ہفتہ، 23 ستمبر، 2023

گنپتی وسرجن کے موقع پر اور ان کے دوسرے تہواروں میں غیر مسلموں کو مبارکباد دینا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٢٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

حضرت مفتی صاحب: کیا گنپتی وسرجن کے موقع پر اور دیوالی ہولی دسہرا وغیرہ تہواروں کے موقع پر غیر مسلموں کو مبارک باد دینا درست ہے یا نہیں؟ چونکہ وہ لوگ بھی عید کی مبارک بادی دیتے ہیں، اسی طرح غیر مسلموں کو ان کے تہواروں میں مٹھائیاں دے سکتے ہیں یا نہیں؟

سائل: محمد ساجد ایم پی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


غیر مسلم لوگ عید کی مبارکباد دیتے ہیں تو دینے دیں، کیوں کہ ہندوؤں کے یہاں وحدتِ ادیان کا نظریہ پایا جاتا ہے اس لیے وہ لوگ اسلامی تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کو خوب دل کھول کر مبارک بادی دیتے ہیں، البتہ مسلمانوں کو غیر مسلم کے مذہبی تہواروں پر مبارکباد دینے سے احتراز کرنا ضروری ہے۔ اس لئے کہ مذہبِ اسلام میں صرف اسلام ہی حق اور صحیح مذہب ہے، باقی سب مذاہب باطل ہیں اس لیے مسلمان کے لیے کوئی ایسا کام جائز نہیں، جس سے غیروں کی کسی مذہبی چیز کی تعظیم وتکریم یا اس کی تعریف وغیرہ لازم آتی ہو دوسرے نمبر پر غیر مسلموں کے تہوار چونکہ بت پرستی، پوجا پاٹ اور کفر و شرک پر مبنی ہوتے ہیں اس لئے ان کے تہواروں پر خوشی کا اظہار کرنا اور ان کو مبارکباد دینا جائز نہیں ہے۔


اور اس لئے بھی کہ اس میں کافروں سے مشابہت اور ان کے کفر و شرک سے رضامندی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ واقعی وہ اچھا کام کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے مشرکانہ معاملات میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا کیسے جائز اور درست ہوسکتا ہے؟ اس لئے غیر مسلموں کے مذہبی تہوار پر انہیں مبارکباد دینے سے بچنا واجب ہے۔


لیکن جہاں سخت مجبوری کی صورت ہو مثلاً مسلمان اقلیت میں ہوں اور ملک میں مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلانے والوں کو مزید منافرت پھیلانے کا موقع ملے گا وہاں اگر محض کسی جائز مصلحت کی بناپر توریۃً مبارکباد دی جائے ،جب کہ دل میں اس تہوارکی عظمت نہ ہو اور مجمل الفاظ بولے جائے تو ضرورت کی بنا پر اس کی گنجائش ہوگی مثلاً یوں کہہ دے کہ میری نیک تمنائیں تمھارے ساتھ ہیں اور نیت یہ ہو کہ اللہ تعالی تم کو ایمان نصیب فرمائیں، تہوار وغیرہ کی تعظیم یا تعریف وغیرہ ہرگز مقصود نہ ہو توشرعاً اس کی گنجائش ہوگی۔


مسؤلہ صورت میں غیر مسلموں کے تہواروں  کے موقع پر ان کو مبارکباد دینا  ان سے مودت و محبت کی علامت ہے جس کی وجہ سے علماء نے ایسے مواقع پر ان کو اس تہوار کی تعظیم کی خاطر مبارکباد دینا یا ان کو ہدایا دینا ممنوع قرار دیا ہے۔ بلکہ اگر اس سے ان کے دین کی تعظیم  مقصود ہو تو اس میں کفر کا قوی  اندیشہ ہے


فتاوی عالمگیری میں ہے 

اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم: خوب سیرت نہاوند یکفر ۔۔۔۔۔۔۔ وما یھدی المجوس یوم النیروز من أطعمتھم إلی الأشراف ومن کان لھم معرفة لا یحل أخذ ذلک علی وجہ الموافقة معھم وإن أخذہ لا علی ذلک الوجہ لا بأس بہ والاحتراز عنہ أسلم (الفتاوی البزازیة علی ھامش الھندیة، ٦/۳۳۳ ط: مکتبة زکریا دیوبند)


فتاوی تاتارخانیہ میں ہے 

اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم خوب رسمے نہادہ اند أو قال نیک آئیں نہادہ اند یخاف علیه الکفر (الفتاوی التاتارخانیة،٧/٣٤٨)


البحر الرائق میں ہے 

(والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لايجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام، بل كفر، وقال أبو حفص الكبير - رحمه الله -: لو أن رجلًا عبد الله تعالى خمسين سنةً، ثم جاء يوم النيروز وأهدى إلى بعض المشركين بيضةً يريد تعظيم ذلك اليوم فقد كفر وحبط عمله ( البحر الرائق  ٨/٥٥٥


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

کوئی تبصرے نہیں: