جمعہ، 22 ستمبر، 2023

متعینہ خریداری پر کمپنیوں کی طرف سے کچھ اضافی انعام کا وعدہ کرنا سوال نمبر ٤٢٦

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ایک کمپنی دکاندارسےکہتی ہےکہ آپ ہرماہ ہم سے 30ہزار کاسامان لیں آپکا 3ہزارکرایہ ہم دیں گے کیا یہ صورت جائزہے؟ حضرت اس کا جواب عنایت فرمائیں جزاک اللہ خیرا۔

سائل: عبدالخالق صاحب


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کمپنیاں اپنی اپنی مصنوعات کی فروخت بڑھانے  کے لیے مختلف اوقات میں مختلف قسم کی خریداری پر کچھ زائد اشیاء یا الگ سے رقم وغیرہ بطور انعامات ظاہر کیا کرتی ہے یہ خاص کمپنی کی طرف سے عطیہ ہوتاہے لہذا صورت مسئولہ میں کمپنی کی طرف سے دکاندار کو بطور انعام ۳۰۰۰ کرایا دینے کی پیش کش کرنا شریعت کی رو سے جائز ہے یہ سامان کی خریداری پر ابھارنے اور رغبت دلانے کے لیے کمپنی کی طرف سے ایک طرح کا عطیہ ہے،

حضرت مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں: ”بندے کے خیال میں یہ انعام ”زیادة في المبیع“ نہیں ہے؛ بلکہ ایک ہبہٴ مبتدئہ کا ایک طرف وعدہ ہے، بائع اور مشتری میں سے کوئی بھی اسے ”زیادة فی المبیع“ نہیں سمجھتا، نہ عرفِ عام میں اسے ”زیادة فی المبیع“ سمجھا جاتا ہے اور شرعاً بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ بیع تام ہونے کے بعد جب بھی بائع مشتری کو کوئی چیز بلا قیمت دے، تو اسے ”زیادة فی المبیع“ قرار دیا جائے۔ (فتاوی عثمانی: ۳/۲۵۷، کتاب البیوع، ط: زکریا دیوبند)

وقال العثماني: إن مثل ہذہ الجوائز التي تمنح علی أساس عمل عملہ أحد لا تخرج عن کونہ تبرعاً وہبةً؛ لأنہا لیس لہا مقابل، وأن العمل الذي عملہ الموہوبُ لہ لم یکن علی أساس الإجارة أو الجہالة، حتی یقال: إن الجائزة أجرة لعملہ، وإنما کان علی أساس الہبة للتشجیع، وجاء في الموسوعة الکویتیة: الأصل إباحة الجائزة علی عمل مشروع سواء کان دینیًا أو دنیویًا لأنہ من باب الحث علی الخیر والإعانة علیہ بالمال، وہو من قبیل الہبة (ہامش الفتاوی للعثماني نقلاً عن بحوث في قضایا فقہیة المعاصرة: ۳/ ۲۵۹، کتاب البیوع، ط: زکریا، دیوبند)

واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

کوئی تبصرے نہیں: