سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب، نماز جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دیکھا سکتے یا نہیں؟
سائل: ساجد شیخ اورنگ آباد
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
احادیث مبارکہ میں میت کی تجہیز وتکفین اور تدفین کے سلسلے میں تاخیر کی ممانعت وارد ہوئی ہے اس لئے بلاکسی خاص وجہ کہ تاخیر کرنا درست نہیں ہے
البتہ میت کا چہرہ دیکھنا چاہے نماز جنازہ سے پہلے ہو یا اس کے بعد ہو کہ جس کی بنا پر تدفین میں تاخیر لازم نہ آئے تو جائز ہے لیکن یہ کوئی حکم شرعی نہیں کہ جس کو سنت یا مستحب قرار دیا جائے البتہ نماز جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دیکھنا بہتر نہیں ہے، بسا اوقات میت میں کچھ تغیر آجاتا ہے جس میں ایک مسلمان کے عیب کے ظاہر ہونے کا خطرہ ہے لہذا اس سے احتراز ہی بہتر ہے اور اگر عورت کا جنازہ ہو تو پردے کا خیال رکھنا ضروری ہے غیر محرم مردوں کو نہ دکھایا جائے۔
اسی طرح اس کے ساتھ رسومات و بدعات شامل ہوجائیں یا کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی ہورہی ہو یا اس کو باعث ثواب سمجھا جائےتو پھر شرعا ممنوع ہے۔
صحيح البخاري میں ہے
عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أسرعوا بالجنازة، فإن تك صالحة فخير تقدمونها، وإن يك سوى ذلك، فشر تضعونه عن رقابكم (صحيح البخاري، باب السرعة بالجنازة ۱/۳۵۲)
سنن ابن ماجة میں ہے
عن أنس بن مالک رضي اللہ عنہ قال: قبض إبراہیم بن النبي صلی اللہ علیہ وسلم، قال لہم النبي صلی اللہ علیہ وسلم: لا تدرجوہ في أکفانہ حتی أنظر إلیہ فأتاه فانكب عليه وبكى (سنن ابن ماجة، كتاب الجنائز، باب ما جاء في النظرإلى الميت إذا أدرج في أكفانه ١/٤٧٣)
سنن ابی داوٴد میں ہے
قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: أسرعوا الجنازة فإن تک صالحةً فخیر تقدمونہا إلیہ، وإن تک سوی ذلک فشر تضعونہ عن عن رقابکم (سنن ابی داوٴد: ۱/۱۵۷)
فتاوى تاتارخانيہ میں ہے
وفي اليتيمة:سألت يوسف بن محمد عمن يرفع الستر عن وجه الميت ليراه؟قال لا بأس به۔ (الفتاوى التاتارخانية، باب الجنائز، فصل في الكافر يموت وله ولي مسلم،١/٦١٦ دار کتاب العلم)
فتاوی عالمگیری میں ہے
وقال في الہندیة: ویبادر إلی تجہیزہ ولا یوٴخر (الفتاوی الہندیة: ۱/۱۵۷)
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں