سوال
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سوال یہ ہے کہ جب کسی سے مصافحہ کریں تو اسکا جواب کن الفاظ سے دینا مسنون ہے *وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کے ذریعے* یا پھر *یغفر اللّٰہ لنا و لکم کے ذریعے* جواب دینا مسنون ہے؟ براہ کرم مدلل جواب ارسال فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
سائل: محمد بن مولانا سعید پالنپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
ملاقات کے آداب میں سب سے پہلے سلام کرنا ہے اس کے بعد مصافحہ کرنا مسنون ہے لہذا سلام کرتے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے اور احادیث میں مصافحہ کو سلام کی تکمیل قرار دیا گیا ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تعالی پر یہ حق ہو جاتا ہے کہ ان کی دعاؤں کو سنے اور دونوں ہاتھوں کے الگ ہونے سے پہلے اُن کی مغفرت فرما دے لہذا پہلے سلام اور پھر صافحہ کرنا چاہیے، کیوں کہ سلام کے بغیر صرف مصافحہ خلافِ سنت ہے۔
اور جب سلام کیا جائے تو سلام کا جواب دینا واجب ہے اور دعا دینا مسنون ہے لہذا اس کے لئے مصافحہ کے وقت اگر سامنے والے نے پہلے سلام کیا ہے تو جواب دینا ضروری ہے اس کے بعد یغفر اللّٰہ لنا و لکم سے اس کو دعا دی جائے۔
فتاوی شامی میں ہے
(قوله: لقوله عليه الصلاة والسلام إلخ) كذا في الهداية، وفي شرحها للعيني: قال النبي صلى الله عليه وسلم : «إن المؤمن إذا لقي المؤمن فسلم عليه وأخذ بيده فصافحه تناثرت خطاياهما كما يتناثر ورق الشجر». رواه الطبراني والبيهقي. (فتاوی شامی ٩/٥٤۷)
ایضاً
وعند اللقاء بعد السلام وأن یأخذ الإبہام فإن فیہ عرقا ینبت المحبة کذا جاء في الحدیث (فتاوی شامی ٩/٥٤۸)
ایضاً
إنّ السلام سنة واستماعه مستحبّ، وجوابه أي ردّہ فرض کفایة، وإسماع ردّہ واجب. (شامي / کتاب الحظر والإباحۃ ۹/۵۹۳ زکریا)
تکملہ فتح الملھم میں ہے
قال النووي: نقل ابن عبد البر إجماع المسلمین علی أن ابتداء السلام سنة وأن ردہ فرض (أي واجب). (تکملۃ فتح الملہم ۴؍۲۴۵ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
الغرض: مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں