهمه الكمال من أن الدعاء ركن ... (وهي أربع تكبيرات) كل تكبيرة قائمة مقام ركعة (يرفع يديه في الأولى فقط) وقال أئمة بلخ في كلها: (ويثني بعدها) وهو " سبحانك اللهم وبحمدك " (ويصلي على النبي صلى الله عليه وسلم) كما في التشهد (بعد الثانية)؛ لأن تقديمها سنة الدعاء (ويدعو بعد الثالثة) بأمور الآخرة والمأثور أولى،  

ایضاً 

أقول: وتقدم في باب شروط الصلاة أن المصلي ينوي مع الصلاة لله تعالى الدعاء للميت، وعلله الشارح هناك بأنه الواجب عليه، ونقلناه هناك عن الزيلعي والبحر والنهر، فهذا مؤيد لما اختاره المحقق، والله الموفق. (ردالمحتار علی الدر المختار جلد ۳ صفحہ ۱۰۵ = ۱٠٦ دار عالم الکتب)

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

جمعہ، 15 ستمبر، 2023

ہندوؤں کا تہوار پولا میں شرکت کا شرعی حکم کیا ہے سوال نمبر٤٢١

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مسئلہ یہ ہے کہ پولاجو کہ ہندوؤں کا تہوار ہے تو بعض مسلم لوگ بھی اس کو مناتے ہیں انہی کی طرح بیل بھگاتے ہیں بیلوں کو سجاتے ہیں اور ان کے جو کھانے ہوتے وہ پکاتے ہیں یہ سب کرتے ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ فقط والسلام 

سائل: عبد الحی سالک مہاراشٹر اورنگ آباد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


غیر قوموں کے اکثر تہوار ان کے مشرکانہ عقائد پر مبنی ہوتے ہیں، اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے شرک سے بیزاری اور بے تعلقی کا اظہار ضروری ہے چنانچہ ان کے تہوار میں کسی بھی قسم کی شرکت سے انکے عقائد اور نظریات کی تائید و حمایت اور تقویت پائی جاتی ہے لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔

البتہ غیر مسلموں کے تہوار کی دوصورتیں ہے ایک وہ تہوار جن کا تعلق خالص مذہب سے ہے یعنی وہ ان کے شعائر میں سے ہو اور ان کے مذہب کی علامات میں سے ہو جیسے گنپتی وسرجن وغیرہ ایسے تہواروں میں شرکت سے ان کے دین کی تعظیم ہوتی ہے جس میں کفر کا قوی اندیشہ ہے لہذا مسلمانوں  کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ  یکجہتی یا محبت کی غرض سے ان کے ایسے تہواروں میں شرکت  سے مکمل اجتناب  کریں۔

دوسرے نمبر پر وہ تہوار جس کا تعلق جہالت پرمبنی خوشی سے ہے اس قسم کے تہواروں میں اگرچہ کفر تو نہیں ہے لیکن اس فعل قبیح میں ان کی تعداد کے اضافے کا سبب ہے اور حدیث (من كثر سواد قوم فہو منہم کنزالعمال ۲۲٫۹) کے مصداق ہوکر گناہ گار ہوں گے، لہذا اس فعل سے بچنا ضروری ہے۔


مسؤلہ صورت میں ہندوؤں کا تہوار پولا کے بارے میں بعد التحقیق معلوم ہوا ہے کہ وہ ایک جہالت پر مبنی تہوار ہے لہذا مسلموں کے لئے منانا درست نہیں ہے جو مسلمان مناتے ہیں اور ان کی طرح کھانا وغیرہ بناتے ہیں وہ لوگ حدیث (من كثر سواد قوم فہو منہم کنزالعمال ۲۲٫۹) کے مصداق ہوکر گناہ گار ہوں گے، لہذا اس تہوار میں شرکت سے بچنا ضروری ہے۔


فتاوی شامی میں ہے

وما كان سببا لمحظور فهو محظور (فتاوی شامی ١١/٢٠۵)


البحر الرائق میں ہے

وقد قال صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم  فهو منهم». وقال في الجامع الأصغر: رجل اشترى يوم النيروز شيئًا يشتريه الكفرة منه وهو لم يكن يشتريه قبل ذلك إن أراد به تعظيم ذلك اليوم كما تعظمه المشركون كفر، وإن أراد الأكل والشرب والتنعم لايكفر (البحر الرائق ٨/۵۵۵ مسائل متفرقہ فی الاکراہ ط دار الکتاب الاسلامی)


العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی 

ہفتہ، 9 ستمبر، 2023

دیوالی ہولی دسہرا کرسمس وغیرہ تہواروں کے موقع پر مٹھائی اور تحفے وغیرہ لینے کا حکم سوال نمبر ٤٢٠

 سوال 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلےکے بارے میں کہ دیوالی ہولی دسہرا کرسمس وغیرہ تہواروں کے موقع پر غیر مسلم مسلمانوں کے یہاں جو مٹھائی بھیجتے ہیں اس کا لینا اور کھانا کیسا ہے؟

اسی طرح ہندوستان میں فیکٹریوں کے مالک اپنے ملازمین کو دیوالی کے دن پیسے اور کپڑے مٹھائی وغیرہ کی شکل میں کچھ تحفے دیتے ہیں ، اس کو قبول کرنا اور ان کی دی ہوئی مٹھائی کھانا جائز  ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں

سائل: محمد دانش بملا گودھروی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


احادیث سے اتنی بات تو ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غیر مسلموں کی دعوت قبول کی ہے اور ان کے ہدیہ و تحائف بھی قبول کئے ہیں؛ چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کرنا اور آپ کا بخوشی قبول فرمانا اسی طرح ایک یہودیہ کی دعوت قبول کرنا وغیرہ وغیرہ

البتہ دیوالی، ہولی، دسہرا اور کرسمس وغیرہ تہواروں کے موقع پر یہ ہدایا و تحائف اگر مٹھائی وغیرہ کی شکل میں ہوں اور مندر پر یا بت وغیرہ پر چڑھائی گئی ہوں تو پھر اسے قبول کرنا اور کھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن مجید میں چڑھاوے کی چیزوں کی حرمت موجود ہے

البتہ اگر یہ یقین ہو کہ انہوں نے اپنے معبودوں کے نام پر نہیں  چڑھائی ہے اور نہ ہی اس میں کسی حرام و ناپاک چیز کی آمیزش ہے، بلکہ وہ بازار سے خریدی گئی ہے تو اس کا استعمال جائز ہے، لیکن لینے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان کے تہوار منانے اور اس میں شرکت کرنے کا ارادہ نہ رکھیں اور نہ ہی اس دن کی تعظیم کا قصد کریں.

مسؤلہ صورت میں غیر مسلموں کے تہواروں کے موقع پر کمپنیوں اور فیکٹریوں کے مالکوں کی جانب سے مسلم ملازمین کا تحفے قبول کرنا اور تحفے میں دی ہوئی مٹھائیاں کھانا جائز ہے ، بشرطیکہ کمپنی وغیرہ کے ملازمین دیوالی کے دن اپنے مالکوں کے تحفے ان کے تہواروں میں شرکت اور اس کی تعظیم کے قصد سے نہ لیں بلکہ حسن سلوک کی غرض سے لیں تو یہ ان کے لیے جائز ہے

لیکن پھر بھی تہوار وغیرہ کے مواقع پر نہ لینا ہی افضل ہے، اس لیے کہ اس میں کافروں سے مشابہت اور ان کے کفر و شرک سے رضامندی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے لہٰذا ایسے مواقع پر ان کے ہدایا کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔

أحكام القرآن للجصاص میں ہے 

وما أهل لغير الله به فإن ظاهره يقتضي تحريم ما سمي عليه غير الله ۔۔۔فينتظم ذلك تحريم ما سمي عليه الأوثان ۔(أحكام القرآن للجصاص، سورۂ المائدۃ)

صحيح البخاري میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ يَهُودِيَّةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ مَسْمُومَةٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا فَجِيءَ بِهَا فَقِيلَ أَلاَ نَقْتُلُهَا. قَالَ: لاَ فَمَا زِلْتُ أَعْرِفُهَا فِي لَهَوَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحيح البخاري)

ایضاً 

وَقَالَ سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ إِنَّ أُكَيْدِرَ دُومَةَ أَهْدَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحيح البخاري حديث)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

روي أن امرأة سألت عائشة قالت:إن لنا اظآرا من المجوس وإنه يكون لهم العيد فيهدون لنا فقالت: أما ما ذبح لذلك اليوم فلا تأكلوا ولكن كلوا من أشجارهم۔ (مصنف ابن أبي شيبة ، اثر نمبر : ٢٤٣٧١)

فتاوی شامی میں ہے

لو أهدى لمسلم و لم يرد تعظيم اليوم بل جرى على عادة الناس لا يكفر وينبغي أن يفعله قبله أو بعده نفيا للشبهة (الدر المختار مع رد المحتار  ١٠/٤٨٦ زكريا)

أيضاً 

والأولی للمسلمین أن لا یوافقہم علی مثل هذہ الأحوال لإظہار الفرح والسرور۔ ( فتاوی شامي زکریا ۱۰/٤٨٦)

العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعرات، 7 ستمبر، 2023

مصافحہ کے وقت پہلے سلام کا جواب دیں یا دعا دیں؟ سوال نمبر ٤١٩

 سوال 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

سوال یہ ہے کہ جب کسی سے مصافحہ کریں تو اسکا جواب کن الفاظ سے دینا مسنون ہے *وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کے ذریعے* یا پھر  *یغفر اللّٰہ لنا و لکم کے ذریعے* جواب دینا مسنون ہے؟ براہ کرم مدلل جواب ارسال فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

سائل: محمد بن مولانا سعید پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


ملاقات کے آداب میں سب سے پہلے  سلام کرنا ہے اس کے بعد مصافحہ کرنا مسنون ہے لہذا سلام کرتے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے اور احادیث میں مصافحہ کو سلام کی تکمیل قرار دیا گیا ہے،  حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تعالی پر یہ حق ہو جاتا ہے کہ ان کی دعاؤں کو سنے اور دونوں ہاتھوں کے الگ ہونے سے پہلے اُن کی مغفرت فرما دے لہذا پہلے سلام اور پھر صافحہ کرنا چاہیے، کیوں کہ سلام کے بغیر صرف مصافحہ خلافِ سنت ہے۔


اور جب سلام کیا جائے تو سلام کا جواب دینا واجب ہے اور دعا دینا مسنون ہے لہذا اس کے لئے مصافحہ کے وقت اگر سامنے والے نے پہلے سلام کیا ہے تو جواب دینا ضروری ہے اس کے بعد یغفر اللّٰہ لنا و لکم سے اس کو دعا دی جائے۔


فتاوی شامی میں ہے

(قوله: لقوله عليه الصلاة والسلام  إلخ) كذا في الهداية، وفي شرحها للعيني: قال النبي صلى الله عليه وسلم : «إن المؤمن إذا لقي المؤمن فسلم عليه وأخذ بيده فصافحه تناثرت خطاياهما كما يتناثر ورق الشجر». رواه الطبراني والبيهقي.  (فتاوی شامی ٩/٥٤۷)

ایضاً 

وعند اللقاء بعد السلام وأن یأخذ الإبہام فإن فیہ عرقا ینبت المحبة کذا جاء في الحدیث (فتاوی شامی ٩/٥٤۸)

ایضاً

إنّ السلام سنة واستماعه مستحبّ، وجوابه أي ردّہ فرض کفایة، وإسماع ردّہ واجب. (شامي / کتاب الحظر والإباحۃ  ۹/۵۹۳ زکریا)


تکملہ فتح الملھم میں ہے

قال النووي: نقل ابن عبد البر إجماع المسلمین علی أن ابتداء السلام سنة وأن ردہ فرض (أي واجب). (تکملۃ فتح الملہم ۴؍۲۴۵ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)


الغرض: مفتی آصف بن محمد گودھروی