منگل، 19 ستمبر، 2023

قرآن کریم مجہول پڑھنے والے کی امامت کا حکم سوال نمبر ٤٢٤

 سوال 

السلام عليكم و رحمۃاللہ و برکاتہ

حضرت ! قرآن کریم مجہول خواں کے پیچھے عالم و غیر عالم کے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟

سائل: سہیل جے پوری 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


امامت کا حق دار وہ شخص ہے جو متقی اور پرہیز گار ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو صحیح مخارج اور اعراب کی رعایت کے ساتھ پڑھنا جانتا ہو قرآن کریم کو مجہول پڑھنا جائز نہیں ہے۔


لیکن اس بات کا فیصلہ کرنا کہ امام کی قرأت مجہول ہے یا نہیں؟ اور اگر مجہول ہے تو کس درجہ کی مجہول ہے؟ یہ عوام اور ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے بلکہ یہ فیصلہ کرنا ماہرِ فن یعنی ماہر قاری ہی کر سکتا ہے اس  لیے مسجد میں امام کے خلاف فتنہ کھڑا کرنا اور انتشار پھیلانا درست نہیں ہے اگر واقعۃً ایسا کوئی امام ہو جو مجہول قراءت کرے اور حروف میں ایسی تبدیلی ہورہی ہے کہ جس سے معنی بالکل تبدیل ہوجائیں تو نماز فاسد ہوجائے گی۔


اسی طرح اعراب میں اس طرح کی غلطی کرے کہ لحنِ جلی ہو جائے  جیسے الحمدللہ رب العالمین کی جگہ  الحمدو (دال کو زیادہ کھینچ دیا) لِلّٰھی(ھا کے زیر کو لمبا کردیا) تو یہ سب فحش غلطیاں ہیں ان سے نماز فاسد ہوجاتی ہے ایسی مجہول قراءت کرنے والے امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا درست نہیں۔


البتہ یہ دونوں باتیں نہ ہو یعنی معنی میں فرق بھی نہ پڑے اور حروف جان بوجھ کر تبدیل نہ کرے تو پھر نماز فاسد نہیں ہوگی تاہم ایسی مجہول قراءت کرنا قرآن پاک کے آداب کے خلاف ہے لهذا کسی اچھے قاری کو امام بنایا جائے


فتاوی عالمگیری میں ہے 

وصل حرف من کلمة بحرف من کلمة اخری: ان وصل حرفا من کلمة بحرف من کلمة اخری نحو ان قرأ ایاک نعبد ووصل الکاف بالنون او غیر المغضوب علیہم ووصل الیاء بالعین…..الخ

إن ذکر حرفا مکان حرف ولم یغیر المعنی بان قرأ إن المسلمون اِن الظالمون وما أشبه ذلك ذلک لم تفسد صلاته، وإن غیر المعنی فان أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقة کالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مکان الصالحات تفسد صلاته عند الکل۔ (فتاوی ہند یہ: ج۱، ص۷۸)

ایضاً 

وإن زاد کلمة في آیة إن کانت في القرآن و لا  یتغیر  المعنی … لا تفسد صلاته في قولهم. (البزازیة علی هامش الفتاویٰ الهندیة  ١/١٥٤ الفتاویٰ الهندیة: ١/٩٧).


فتاوی تاتارخانیہ میں ہے 

إن کان لما ذکر من الشطر وجه صحیح في اللغة، ولا یکون لغوا، ولا یتغیر به المعنی، ینبغي أن لا یوجب فساد الصلوة (الفتاویٰ التاتارخانیة: ٢/١١٣  زکریا).


فتاوی شامی میں ہے 

ومنها القراءة بالألحان إن غير المعنى وإلا لا إلا في حرف مد ولين إذا فحش وإلا لا ،بزازية

(قوله بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلها كما في الفتح إشباع الحركات لمراعاة النغم (قوله إن غير المعنى) كما لو قرأ - {الحمد لله رب العالمين} وأشبع الحركات حتى أتى بواو بعد الدال وبياء بعد اللام والهاء وبألف بعد الراء، ومثله قول المبلغ رابنا لك الحامد بألف بعد الراء لأن الراب هو زوج الأم كما في الصحاح والقاموس وابن الزوجة يسمى ربيبا۔

(قوله وإلا لا إلخ) أي وإن لم يغير المعنى فلا فساد إلا في حرف مد ولين إن فحش فإنه يفسد، وإن لم يغير المعنى، وحروف المد واللين وهي حروف العلة الثلاثة الألف والواو والياء إذا كانت ساكنة وقبلها حركة تجانسها، فلو لم تجانسها فهي حروف علة ولين لا مد. 

[تتمة] فهم مما ذكره أن القراءة بالألحان إذا لم تغير الكلمة عن وضعها ولم يحصل بها تطويل الحروف حتى لا يصير الحرف حرفين، بل مجرد تحسين الصوت وتزيين القراءة لا يضر، بل يستحب عندنا في الصلاة وخارجها كذا في التتارخانية. مطلب مسائل زلة القارئ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ولو زاد کلمة أو نقص کلمة أو نقص حرفا لم تفسد ما لم یتغیر المعنی. (الدر المختاروحاشية ابن عابدين ۲ / ٣٩٢-٣٩٣-۳۹۵-۳٩٦ زکریا خلاصة الفتاویٰ ١/١١٧)


واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

کوئی تبصرے نہیں: