پیر، 4 ستمبر، 2023

وراثت کے مال کی تقسیم سوال نمبر ٤١٧

 سوال

السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب چار لاکھ روپے کو پانچ بھائیوں اور دو بہنوں کے درمیان تقسیم کی کیا صورت ہوگی؟ نوٹ: مرحوم کی نہ بیوی حیات ہے اور نہ ہی کوئی وصیت ہے 

سائل: محمد مدثر عبدالواحد مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جب کسی کا انتقال ہوجائے تو تقسیم وراثت کے چار درجے ہیں  سب سے پہلے تجہیز و تکفین کا مکمل خرچ  دوسرے نمبر پر مرحوم کے قرض کی ادائیگی اُس کے مال سے کی جائے گی، تیسرے نمبر پر جائز وصیت کی ہو تو تہائی ترکے سے وصیت پوری کی جائے گی۔ چوتھے نمبر پر اس کے بعد بچنے والا مال ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

صورت مسؤلہ میں مرحوم کے ورثاء میں صرف سوال میں مذکور ورثاء ہی ہے یعنی پانچ بھائی اور دو بہنیں نیز اس شخص کی بیوی اور نہ کوئی اور وارث اس کی وفات کے وقت زندہ تھے نہ اس کے ماں باپ تو یہ ساری کی ساری رقم ان بھائی بہنوں کے درمیان اس طرح تقسیم کی جائے گی کہ لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دگنا حصہ دیا جائے گا۔

لہذا ان پیسوں کی تقسیم اس طرح سے ہوگی کہ ایک بھائی کے حصے میں (66.666) اور ایک بہن کے حصے میں (33.333) آئیں گے۔

بھائی 

(۱) بھائی                66.666

(۲) بھائی                66.666

(۳) بھائی                66.666

(٤) بھائی                66.666

(٥) بھائی                66.666

بہنیں

(١) بہن                    33.333

(٢) بہن                    33.333


قرآن کریم میں ہے

﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾ (النساء: 11).


تبیین الحقائق میں ہے

إذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين لقوله تعالى ﴿يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين﴾ (تبيين الحقائق ٦/٢٢٤ )

 العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: