ہفتہ، 16 ستمبر، 2023

نماز جنازہ بغیر کچھ پڑھے جلدی جلدی صرف تکبیرات کہکر ختم کردینا صحیح ہے؟ سوال نمبر ٤٢٢

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

مسئلہ یہ ہے کہ ایک جگہ امام صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنازے کی نماز کی  تکبیریں ایسی   پڑھی کہ نماز ختم کر دی  کہ کسی کو کچھ پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا  نہ ثناء نہ درود شریف نہ دعا تو کیا نماز ہوگی یا نہیں؟ اس کا جواب مرحمت فرمائیں فقط والسلام۔

سائل: عبد الحی سالک مہا راشٹر اورنگ آباد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


نماز جنازہ میں صرف دوچیزیں فرض ہے (۱) چار مرتبہ اللہ اکبر کہنا، ہر تکبیر یہاں قائم مقام ایک رکعت کے سمجھی جائے گی۔ (۲) قیام یعنی کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھنا، جس طرح فرض واجب نمازوں میں قیام فرض ہے اور بغیر عذر کے اس کا ترک جائز نہیں اسی طرح نماز جنازہ میں بھی بلاعذر قیام کا ترک کرنا جائز نہیں ہے۔

اور نمازِ جنازہ میں صحیح قول کے اعتبار سے کوئی واجب نہیں ہیں، البتہ تین چیزیں سنت ہیں:

(۲) اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا۔

(۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا۔

(۳) میت کے لیے دعا کرنا اس کو بعض علماء نے اس کو واجب قرار دیا ہے جیسا کہ علامہ شامی نے صراحت کی ہے

مذکورہ صورت میں امام کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اس لئے کہ نماز جنازہ یہ میت کی دعاء کے لئے ہی مشروع ہے البتہ اگر کسی امام نے مسؤلہ صورت کی طرح نماز جنازہ پڑھادی تو چونکہ ارکان مکمل ہو چکے ہے اس لئے نفس نماز ادا ہوجائے گی۔ اور جنہوں نے دعاء کو واجب قرار دیا ہے ان کے نزدیک بھی ہوجائے گی اس وجہ سے کہ نماز جنازہ میں سجدہ نہیں ہے اس لئے سہو کی تلافی ممکن نہیں ہے لہذا نفس نماز تو ادا ہوجائے گی البتہ مقصد فوت ہوجاۓ گا۔

  

فتاوی شامی میں ہے 

(وركنها) شيئان (التكبيرات) الأربع، فالأولى ركن أيضاً لا شرط، فلذا لم يجز بناء أخرى عليها (والقيام) فلم تجز قاعدا بلا عذر.

(وسنتها) ثلاثة (التحميد والثناء والدعاء فيها) ذكره الزاهدي، وما فهمه الكمال من أن الدعاء ركن ... (وهي أربع تكبيرات) كل تكبيرة قائمة مقام ركعة (يرفع يديه في الأولى فقط) وقال أئمة بلخ في كلها: (ويثني بعدها) وهو " سبحانك اللهم وبحمدك " (ويصلي على النبي صلى الله عليه وسلم) كما في التشهد (بعد الثانية)؛ لأن تقديمها سنة الدعاء (ويدعو بعد الثالثة) بأمور الآخرة والمأثور أولى،  

ایضاً 

أقول: وتقدم في باب شروط الصلاة أن المصلي ينوي مع الصلاة لله تعالى الدعاء للميت، وعلله الشارح هناك بأنه الواجب عليه، ونقلناه هناك عن الزيلعي والبحر والنهر، فهذا مؤيد لما اختاره المحقق، والله الموفق. (ردالمحتار علی الدر المختار جلد ۳ صفحہ ۱۰۵ = ۱٠٦ دار عالم الکتب)

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

کوئی تبصرے نہیں: