ہفتہ، 9 ستمبر، 2023

دیوالی ہولی دسہرا کرسمس وغیرہ تہواروں کے موقع پر مٹھائی اور تحفے وغیرہ لینے کا حکم سوال نمبر ٤٢٠

 سوال 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلےکے بارے میں کہ دیوالی ہولی دسہرا کرسمس وغیرہ تہواروں کے موقع پر غیر مسلم مسلمانوں کے یہاں جو مٹھائی بھیجتے ہیں اس کا لینا اور کھانا کیسا ہے؟

اسی طرح ہندوستان میں فیکٹریوں کے مالک اپنے ملازمین کو دیوالی کے دن پیسے اور کپڑے مٹھائی وغیرہ کی شکل میں کچھ تحفے دیتے ہیں ، اس کو قبول کرنا اور ان کی دی ہوئی مٹھائی کھانا جائز  ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں

سائل: محمد دانش بملا گودھروی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


احادیث سے اتنی بات تو ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غیر مسلموں کی دعوت قبول کی ہے اور ان کے ہدیہ و تحائف بھی قبول کئے ہیں؛ چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کرنا اور آپ کا بخوشی قبول فرمانا اسی طرح ایک یہودیہ کی دعوت قبول کرنا وغیرہ وغیرہ

البتہ دیوالی، ہولی، دسہرا اور کرسمس وغیرہ تہواروں کے موقع پر یہ ہدایا و تحائف اگر مٹھائی وغیرہ کی شکل میں ہوں اور مندر پر یا بت وغیرہ پر چڑھائی گئی ہوں تو پھر اسے قبول کرنا اور کھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن مجید میں چڑھاوے کی چیزوں کی حرمت موجود ہے

البتہ اگر یہ یقین ہو کہ انہوں نے اپنے معبودوں کے نام پر نہیں  چڑھائی ہے اور نہ ہی اس میں کسی حرام و ناپاک چیز کی آمیزش ہے، بلکہ وہ بازار سے خریدی گئی ہے تو اس کا استعمال جائز ہے، لیکن لینے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان کے تہوار منانے اور اس میں شرکت کرنے کا ارادہ نہ رکھیں اور نہ ہی اس دن کی تعظیم کا قصد کریں.

مسؤلہ صورت میں غیر مسلموں کے تہواروں کے موقع پر کمپنیوں اور فیکٹریوں کے مالکوں کی جانب سے مسلم ملازمین کا تحفے قبول کرنا اور تحفے میں دی ہوئی مٹھائیاں کھانا جائز ہے ، بشرطیکہ کمپنی وغیرہ کے ملازمین دیوالی کے دن اپنے مالکوں کے تحفے ان کے تہواروں میں شرکت اور اس کی تعظیم کے قصد سے نہ لیں بلکہ حسن سلوک کی غرض سے لیں تو یہ ان کے لیے جائز ہے

لیکن پھر بھی تہوار وغیرہ کے مواقع پر نہ لینا ہی افضل ہے، اس لیے کہ اس میں کافروں سے مشابہت اور ان کے کفر و شرک سے رضامندی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے لہٰذا ایسے مواقع پر ان کے ہدایا کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔

أحكام القرآن للجصاص میں ہے 

وما أهل لغير الله به فإن ظاهره يقتضي تحريم ما سمي عليه غير الله ۔۔۔فينتظم ذلك تحريم ما سمي عليه الأوثان ۔(أحكام القرآن للجصاص، سورۂ المائدۃ)

صحيح البخاري میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ يَهُودِيَّةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ مَسْمُومَةٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا فَجِيءَ بِهَا فَقِيلَ أَلاَ نَقْتُلُهَا. قَالَ: لاَ فَمَا زِلْتُ أَعْرِفُهَا فِي لَهَوَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحيح البخاري)

ایضاً 

وَقَالَ سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ إِنَّ أُكَيْدِرَ دُومَةَ أَهْدَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحيح البخاري حديث)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

روي أن امرأة سألت عائشة قالت:إن لنا اظآرا من المجوس وإنه يكون لهم العيد فيهدون لنا فقالت: أما ما ذبح لذلك اليوم فلا تأكلوا ولكن كلوا من أشجارهم۔ (مصنف ابن أبي شيبة ، اثر نمبر : ٢٤٣٧١)

فتاوی شامی میں ہے

لو أهدى لمسلم و لم يرد تعظيم اليوم بل جرى على عادة الناس لا يكفر وينبغي أن يفعله قبله أو بعده نفيا للشبهة (الدر المختار مع رد المحتار  ١٠/٤٨٦ زكريا)

أيضاً 

والأولی للمسلمین أن لا یوافقہم علی مثل هذہ الأحوال لإظہار الفرح والسرور۔ ( فتاوی شامي زکریا ۱۰/٤٨٦)

العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: