سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔
سوالاً عرض ہے کہ ایک صاحب نے اپنے وطن اصلی سے سفر شرعی شروع کیا ، درمیان میں کسی مقام پر پندرہ دن سے زیادہ اقامت کی نیت کر لی ، لیکن چند ہی ایام گذرے تھے کہ درمیان میں اپنی نیت بدل دی ، اور اس نے آگے سفر شروع کیا تو کیا ٤٨ میل یہاں (وطن اقامت) سے شمار کرےگا، یا وطن اصلی سے ؟؟؟ والسلام
سائل: مولانا بلال صاحب نولپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
کسی جگہ صرف ١٥ دن ٹھہرنے کی نیت کرلے تو وہ جگہ وطن اقامت ہوجاتی ہے اور وطنِ اقامت یہ باطل ہوتا ہے، صرف ان تین صورتوں میں ہی (١) وطنِ اصلی، (٢) دوسری جگہ وطنِ اقامت (٣) انشائے سفر شرعی۔
لہذا جب تک اس جگہ سے سفر شرعی کی نیت سے روانہ نہ ہوجائیں وہ مقیم ہی شمار ہوگا صرف نیت کرلینے سے اقامت ختم نہیں ہوگی بلکہ وہاں سے روانہ ہونے پر اقامت کا حکم ختم ہوگا۔
اور جب فقہاء نے سفر شرعی کی قید لگائی ہے تو ٤٨ میل کا اعتبار بھی وطن اقامت سے ہی ہوگا
سفر کا مسئلہ بھی زکوۃ کی طرح ہے کہ ابتداء میں تجارت کی نیت تھی پھر اس کو اپنے لئے خاص کرلے تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوتی جیسے زمین تجارت کی نیت سے خریدلی پھر وہ اپنے لئے خاص کرلی اور تجارت کی نیت ختم کردی اب پھر سے وہ تجارت کی نیت کرلے تو بھی اس پر زکوۃ کے وجوب کا حکم نہیں ہوگا جب تک کہ وہ اس کو فروخت نہ کردے
اسی طرح ایک بار صرف اقامت کی نیت کرلے تو وہ مقیم ہوجائے گا اب صرف نیت سے وہ اقامت ختم نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اس وطن اقامت سے سفر شرعی یعنی ٤٨ میل کی مسافت شروع نہ کریں، سفر شرعی یعنی ٤٨ میل کی مسافت کے شروع کرنے سے ہی اس کی اقامت باطل ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے
ويبطل وطن الإقامة بمثله و بالوطن الأصلي و بإنشاء السفر والأصل أن الشيئ يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه. (الدر المختار مع ردالمحتار كتاب الصلوة باب صلوة المسافر ٢/ ٦١٢۔٦١٥)
فتاوی عالمگیری میں ہے
ووطن الإقامة يبطل بوطن الإقامة، بإنشاء السفر، و بالوطن الأصلي.(الفتاوى الهندية، كتاب الصلوة، ١/٢٠٢ دارالفكر)
ہدایہ میں ہے
ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة " لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر
ولهذا يصير المسافر مقيما بمجرد النية ولا يصير المقيم مسافرا إلا بالسفر (كتاب الزكاة، ١/٢٠٣ رحمانية)
واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں